کنیریا کا ضمیر اچانک کیسے جاگ گیا؟

سلیم خالق  اتوار 21 اکتوبر 2018
ہمارے ملک میں کرپشن پر زیرو ٹالرنس کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہے نہیں فوٹو:فائل

ہمارے ملک میں کرپشن پر زیرو ٹالرنس کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہے نہیں فوٹو:فائل

اس دن جب میں دفتر پہنچا اور گاڑی پارک کی تو برابر میں ایک اور کار آ کر رکی، اس میں چار افراد سوار تھے، ان میں سے ایک نیچے اترے اور میرے ساتھ ہی دفتر کی طرف جانے لگے، میں نے دیکھا تو وہ کرکٹر دانش کنیریا تھے، انھوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور شکوہ کرنے لگے کہ ’’ آپ ہمیشہ میرے خلاف لکھتے رہتے ہیں، میں بے قصور ہوں، انگلش بورڈ نے سازش کر کے مجھے پھنسایا‘‘ اتنے میں ہم دونوں ریسیپشن پر پہنچ گئے۔

وہ کسی اور سے ملاقات کیلیے آئے تھے لہذا میں مسکراتا ہوں اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب چلا گیا، اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو بڑے سے بڑا کام کر کے بھی کبھی غلطی تسلیم نہیں کرتے، مجھے سلمان بٹ اور محمد آصف بھی یاد آئے جنھوں نے لندن کے کراؤن کورٹ میں سزا سے پہلے مجھ سے ملاقات میں کچھ ایسا ہی کہا تھا کہ ’’ہم بے گناہ ہیں، کوئی غلطی نہیں کی‘‘۔

بعض کرکٹرز کے بارے میں  آپ کو لگتا ہوگا کہ میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کے باوجود قومی ٹیم میں واپسی کی مخالفت کرتا ہوں، اس کی وجہ بھی ایسی ہی باتیں ہیں مگر ظاہر ہے میں یا کوئی اور صحافی جیمز بونڈ تو نہیں، جب آئی سی سی کو ثبوت نہیں مل پاتے تو ہمیں کیسے ملیں گے، اس لیے خاموش رہنا پڑتا ہے، دانش کنیریا سے 6 سال میں 6 ہزار بار لوگوں نے پوچھا ہو گا کہ کیا کبھی فکسنگ کی مگر ان کا جواب ہمیشہ نفی میں ہوتا، حیران کن طور پر ہمارے میڈیا کے کچھ ساتھی اور چند سابق کرکٹرز بھی ہمیشہ ان کی حمایت کرتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: دانش کنیریا نے 6 برس بعدغلطی کا اعتراف کرلیا

دانش نے مذہب تک کا کارڈ استعمال کیا کہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس دوران تقریباً روتے ہوئے ان کے انٹرویوز اب اگر آپ دوبارہ دیکھیں تو بہترین ایکٹنگ پر انھیں آسکر سے نوازنے کا مطالبہ کریں، میری عادت ہے کہ تقریباً روزانہ ہر ٹیسٹ کرکٹنگ ملک کے اخبارات کے اسپورٹس صفحات دیکھتا ہوں، جس وقت کنیریا کا کیس سامنے آیا برطانوی میڈیا کی تب بھی مکمل کوریج دیکھی، چند کھلاڑیوں سے بھی بات ہوئی، کراچی میں ڈومیسٹک میچز کے دوران ان کے بعض ’’ کارنامے‘‘ بھی سامنے آئے، جس سے میں سمجھ گیا کہ وہ قصور وار ہیں مگر دانش ہمیشہ بے گناہی کا راگ الاپتے رہے۔

ان پر پابندی انگلش کرکٹ بورڈ نے لگائی، اسے کیا دشمنی تھی کیرئر تباہ کر دیتا، یقیناً کچھ تو کیا ہوگا، مگر دانش کنیریا نے یہ بات تسلیم نہ کی، اس دوران بنکاک میں چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بھائی ایک ٹیم لے کر گئے اس کے کپتان بھی تاحیات پابندی کے شکار لیگ اسپنر ہی تھے، گزشتہ برس تو انھوں نے اپنی ہی ٹیم بنائی تھی جس کا اسپانسر مبینہ طور پر کوئی بھارتی تھا، اب اچانک ان کا ’’ضمیر جاگ‘‘ اٹھا اور اعتراف جرم کر لیا مگر مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہو گی۔

ان کا انٹرویو چلانے والا عرب چینل ’’الجزیرہ‘‘ ان دنوں فکسنگ کے کئی معاملات کی تحقیقات کر رہا ہے شاید اس کے ہاتھ کچھ نیا ثبوت لگ گیا، یا پھر انھیں بھاری رقم دی گئی، جو بھی ہوا کچھ عرصے میں سامنے آ جائے گا لیکن دانش کنیریا نے اپنا اور پی سی بی کا بہت پیسہ بھی اس کیس میں ضائع کیا، اگر وہ ابتدا میں ہی مان لیتے تو شاید اب تک کچھ ریلیف مل بھی چکا ہوتا، ہمارے یہاں تو ماضی کے فکسرز آج بھی ہیرو بنے پھرتے ہیں اور ہم انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں دانش کو بھی معاف کر دیتے، مگر انھوں نے ایسا نہ کیا بلکہ اب والد کی بیماری کو تاخیر کی وجہ قرار دے رہے ہیں، اگر یہ جواز مان بھی لیا جائے تو وہ کئی سال پہلے انتقال کر گئے تھے تب غلطی تسلیم کر لیتے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن پر زیرو ٹالرنس کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔

پی ایس ایل کے دوران سامنے آنے والے کیس میں کئی کرکٹرز کو بچا لیا گیا اور اب وہ دوبارہ کھیل رہے ہیں، ماضی کے فکسرز کوذمہ داریاں بھی سونپی گئیں، بورڈ کے کئی موجودہ آفیشلز کے بارے میں بھی مشکوک رپورٹس سامنے آئیں مگرکوئی ایکشن نہیں لیا گیا، ایسا کریں گے تو بھگتنا تو پڑے گا ، دانش کنیریا کئی بار کہہ چکے کہ انھیں بورڈ کے ہی ایک ملازم نے بکی انو بھٹ سے ملوایا تھا، وہ جب پاکستان آیا تو کئی آفیشلز کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔

ایک صاحب کا ’’ذکر‘‘ ضروری ہے جو اب بڑی پوسٹ پر موجود ہیں، ان کی تصاویر تک سامنے آئی تھیں، ان لوگوں نے کیوں انو بھٹ سے ملاقات کی کسی نے پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی، مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ بھی ایسا ہوگا، یہاں جو ثبوت کے ساتھ پکڑا گیا وہ چور ہے ورنہ جو کرنا ہو کرو اور ہیرو بن کر رہو، کم از کم میں نے تو اب تک ایسا ہی محسوس کیا ہے، اسی لیے ہر برس ہماری کرکٹ میں کوئی نہ کوئی کرپشن کیس ضرور سامنے آتا ہے، نجانے ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔

(آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔