چند باتیں اسحاق ڈار کے بارے میں

نصرت جاوید  ہفتہ 15 جون 2013
معاشی اصطلاحات کاکچھ پتہ نہیںاورگوروں سےمذاکرات کیسےکیےجاتےہیں اسکا اسحاق ڈارجیسا’’اجڈ لاہوری‘‘کوئی ڈھنگ نہیں جانتا۔

معاشی اصطلاحات کاکچھ پتہ نہیںاورگوروں سےمذاکرات کیسےکیےجاتےہیں اسکا اسحاق ڈارجیسا’’اجڈ لاہوری‘‘کوئی ڈھنگ نہیں جانتا۔

اسحاق ڈار جب قومی اسمبلی میں نواز شریف کی تیسری حکومت کا پہلا بجٹ پیش کر رہے تھے تو مجھے 1998ء کے آخری ہفتوں والے وہ دن بہت یاد آئے جب میری درخواست پر وہ مجھے اپنے گھر بلا کر بڑی محنت سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے پاکستان پر لگی پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی ورلڈ بینک وغیرہ سے معاملات بہتر بنانے کے لیے وہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ساری زندگی صحافت میں گزار دینے کے باوجود میں اقتصادی اورمالیاتی امور کے بارے میں ابھی تک بالکل جاہل ہوں۔

مجھے تو ابھی تک GNP اور GDP جیسی بنیادی اصطلاحات میں فرق سمجھ نہیں آیا ہے۔ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے البتہ میں یہ بات پوری طرح جانتا تھا کہ امریکا اور یورپی ممالک کو ہمارا ایٹمی دھماکا کرنا پسند نہیں آیا۔ نواز شریف نے جب صدر کلنٹن کے بار بار ٹیلی فون کرنے کے باوجود یہ دھماکے کر ڈالے تو ان طاقتور ممالک نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا۔ بھارت کی طرح پاکستان پر بھی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں۔ یہ پابندیاں واجپائی حکومت کے لیے اتنی تکلیف دہ نہ تھیں۔ ان کی حکومت سے پہلے موجودہ کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھارت کی معیشت کے حوالے سے دور رس فیصلے کرنے کے بعد اسے مستحکم بنا دیا تھا۔ دفاعی حوالوں سے روس کا تعاون بھی اس ملک کو بھرپور طریقے سے میّسر تھا۔ پاکستان کے معاملات قطعی سنگین نوعیت کے تھے۔

1988ء سے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کے درمیان تخت یا تختہ والی جنگ 1998ء میں بھی اپنی انتہاؤں پر تھی۔ ان دونوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے غلام اسحاق اور سردار فاروق خان لغاری نے ان کی حکومتوں کو فارغ کیا۔ حکومتوں کے اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی بحران جاری رہا جس کے ہوتے ہوئے اس ملک کی معیشت کو سنوارنے کے لیے کوئی طویل المدت فیصلے کیے ہی نہیں جا سکتے تھے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب مئی 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد مجھے بار بار فون کر کے پوچھتی کہ نواز شریف جوابی دھماکا کرنے میں دیر کیوں لگا رہے ہیں۔ وہ بڑے دُکھ سے اس بات کا اظہار بھی کرتے کہ ان کے ہمسائے یا دفتروں میں کام کرنے والے بھارتی انھیں بزدل اور ایٹمی قوت سے محروم ہونے کے طعنے دے رہے ہیں۔

بالآخر پاکستان نے ایٹمی دھماکا کر ہی ڈالا۔ نواز شریف حکومت کو شدید احساس تھا کہ یہ دھماکا ہوتے ہی امریکا اور اس کے حلیف پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں گے۔ ان کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر فوری طور پر گر جائے گی۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کی غرض سے حکومت نے ایٹمی دھماکا کرنے کے فوراََ بعد پاکستان میں غیر ملکی کرنسی والے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے۔ آپ ان کھاتوں سے پیسے نکال سکتے تھے مگر صرف پاکستانی روپوں میں۔ وسیع تر قومی مفاد میں یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔ مگر غیر ملکی کرنسیوں کے اکاؤنٹ والے سارے پاکستانی بلبلا اُٹھے۔

مجھے سمجھ آ گئی کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والا نعرہ حقیقت میں کتنا کھوکھلا تھا۔ اسی کی روشنی میں آج کل جب اپنے کچھ بہت ہی محب وطن اینکروں کو ڈرون گرانے کے مطالبے کرتا سنتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ بہرحال جب ایٹمی دھماکا ہوا تو سرتاج عزیز وزیر خزانہ تھے۔ نواز شریف نے انھیں گویا قربانی کا بکرا بناکر وزارتِ خارجہ بھیج دیا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے لی۔ مگر سینیٹ کے ایک اجلاس میں اپنی پہلی رونمائی کے دوران اقتصادیات کے یہ ’’عالم‘‘ ٹھس کر گئے۔ نواز شریف نے وزارتِ خزانہ کی بلا اسحاق ڈار کے گلے باندھ دی۔

ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو اسلام آباد کے سازشی ڈرائنگ روموں میں شام کی بیٹھکیں رچانے والوں نے بڑی رعونت سے ان کے خلاف منفی کہانیاں گھڑنی اور پھیلانا شروع کر دیں۔ وہ لوگ میرے جیسے کم علم صحافیوں کو سمجھانا شروع ہو گئے کہ اسحاق ڈار شریف خاندان کے ’’ذاتی منشی‘‘ ہیں۔ انھیں معاشیات کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔ ورلڈ بینک اور IMF کے لوگوں سے وہ کوئی بات نہ کر پائیں گے۔ ان کی انگریزی واجبی ہے۔ معاشی اصطلاحات کا کچھ پتہ نہیں اور گوروں سے مذاکرات کیسے کیے جاتے ہیں اس کا اسحاق ڈار جیسا ’’اجڈ لاہوری‘‘ کوئی ڈھنگ نہیں جانتا۔

دریں اثناء انھیں ٹھوس مذاکرات کے لیے واشنگٹن جانا پڑ گیا۔ صرف ایک رپورٹر کے طور پر میں بڑا متجسس رہا کہ کسی طرح پتہ چلے کہ اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک اور IMF والوں سے کیا اور کس طرح بات چیت کی اور جواباََ کیا ملا۔ سچی بات ہے اس ضمن میں جس پاکستانی سے بات کی اس نے بڑی منفی اور ناخوش گوار خبریں ہی دیں۔ پھر ایک سفارتی تقریب میں میری ملاقات ایک یورپی سفیر سے ہو گئی جسے ان مذاکرات کے بارے میں اس کا ملک پل پل با خبر رکھ رہا تھا۔ میرے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے اس سفارت کار نے یہ جملہ کہا “Your Finance Minister Seems to be a Tough Customer” میرے لیے اس کا یہ فقرہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ عالمی بینک وغیرہ سے مذاکرات کرتے ہوئے ’’شریف خاندان کے منشی‘‘ کہلائے جانے والے نے کافی تھرتھلی مچائی ہو گی۔

اسحاق ڈار سے میرے کوئی ذاتی مراسم نہ تھے۔ اس کے باوجود رپورٹروں والی ڈھٹائی استعمال کرتے ہوئے انھیں ملاقات کے لیے فون کر ڈالا اور انھوں نے فوراً اپنے گھر ملنے کا وقت دے دیا۔ ملاقات میں انھوں نے پوری تفصیل سے مجھے آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ عالمی بینک وغیرہ پاکستان کو اقتصادی طور پر کیسے کیسے داؤ لگا کر شکنجے میں کسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجھے خاک سمجھ نہ آئی۔ بس سر ہلاتا رہا لیکن سمجھ لیا کہ ڈار صاحب کسی طرح بچ بچا کر آ گئے ہیں۔ یہ ’’اجڈ لاہوری‘‘ تو اس ضمن میں اتنا ناکام ہوتا نظر نہ آیا۔ مگر ایک صاحب ڈاکٹر یعقوب ہوا کرتے تھے۔

ان دنوں وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر تھے۔ آج کل اکثر معتبر انگریزی اخباروں میں حکومتوں کو اس ملک کی معیشت سنوارنے کے نسخے بتاتے رہتے ہیں۔ ان دنوں انھوں نے واشنگٹن کو کیا بتایا جس کی وجہ سے پاکستان پر برسوں اپنے ملکی حقائق کی Fact Fudging کا الزام لگتا رہا۔ یہ بات ڈار صاحب خود ہی کبھی منکشف کر دیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔