سیرت و بصیرت

انیس باقر  اتوار 21 اکتوبر 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

اس بار جو موضوع گفتگو ہے وہ کوئی مذہبی موضوع نہیں بلکہ یہ ایک عوامی مسئلہ ہے، جس پر آنحضرتؐ نے خود نبوت کے اعلانات سے قبل عمل کرکے دکھایا۔ تاریخی اوراق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اعلان حق کے روز ہمارے نبیؐ سرکار دوجہاں نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک خونخوار لشکر حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے تو کیا آپ لوگ یقین کرو گے؟

مجمع نے جواب میں ہاں کہا۔ گویا نبوت کے اعلان سے قبل ہی انھوں نے سچائی کو اپنا شعار بنا رکھا تھا، یعنی جو بھی کہا وہ سچ کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔ یہ عمل تھا جو تمہید تھی۔ باقاعدہ تبلیغ نبوت سے پہلے یہ وہ دور تھا جب نہ الیکٹرونک میڈیا ہوتا تھا، نہ ہی کوئی سائیکلو اسٹائل مشین۔ سوچیے ہمنوا بنانا عقائد کی تشریحات کا کس قدر مشکل دور تھا۔ یعنی انسان کی ہزار گنا زیادہ محنت طلب کاوش تھی۔

اسی دور میں آپ کو صادق و امین کے خطاب سے نوازا گیا۔ مگر یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ خود کو ان کا فرماں بردار اور ان کو ختمیؐ مرتبت قرار دیتے ہیں اور ان کے دین کا پاسدار کہتے ہیں، ان کی سیرت پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں، بلکہ ان کے ارشاد گرامی کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ پہلے خود عمل کرکے دکھائیں اور بعد میں دوسرے کو ترغیب دیں۔

ایسا کرنا پاکستانی حکمرانوں کا شیوہ نہیں، جو بھی آیا علم و فہم میں کوتاہ ہی رہا۔ کیونکہ فریب کاری، تفکر کی قاتل ہے۔ اسی لیے ایک پرانے حکمران کے بقول جو بھی آیا وہ ایک خلائی مخلوق کے ایما پر اپنی حکومت کی باگ ڈور چلاتا رہا، جب وہ تیسری بار آیا اور شہنشاہوں کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا، تو پھر تکبر کو خاک میں ملانے والی آسمانی قوت نے عوام کی شکل میں اس کی باگ ڈور کھینچ لی اور ایک دن کے لیے بھی اہل پنجاب نے ہڑتال نہ کی۔ وہ اس خام خیالی میں ہی رہے کہ وہ پنجاب کے شیخ مجیب ہیں۔ حالانکہ میں کئی مرتبہ ماضی میں یہ تحریر کرچکا کہ پنجاب میں ان کی حکومت بیلٹ پیپر تک محدود ہے۔

اس موقع پر مائوزے تنگ کا یہ خیال پیش خدمت ہے کہ اپنی تنقید اور ذاتی تجزیہ ہر انسان کو کرنا چاہیے، یعنی سیلف کریٹی سزم اور سیلف اینالائسیز۔ مگر پاکستانی حکمرانوں نے لیاقت علی خان کے بعد بھی اور خود انھوں نے بھی حالات کا تجزیہ نہ کیا اور آفت ناگہانی کے علاوہ سازش کا شکار ہوئے، یہاں ان کی سیرت پر بدگمانی کا الزام لگانا تو کسی طرح بھی جائز نہیں، البتہ بصیرت میں کمی ہوسکتی ہے، مگر یقین سے کہنا بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ڈالر 5 روپے کا ہوا کرتا تھا، لہٰذا آج کے حکمرانوں کا بھلا ان سے کیا تقابل۔

ذرا سوچیے کہ عوام نے اس سفر میں کس قدر مشکلیں برداشت کی ہوںگی کہ آج ڈالر 135 کے قرب و جوار میں چکر لگارہا ہے اور دوربینی کی کوتاہی اور تجزیہ نگاری کی کمی یہ بتارہی ہے کہ ڈالر 150 روپے کے سفر پر آمادہ ہے، کیونکہ ان میں فلسفی، دانشور اور ماہرین معیشت کا کوئی شخص موجود نہیں۔ یہ چڑھتے سورج کی راہوں پر چلنے کو تیار ہیں۔ ان میں پرویز مشرف یا ماضی کے حکمرانوں کو سلام کرنے والے بھی ہیں۔ مگر عالم فاضل لوگوں کو کون حکومت میں لائے گا۔ یہ لوگ تو میڈیا سے دور رکھے جاتے ہیں کیونکہ ان کی تنقید کو سراہنے والا کوئی نہیں۔

انتخابات سے قبل عوام کو جو خواب دکھایا جارہا تھا تو لوگ اسی کے حصار میں تھے کہ وزارت خزانہ نے یہ بتایا کہ ریڈیو پاکستان اور اس قسم کی زمینوں اور اداروں کو فروخت کرکے ملک کی قسمت بدلی جاسکے گی۔ بھلا ملک کو چلانے والے لوگ املاک اور تفکرات کی اڑان سے اس قدر ناواقف ہیں کہ سعودی عرب کے لیے یہاں سے یہ بیان دیا گیا کہ سی پیک میں سعودی عرب پارٹنر ہوگا اور گویا مختار کل کی شکل میں ہوگا۔ جس پر چینی حکومت کی وزارت خارجہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا، پھر سی پیک سے سعودی عرب کا کوئی ناتا نہ رہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ میں اس واضح عمل کو کوئی بیان سے قبل قیاس نہ کرسکا کہ اس کا بین الاقوامی طور پر کیا اثر ہوگا، اور دوست ممالک میں اس بیان سے کیا جواب آئے گا۔ جب کہ خطے میں ویسے ہی پیچیدہ سیاسی صورتحال ہے۔

خصوصاً بھارت اور افغانستان میں اور اب چونکہ گیس پائپ لائن جو ایران سے پاکستان کے بارڈر تک آئی ہوئی ہے، اس کو امریکی خوف سے نہ کھولا گیا اور گیس کی قیمت آسمان کو چیر کر خلا سے گزر گئی، جب کہ عوام میں اس عمل سے مایوسی پھیل گئی۔ میں نے اس مسئلے پر ذاتی طور پر بس مالکان اور رکشہ ڈرائیوروں سے بات کی تو ان کا برملا یہ کہنا تھا کہ حکومت بالکل نئی ہے، ہم نے یہ کڑوا گھونٹ اس لیے پی لیا کہ ہم اس امید پر ان کو لائے کہ کچھ سہولت ملے گی، مگر اول روز سے غریبوں پر خنجر چلایا جارہا ہے اور اگر ہم کراچی کے روڈ بلاک کرتے تو لاٹھی ڈنڈے اور فائرنگ سے صورتحال بد سے بدتر ہوجاتی، اس لیے مزدوروں نے یہ مصیبت ٹال دی مگر صورتحال سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ مزید ابتر دن آنے کو ہیں۔

ابھی کرنسی ڈی ویلیو کرنے سے 900 ارب کا خسارہ ہوا تو دوسرے موضوعات پر گفتگو کرنے اور حل کرنے کے لائق مسائل کو حل کرنے کی کابینہ اہلیت نہیں رکھتی۔ جو لوگ الیکشن جیت گئے ان کو ہم مانیںگے ضرور۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے، مگر ان لوگوں کو ہمنوا، فلسفی یا کسی شعبہ میں مہارت نہیں رکھتے، لہٰذا مدینہ کی ریاست کا خواب اور مغربی جمہوریت، حقیقتاً یہ مصرعہ موضوع کے اعتبار سے صادق آتا ہے کہ ’’دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ اب نئے پاکستان کا تصور شاید کسی ایسے خواب کی تعبیر ہے جو دیکھا نہ گیا۔ اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ رہبروں پر توکل نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ ان کا ماضی علمی اور عقلی کارناموں اور کردار آبدار نہ ہو۔

اس موقع پر فیض احمد فیضؔ یاد آگئے جب زمانہ طالب علمی میں سالانہ کونسل سیشن کو کسی بڑی شخصیت کو اسٹیج پر بٹھانا پڑتا تھا تو کوئی بھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ میں صدارت کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ آخرکار صدارت کو فیض احمد فیضؔ کے گھر ہی جانا ہوتا تھا۔ وہ ان دنوں پی ای سی ایچ ایس میں قیام پذیر تھے، جب کبھی ذاتی طور پر یاد ماضی کی باتیں کرتے تھے اور شجاعت کو یاد کرتے تھے تو دوسرے لمحہ یہ کہہ دیتے تھے کہ اب ان بازوئوں میں صرف قلم پکڑنے کی تاب ہے۔ ان کے ہم عمر ساتھیوں میں اب ظفر اللہ پوشنی حیات ہیں، جنھیں کبھی کبھار صحافیوں کی انجمنیں یا ادبی کمیٹی کے لوگ ماضی کی تحریکیں یاد دلانے کے لیے پروگرام میں بلاتے ہیں۔

یادوں میں اس سرزمین کی بلند سیرت اور صاحب بصیرت شخصیات کو یاد کرتے تھے، جو غریب کا نام ووٹ کے لیے نہیں سپورٹ کے لیے لیا کرتے تھے جیسے کہ سید سبط حسن، جو مورخ، ادیب اور نقاد تھے۔ انھوں نے 70ء کی دہائی میں حبیب جالبؔ کے لیے مال روڈ لاہور میں چادر پھیلائی تھی اور ایک روز میں ہی ان کو ذاتی گھر میں بٹھا دیا تھا۔ سیرت اور بصیرت میں بلا کی دوستی ہے، جس کی بصیرت بلند ہوتی ہے وہ برسہا برس دور کے واقعات کو سمجھ لیتا ہے کہ ہم جو عمل کریںگے اس کا ردِ عمل کیا ہو گا۔ مگر جو زر اور اقتدار کا متلاشی ہوتا ہے خود اس کا شعور دوربینی کو چھین کر طاقِ نسیاں میں رکھ دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں نہ صرف خود بلکہ کروڑوں لوگوں کو وہ بے توقیر کر دیتا ہے۔

افریقی ممالک اور دنیا کے پسماندہ ملکوں میں ایسے رہنمائوں کی کثرت ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے تین پروفیسر حضرات کو سر عام ہتھکڑیاں ڈال کر عدالت میں پیش کیا گیا، جن کی عمریں 70 سال کے لگ بھگ یا زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور پولیس کو بھی ڈانٹا۔ دراصل اس میں پولیس مین کا قصور نہیں بلکہ اعلیٰ حکام کی ہدایت پر پولیس مین نے یہ عمل کیا۔ یہ استاد ملک کے جواہرات ہیں۔ ایسے لوگوں پر علامہ اقبال یہ شعر صادق آتا ہے

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

لہٰذا دھیان گیان والے لوگوں کی قدر و منزلت ضروری ہے، کیونکہ دھیان گیان والے لوگ جن کو ہم صاحبان بصیرت کہتے ہیں وہ یقیناً اعلیٰ اوصاف کے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی ذات کے علاوہ کائنات کے مد و جزر پر نظر رکھتے ہیں اور یہی لوگ ملک کی نائو کو طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سیرت اور بصیرت والے اشخاص کی قدر ضروری ہے تاکہ ملک جدید دنیا کے ساتھ چل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔