باغی کی بغاوت

ڈاکٹر منصور نورانی  ہفتہ 15 جون 2013
جاوید ہاشمی جلدواپس اپنی پرانی پارٹی میں جا بھی نہیںسکتے۔انھیں اپنےفیصلےپرملال بھی ہےمگروہ اسکا اظہاربھی نہیں کرسکتے۔

جاوید ہاشمی جلدواپس اپنی پرانی پارٹی میں جا بھی نہیںسکتے۔انھیں اپنےفیصلےپرملال بھی ہےمگروہ اسکا اظہاربھی نہیں کرسکتے۔

جاوید ہاشمی کو اپنی ساری سیاسی زندگی میں شاید اتنی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ جاوید ہاشمی کو صرف چار روز بعد اپنا وہ بیان واپس لینا پڑگیا جو انھوں نے جوشِ خطابت میں نئی قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں دیا تھا۔ میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرنا انھیں اتنا مہنگا پڑے گا شاید انھوں نے سوچا بھی نہ تھا۔

وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر انھوں نے جس پارٹی کا انتخاب کیا ہے وہ انھیں عزت و احترام کا وہ مقام دے گی جس کی تمنا میں وہ گزشتہ 50 سال سے سرگرداں ہیں۔ جس جاوید ہاشمی کو لینے عمران خان کراچی میں بذات خود ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے، اسی جاوید ہاشمی کو دربارِ شاہی میں حاضر ہونے کا حکم دے کر ان کی جو عزت افزائی کی گئی اس کا حال تو جاوید ہاشمی خود جانتے ہیں، البتہ قوم کے تمام لوگوں کو تحریک انصاف کے جانثاروں اور جانبازوںکی سوشل میڈیا پر جاوید ہاشمی کے خلاف چلائی جانے والی اس زبردست مہم کا خوب حال اور احوال معلوم ہے۔

جاوید ہاشمی کو شکوہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں انھیں ان کی قربانیوں کا جائز صلہ نہیں ملا اور پارٹی کی قیادت انھیں مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہے۔ وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ کر وہ جس پارٹی کو جوائن کرنے جا رہے ہیں وہاں ان کے سیاسی کیرئیر کے پچاس برسوں کو دیکھتے ہوئے ان کی شخصیت کے مطابق بلند و بالا مقام عطا کیا جائے گا اور پارٹی کی قیادت ہر معاملے میں ان سے ضرور صلاح مشورہ کرے گی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) میں انھیں ان کے مخالفانہ طرز عمل کے باوجود وہ عزت و احترام حاصل تھا جو آج انھیں شاید تحریک انصاف میں حاصل نہیں ہے۔

جب وہ مسلم لیگ چھوڑ کر جا رہے تھے تو دیکھنے والوں نے وہ منظر بھی دیکھا تھا جب پارٹی کے تمام کلیدی رہنما ان سے منت و سماجت اور التجائیں کررہے تھے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر نہ جائیں۔ محترمہ بیگم کلثوم نواز بذات خود انھیں منانے کے لیے حاضر ہوگئیں۔ ماروی میمن جو اس وقت تک مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئی تھیں انھوں نے بھی ہاشمی صاحب کو سمجھانے کی بہت کوششیں کیں۔ مسلم لیگ کے تمام کارکن ان کی گاڑی کے آگے لیٹ گئے لیکن وہ نہ مانے۔

اس کے بعد بھی میاں نواز شریف نے ایک بیان بھی ہاشمی صاحب کے خلاف نہیں دیا جب کہ جاوید ہاشمی مسلسل میاں صاحب کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے رہے۔ پارٹی میں رہتے ہوئے بھی وہ جس طرح پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کر تے رہے لیکن پارٹی قیادت نے ایک بار بھی انھیں شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا۔ میاں صاحب نے مکمل متانت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کبھی بھی اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور ان کا یہ رویہ تاحال جاری ہے جب کہ جاوید ہاشمی دوسری پارٹی میں جاکر دل کھول کر مخالفانہ بیان بازی کرتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف سولہ سترہ سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک اپنے ابتدائی اور اختراعی دور سے باہر نہیں نکل سکی۔ خاص کر 30 اکتوبر 2011 کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد جس طرح اس میں جذباتی اور جوشیلے نوجوانوں کا ایک ہجوم شامل ہوا اس نے پارٹی رہنماؤں سمیت تمام کرتا دھرتاؤں کو ساتویں آسمان پر پہنچادیا اور ہر شخص اپنی ذات میں عمران خان بن کر بولنے لگا۔ جوش و جذبات سے بپھرے ہوئے نوجوانوں کے ایک سیاسی گروہ کو مکمل آزادی دے دی گئی، وہ جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں،کوئی ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔

سوشل میڈیا پر جس طرح کا چاہیں اظہار کریں کوئی ان سے احتجاج نہیں کرے گا۔ شائستگی سے ہٹ بھی جائیں تو کوئی ان سے سوال تک نہیں کرے گا۔ متانت سنجیدگی اور میانہ روی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں کوئی ان سے کچھ نہیں کہے گا۔ تحمل اور برداشت سے عاری ایسے ہی نوجوانوں نے گزشتہ کچھ دنوں میں جاوید ہاشمی کے ساتھ سوشل میڈیا پر وہ سلوک روا رکھا جو شاید انھیں زندگی بھر یاد رہے گا ۔ ان کی اب مشکل یہ ہے کہ وہ اتنی جلد واپس اپنی پرانی پارٹی میں جا بھی نہیں سکتے۔ انھیں اپنے فیصلے پر ملال بھی ہے مگر وہ اس کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔

ان کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آج ضرور بار بار آرہا ہوگا جب مسلم لیگ کے وفا شعار کارکن ان کی محبت و احترام میں اشک باری کرتے ہوئے ان کی گاڑی کے آگے لیٹ گئے تھے۔ ایک وہ اظہارِ محبت تھا اور ایک یہ اظہارِ عشق ہے کہ ذرا سی حق گوئی پر اتنا غصے کا اظہار کہ باغی مزاج جاوید ہاشمی کو بغاوت کا حوصلہ بھی جاتا رہا اور وہ کپتان کی اطاعت اورحکم برداری میں ساری قوم کے سامنے اپنے سابقہ بیان سے منحرفی کا برملا اعلان پر مجبور ہوگیا۔ ابھی تو اس نے تحریک انصاف کی پالیسیوں سے اختلاف کی جرأت بھی نہیں کی اور اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے کہ وہ آیندہ بہت سوچ سمجھ کر بات کریں گے۔ میں باغی ہوں، ہاں میں باغی ہوں کی مسلسل تکرار کرنے والاجاوید ہاشمی آج غم گم گفتہ کی تصویر بنا اس دشت ویراں میں اکیلا ہے۔ کوئی اسے رو رو کر منانے والا بھی باقی نہیں بچا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔