انا الحق… انا الحق… انا الحق !

زاہدہ حنا  اتوار 21 اکتوبر 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہمارے وزیر، امیر،کبیر، جاہ وحشم اور طبل وعلم والے آج اس بات پر حیران ہیں کہ اگر چند استادوں پر مبینہ بد عنوانی کے الزامات عائد کیے گئے اور اس کی پاداش میں انھیں ہتھکڑیاں لگاکر عدالت میں پیش کیا گیا تو اس میں ایسی کیا قیامت آگئی۔

ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں لائے جانے والے اساتذہ کے نام ہم سب کو یاد ہیں لیکن جن کے حکم سے یہ سب کچھ ہوا، ان کے نام نامی اسم گرامی تو شاید کسی کو یاد نہیں۔ ان کے گھر والے بھی ان ناموں کو یاد رکھنے سے کترا رہے ہیں۔ ایسے میں فیضؔ صاحب کی ایک نظم یاد آتی ہے۔

انھوں نے اپنے کسی انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1959ء میں جب پولیس لاری مہیا نہ ہونے پر ہم اپنے چند ساتھی قیدیوں کے ساتھ ایک تانگے میں بٹھا کرلاہورکی کسی بڑی سڑک سے گزارے گئے تو ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور دکاندار اپنی اپنی دکانوں سے نکل کر فٹ پاتھ پر آگئے تھے اور ہمیں دیکھ رہے تھے کیونکہ اس وقت تک وہ معروف ہو چکے تھے۔ فیضؔ صاحب نے لکھا:

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بجولاں چلو

دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو

خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

حاکمِ شہر بھی، مجمعٔ عام بھی

تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی

صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہوں آئیں یارو چلو

لاہور جیل

گیارہ۔ فروری 1959ء

فیضؔ صاحب کی یہ نظم ان کی مقبول ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ آج 59 برس بعد ہتھکڑیاں لگانے والے شاید تہ خاک جا سوئے ہوں اور فیضؔ کا نام سورج کی طرح چمکتا ہے۔

اس وقت تاریخ اسلام کے کئی واقعے یاد آرہے ہیں جن میں سزا پانے والوں کے ناموں کی ایک کہکشاں ہے جو تاریخ کے صفحوں پر جگمگاتی ہے اور ان کو سزائیں دینے والے، انھیں ذلیل و رسوا کرنے والے گمنام ہو چکے۔ ایسا ہی ایک نام حسین ابن منصور حلاج کا ہے۔ اس نے عمر عبادت اور ریاضت میں صرف کی اور پھر جس نتیجے پر پہنچا، اسے بیان کرنے میں اس نے دیر نہ کی۔ نعرۂ انا الحق اس کی زبان سے نکلا اور زنداں کے تاریک حجروں سے نکل کر عروس البلاد شہر بغداد میں پھیل گیا۔

قاضی ابو عمرکی عدالت میں وہ پابہ جولاں لایا جاتا ۔ زنجیریں ہر قدم پر چھنکتی اور وہ ان کی تال پر رقص کرتا ہوا آتا۔ اور سخت باز پرس کے بعد اسی طرح واپس چلا جاتا۔ اسے نہ کسی سے شکایت تھی اور نہ وہ خلیفہ یا وزیر یا قاضی القضاۃ سے کسی رعایت کا طالب تھا۔ وہ آخری بار عدالت میں لایا گیا تو اس کے پیروں میں تیرہ وزنی بیڑیاں اسے لڑکھڑا رہی تھیں۔اور پھر قاضی القضاۃ نے،کوتوال شہر نے اور دوسرے افسروں نے حسین ابن منصورکے فتویٔ قتل پراپنی اپنی مہر لگائی۔

مادر ملکہ اور کئی دوسرے اسے زندان سے فرار کرانا چاہتے تھے لیکن وہ دیوانہ فرارکے لیے راضی نہ تھا۔ اس کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے خلیفہ مقتدر باللہ سے اسے سنگسار کرنے، مسلہ کرنے، ایک ہزار درے مارے جانے اور پھر دار پر چڑھا دینے کے احکامات حسین سے حسد کرنے والے نے لیے تھے۔ پھر صبح طلوع ہوئی بغداد کے لوگ گھروں سے نکل آئے۔ ان میںسے اکثر رو رہے تھے، کچھ ہچکیاں لے رہے تھے۔

اس کی ننگی پیٹھ پر ہزارکوڑے برس گئے لیکن اس نے اُف نہ کی، اگر بہ آواز بلند کہا تو وہی کلمہ جس کی اسے سزا مل رہی تھی۔ پھر اس کی انگلیاں، اس کے بازو اس کے پیرکترے جانے لگے اور اس کے بدن کا ریشہ ریشہ انا الحق پکارتا رہا۔ اس پر ہنسنے والے، اب رورہے تھے، آہ و بکا کر رہے تھے۔ پھر اس کا سر اڑادیاگیا، اس کا لاشہ دار سے اتارا گیا اور اس کا سر،کٹے ہوئے بازو، پیر اورکتری ہوئی انگلیاں سب آگ کی نذرکر دی گئیں۔ یوں اس شخص کا انجام ہوا جسے دنیا کی خواہش نہ تھی، تمنا صرف شہادت کی تھی۔اس کا خون بہانے کی آرزوکرنے والا یہی سمجھاکہ وہ فاتح رہا اور حسین مفتوح لیکن آج سیکڑوں برس بعد لوگ حسین بن منصور حلاج کے نام کی تکریم کرتے ہیں اور اسے مٹا دینے والے کا نام بہت تحقیق کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے۔

اسی طرح شیخ مقتول حضرت شہاب الدین سہروردی کا معاملہ ہے۔ 586ھ میں جان سے گزر جانے والے شیخ مقتول کو بھی کفر والحاد کا بہانہ بنا کر 36 برس کی عمر میں ختم کر دیا گیا۔ ان دنوں سیاسی اختلافات پرکفر والحاد کا پردہ ڈال دیا جاتا تھا ۔ یہی کچھ شیخ مقتول کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ علم و فضل میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ بہت سے علماء کو ان سے حسد ہوتا تھا۔ انھیں سلطان صلاح الدین کے حکم پر قتل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ الاشراق کو یہ اختیار دیا گیا کہ اپنی ہلاکت کا جو طریقہ وہ چاہیں اختیار کریں۔

شیخ مقتول عبادت و ریاضت میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ روزے رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا جائے اور میرے لیے دانہ و پانی موقوف کر دیا جائے تاکہ میں خدا کے حضور پہنچوں توروزے سے ہوں۔ ان کی یہ خواہش پوری کی گئی۔ وہ حلب کے قلعے میں قیدکیے گئے اور پھرکئی ماہ بعد جب ان کا حجرہ کھولا گیا تو وہ جان سے گزر چکے تھے۔ ان کی لاش شہرکے باہر دفن کر دی گئی اور ان پر ایمان رکھنے والے تتر بتر ہو گئے۔ ان کے کسی مرید نے ان کی قبر پر شعر لکھ دیا کہ ’’اس قبر میں رہنے والا ایک پوشیدہ موتی تھا جو خدا کی نگاہ میں بیش قیمت تھا لیکن زمانے کی ناقدری کے سبب خدا نے اس کو پھر سے سیپ میں بندکر دیا۔‘‘

شیخ مقتول کی کتاب ’’حکمۃ الاشراق‘‘ دنیائے اسلام کی اہم کتابوں میں سے ہے۔ انھوں نے بھی اپنے حاسدین کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھائیں اور قتل کیے گئے۔ اپنی شہادت کے وقت سے آج تک ان کا نام نامی آسمان کو چھوتا ہے اور انھیں خاک میں ملانے والے، خاک ہوچکے ہیں۔

یہاں ان دو عظیم ناموں کی مثال دے کر مقصد یہ نہیں کہ آج جن اساتذہ کی توہین کی گئی، جنھیں ہتھکڑیاں پہنا کر ذلیل و رسوا کیا گیا، ان شخصیتوں سے موازنہ مقصود ہے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جب بھی اعلیٰ مناصب پر فائز افراد اپنی حد سے باہر نکلتے ہیں تو ان کا مقدر صرف رسوائی ہوتی ہے اور ان کے قریبی افراد بھی ان سے کترا کر نکلتے ہیں۔

ہم دور کیوں جائیں، حسن ناصر اور نذیر عباسی کی مثالیں لیں جن کی ہم تعظیم وتکریم کرتے ہیں، جن کی قبروں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں لیکن انھیں ایذا دینے والے،انھیں قتل کرنے والے گمنام ہیں۔ ان کاخانوادہ اترا کر یہ نہیں کہتا کہ ہمارے باپ ان کے قاتل تھے۔

زمانہ ابن رشد پر تھوکنے والوں کو جانتا بھی نہیں۔ اس کی کتابیں قرطبہ کے چوک میں جلائی گئیں، جن میں سے چند اس کے یہودی شاگرد اپنی آستینوں میں چھپاکر اٹلی لے گئے تھے، وہاں ان کے تراجم ہوئے اور 400 برس تک اس کے فلسفے نے یورپ پر حکومت کی۔ یورپ اگر تاریک دور سے نکلا اور سائنسی نکتۂ نظر کی طرف راغب ہوا تو یہ ابن رشد کے شاگردوں کی مہربانی تھی۔

دنیا میں ہر جگہ اساتذہ کے شاگرد سیکڑوں ہوتے ہیں، شاگرد ان لوگوں کو نظر میں رکھتے ہیں جنھوں نے ان کے اساتذہ کی توہین کی ہو۔ آج کے حکمران یہ بات یاد رکھیں توکیا ہی اچھا ہو۔ ان کے نام توکل بھلا دیے جائیں گے اور جنھیں یاد رہے، وہ ان پر سب و شتم ہی کرتے رہیں گے۔ آپ استادوں سے کھلواڑ نہ کریں توآپ کے حق میں ہی بہتر ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔