میں گوشت نہیں کھا سکتا!!

شیریں حیدر  اتوار 21 اکتوبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ ارے آپ خود تو کچھ لے ہی نہیں رہے!! ‘‘ میری نظر ان کی پلیٹ کی طرف گئی تو میں چونک گئی۔ مانا کہ وہ میزبان تھے اور دوسروں کو کھلانے میں مصروف تھے مگر ان کے بیوی بچے بھی تو اپنے اپنے ہاتھوں میں پلیٹیں لیے، دوسروں کو تازہ بار بی کیو پیش کرتے ہوئے ،ساتھ ساتھ خود بھی کھا رہے تھے۔ سارے ماحول میں کوئلوں پر بھننے والے گوشت اور کبابوں کی خوش بو پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ گرما گرم تازہ بار بی کیو کھا رہے تھے۔ اس طرح کھایا بھی زیادہ جاتا ہے اور طبیعت پر گرانی بھی محسوس نہیں ہوتی۔

’’ نہیں … میں کھا رہا ہوں !! ‘‘ انھوںنے فوراً کہا، ان کی پلیٹ میں کچھ تازہ سلاد تھا اور تھوڑی سے سبزی کے سالن کے ساتھ وہ گھر کی بنی ہوئی تازہ روٹی کو ہولے ہولے ٹونگ رہے تھے۔

’’ طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی بھائی صاحب؟ ‘‘ میں نے پھر سوال کیا توکافی لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

’’ جی… جی ہاں ، میں بالکل ٹھیک ہوں !! ‘‘ وہ مسکرا کر بولے۔’’ آپ تھوڑی سی سبزی ڈال کر اسی سے کھلواڑ کر رہے ہیں بھائی!! ‘‘ کسی اور نے کہا۔ میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔’’ بس میں گوشت نہیں کھا سکتا… ‘‘

’’ آپ ٹھیک ہیں نا؟ ‘‘ میں نے ہچکچا کر کہا۔

’’ فکر نہ کریں، میں بھی ٹھیک ہوں اور سارا گوشت بھی ٹھیک ہے… بالکل حلال ہے اللہ کے فضل سے!! ‘‘ وہ ہنس کر بولے۔ میرا ادھورا سوال ان کو پورا مطلب سمجھا گیا تھا۔ ’’ میرے گوشت نہ کھا سکنے کی کوئی اور وجہ ہے!!‘‘

’’ چلیں ، اگر ایسی بات ہے تو میں اصرار نہیں کروں گی! ‘‘ میں سمجھی کہ کوئی ایسا طبی مسئلہ ہے کہ ڈاکٹر نے انھیں گوشت کھانے سے منع کیا ہوگا اور ان کے اس ذاتی مسئلے کو کریدنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔

’’ آپ لوگ رکیں، سبز قہوہ پیتے ہیں اور کچھ باتیں بھی کرتے ہیں اپنے ملک کی!! ‘‘ کھانا ختم ہوا تھا اور لوگ میٹھا کھا کر روانہ بھی ہونے لگے تھے جب انھوں نے ہمیں روکا ۔’’ آپ لوگ آرام کریں!! ‘‘ میں نے ان سے کہا۔’’ کوئی تکلف کی بات نہیں ، آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں !! ‘‘ انھوں نے اصرار کیا تو ہمیں رکتے ہی بنی۔

میں لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا تو میرے والد صاحب کی اچانک موت کے باعث گھر میں غربت کد کڑے لگانے لگی۔ ماں لوگوں کے گھروں میں چھوٹے موٹے کام کر کے تھوڑا سا عوضانہ لے کر آتی تو کھینچ تان کر گھر کی گاڑی چلتی تھی۔ کوئی پانی، بجلی اور گیس کا بل نہ تھا کیونکہ یہ ساری سہولتیں ہمارے گھر میں نہ تھیں۔ عموماً تو ہم پیاز کے ساتھ تازہ یا باسی روٹی کھا لیتے تھے مگر کسی دن کوئی ترس کھا کر سبزی دے جاتا تو ماں اس سبزی کو مسالے ڈال کر ابال لیتی تھی اور ہم اسے صبر شکر کر کے کھالیتے تھے۔ ماں نے نہ کبھی خود اپنی غربت اور تنگدستی کا شکوہ کیا تھا نہ ہمیں اس کی اجازت تھی ، جو ملتا تھا اسی پر قناعت کر لیتے تھے۔ میں اس کا سب سے بڑا بیٹا تھا، مجھ سے اس کی ساری امیدیں وابستہ تھیں اس لیے جو بھی کچھ اچھا ملتا وہ میرے لیے رکھتی۔ بالخصوص اگر کسی کے ہاں سے کوئی ایسا سالن آ جاتا جس میں کوئی اکلوتی بوٹی تیر رہی ہوتی تھی تو ماں اسے چھپا کر میرے لیے رکھ لیتی تھی اور موقع دیکھ کر مجھے تنہائی میں اپنے پاس بٹھا کر کھلاتی تھی۔

’’ تو جلدی سے بڑا ہو جا بیٹا، کام کر کے کمانے لگے گا تو ہم بہت سا گوشت پکایا کریں گے اور تیرے سارے بہن بھائی پیٹ بھر کر کھایا کریں گے!! ‘‘ ماں مجھے دیکھ کر کہتی اور اپنے پیوند لگے دوپٹے سے میرے ماتھے سے پسینہ پونچھتی تھی۔’’ آپ خود نہیں کھایا کریں گی اماں ؟ ‘‘ میں سوال کرتا۔

’’ کیوں نہیں کھاؤں گی، اپنے بیٹے کے ہاتھ کی حلال کی کمائی سے میں بھی پیٹ بھر کر کھاؤں گی، لیکن اس وقت جب میرے سارے بچے پہلے پیٹ بھر کر کھالیا کریں گے!!‘‘

’’ اس سے پہلے کیوں نہیں اماں ؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔…’’ میںنے تو پھر بھی کبھی نہ کبھی گوشت کھایا ہی ہے بیٹا مگر تیرے چھوٹے بہن بھائیوں نے تو کبھی بھی نہیںکھایا۔ انھیں تو گوشت کے سالن کا شوربہ بھی نہیں نصیب ہوتا… ‘‘

’’ تو یہ سالن سب کو بانٹ دیا کریں نا اماں یا پھر سب کو باری باری!! ‘‘ میں شرمندہ سا ہو جاتا۔

’’ ارے نہیں کملے… تو تو بڑا ہے نا اس گھر کا، تجھے جلد جوان ہونا ہے اور اس گھر کا سارا بوجھ اٹھانا ہے تو سارے پیٹ بھر کر کھائیں گے جو کچھ بھی کھانا ہو گا!! ‘‘ وہ مجھے سمجھاتیں اور میرا احساس شرمندگی کم ہو جاتا۔’’ ہوں … ‘‘ وہ رکے تو میں نے گہری سانس لی، ’’ پھر؟ ‘‘

’’ پھر میں نے ہاتھ پاؤں مارے، سو جتن کیے اور اماں کو وہ چھت بھی بیچنا پڑی جو اس کے ساتھ ساتھ میرے بہن بھائیوں کا سائباں تھی۔ میں ایجنٹ کو تھوڑی رقم دے کر اور باقی رقم کما کر لوٹانے کے عہد کے ساتھ یہاں پردیس میں آ گیا۔ یہا ں آ کر میں نے دن رات محنت کی، اپنا قرض لوٹانے میں مصروف رہا اور کبھی تھوڑی سی رقم پس انداز کر کے کسی آتے جاتے کے ہاتھ اماں کو بھجوانے لگا۔ چند سال میں میں نے اپنا سارا قرض اتارا اورکچھ رقم جمع کر کے اماں سے ملنے کا ارادہ کر کے پاکستان کے لیے روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر اماں کو دیکھ کر دل ہزار ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، دھڑکنیں تھم سی گئیں، اماں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھیں۔ بہن بھائیوں کی فکروں نے ان کی ساری طاقت نچوڑ کر انھیں کمزور کر دیا تھا۔

’’ اماں آپ دودھ نہیں پیتیں… گوشت نہیں کھاتیں؟ ‘‘ میں نے انھیں اپنی بانھوں میں بھر لیا تو مجھے یوں ہی لگا کہ ہڈیوں کا بنا ہوا وجود ہو۔

’’ کھاؤں گی بیٹا… جب تو اچھا کمانے لگے گا تو!!‘‘ میں ایک عجیب سے پچھتاوے میں ڈوب گیا۔ میں خود نہ آتا تو اماں کو یہ رقم بھی بھجوا دیتا، کم از کم ان کے کسی کام آ جاتی، ’’ اب تو ایک ایک سانس گن گن کر لیتی تھی بیٹا، چھ سال کے بعد آیا ہے تو! اب بھی نہ آتا تو ماں تیری راہ تکتی تکتی اندھی ہو جاتی! ‘‘ اماں کے کہنے پر مجھے احساس ہوا کہ میں غلط سوچ رہا تھا۔ ’’ تیرا لمس اور تیری خوشبو ملی ہے نا اب تو میں ٹھیک ہو جاؤں گی اور تو اطلاع دے کر نہیں آیا ورنہ میں اچھا سا کھانا بناتی… چل اب کل میں گوشت بھی پکاؤں گی اور سب مل کر پیٹ بھر کر کھائیں گے!! ‘‘ ماں نے کہا تو میں کھل سا گیا۔ کل میں اماں کے ہاتھ کا پکا ہوا گوشت نہ صرف کھاؤں گا بلکہ اپنے ہاتھوں سے اماں کو بھی کھلاؤں گا… اور وہ اگلا دن نہیں آیا۔ ہاں البتہ اماں کے مرنے کا کھانا لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا کیونکہ ہمارے طبقے کے لوگوں کو گوشت ایسے ہی موقعوں پر کھانے کو ملتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، میں گوشت نہیں کھا سکتا۔ گوشت خرید کر لاتا ہوں، گھر میں ہر روز گوشت پکتا ہے، سب لوگ شوق سے کھاتے ہیں، مجھے بھی اچھا لگتا ہے مگر گوشت کی ایک بوٹی بھی میرے حلق سے نیچے نہیں اترتی، گلے میں پھنس کر سانس کو بھی روک دیتی ہے!! ‘‘

’’ کیا یہ سب نفسیاتی مسئلہ ہے؟ ‘‘ میںنے ہچکچا کر سوال کیا۔ ’’ ڈاکٹر اور ٹیسٹوں کی رپورٹیں تو یہی کہتی ہیں کہ جسمانی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے… نفسیاتی ہی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ یہ ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے سے میرے اپنی ماں سے محبت کے وہ جذبات چھپے ہیں کہ جونہی گوشت کھانے لگتا ہوں ماں کا ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا وجود سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہی، تب تک میرے حالات ہی ایسے اچھے نہ ہوئے تھے کہ گھر میں رزق کی فراوانی ہوتی اور اب اتنا سب کچھ ہے مگر میری ماں نہیں ہے۔ میرے دل پر بہت بوجھ ہے جو کسی سے بانٹ بھی نہیںسکتا ۔ مجھے اس کے ہاتھوں سے چھپا کر کھلائی جانے والی ہر ہر بوٹی کا ذائقہ آج بھی محسوس ہوتا ہے اور ماں کی محبت کی لذت بھی مگر اب سب کو کھاتا دیکھ کر خوش ہوتا ہوں، خود کھا نہیں سکتا!! ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔