وزیر خزانہ کا معاشی بحران پر قابو پانے کا عزم

ایڈیٹوریل  پير 22 اکتوبر 2018
وقت ثابت کرے گاکہ ہمارے موجودہ اقدامات عارضی ہیں      فوٹو:فائل

وقت ثابت کرے گاکہ ہمارے موجودہ اقدامات عارضی ہیں فوٹو:فائل

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ہفتے کو کراچی میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا دورہ کرنے کے بعد ایک تقریب سے خطاب میں ملک میں معاشی صورت حال اور حکومتی اقدامات کے بارے میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ آخری بار آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں جب کہ اگلے 7سے 8 ماہ میں ڈالر کی قیمت میں 27,26فیصد کمی ہوگی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ڈھائی ارب ڈالر سے بڑھ کر 18ارب ڈالر ہو گیاہے‘ انھوں نے انتہائی لہجے میں کہا کہ تیزی سے دیوالیہ ہونے جا رہے تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کے ساتھ پاکستان کو27 ارب ڈالر کی ضرورت تھی، مانیٹری اور مالیاتی اقدامات سے خسارے کو کم کیا جب کہ اس سال پاکستان کو 9 ارب ڈالرکی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں‘ اسٹاک مارکیٹ میں بہترین گروتھ ہے، کاروبار میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن سرمایہ کاروں میں اعتماد اسٹاک مارکیٹ کے لیے ضروری ہے، اکانومی بڑھے گی تو اسٹاک مارکیٹ بھی بڑھے گی البتہ معیشت پرکوئی خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی، صرف میڈیا میں معیشت پرطوفان نظرآرہا ہے اور اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال بہت خراب نظر آرہی ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ اسد عمر نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا بہت مہنگا کردیا گیا ہے۔

مارکیٹ میں سرمایہ کاری ٹیکسیشن کی وجہ سے کم ہے تو اسے ٹھیک ہونا چاہیے اور ہمیں سرمایہ کاری کے ماحول کو مجموعی طور پر بہتر کرنا ہے جب کہ پاکستان کی برآمدات بڑھا رہے ہیں اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں تجارتی خسارہ اس سے مزید کم ہوگا، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے بھرپور اقدامات کررہے ہیں، کیپیٹل مارکیٹ کی بہتری کے لیے بھی کام کریں گے۔

ملک میں موجودہ معاشی سیناریو کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معاملات بہت پیچیدہ اور الجھاؤ سے دوچار نظر آتے ہیں‘ معاشی مسائل کو بہترین انداز میں حل کرنے اور معاشی نظام کو ترقی کی پٹڑی پر چڑھانے کے لیے جو رکاوٹیں عفریت کا روپ دھارے حکومت کی راہ میں حائل ہو رہی ہیں اس کا اسے بخوبی ادراک ہو گیا ہے، حکمران اشرافیہ پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ ملکی معاشی نظام کو درست سمت پر چلانے کے لیے اسے چومکھی لڑائی لڑنا پڑے گی جس میں سرخرو ہونے کے لیے اسے خود بھی زخم کھانا پڑیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کو اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے گفتگو میں معاشی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں آ کر معلوم ہوا کہ گردشی قرضے 12سو ارب تک پہنچ چکے ہیں‘ پچھلی حکومتوں نے قرضہ کو36ٹریلین تک پہنچا دیا‘ اگلے دو ماہ میں اگر حکومت پیسے نہ لیتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا، آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، آئی ایم ایف سے قرض لینا ہماری ترجیحات میں سب سے آخر میں تھا، آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد مزید قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آئی ایم ایف سے قرض لینا مسئلہ نہیں ہے مگر ان کی شرائط تسلیم کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بجلی کے نرخوں میں اضافے کے سواکوئی حل نہیں ہے، اگرآیندہ دو ماہ تک ہمارے پاس پیسے نہ آئے تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا، وقت ثابت کرے گاکہ ہمارے موجودہ اقدامات عارضی ہیں، عوام پر پہلے ہی بہت بوجھ ڈال چکے ہیں، مزید نہیں ڈالنا چاہتے، ہم چاہتے ہیں عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔

دوست ممالک سے امداد لینے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ہماری دوست ممالک چین اور سعودی عرب سے اس پر بات ہوئی ہے، جلد مثبت پیشرفت ہوگی،کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ ان سے بھی بات بن جائے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جب کسی بگڑے ہوئے نظام کو درست کیا جاتا ہے تو اس وقت جو اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے اس سے عبوری طور پر ایک بحران جنم لیتا ہے لیکن اگر نظام کو درست کرنے والوں کا ویژن وسیع، نیت پرخلوص‘ عزم غیرمتزلزل اور منزل تک پہنچنے والے راستوں کا درست ادراک ہو تو وہ بحران جلد ہی دم توڑ دیتا  اور نظام درست کرنے والے مشکلات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں۔ اس وقت حکومت کو معاشی بحران حل کرنے کے لیے عبوری طور پر دوست ممالک سے امداد اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے جو اچنبھے کی بات نہیں۔ حکومت کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے علاوہ زرعی اور صنعتی شعبے کو ترقی دینا ہو گی تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں سرد مہری کا جو رجحان چل رہا ہے وہ جلد اختتام پذیر ہو۔

اگر حکومت کیپٹل مارکیٹ میں بہتری لانے‘ درآمدات کم کرکے اور برآمدات بڑھا کر تجارتی خسارے پر قابو پانے‘ بیرونی ادائیگیوں کو بہتر بنا کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو زیرو پوائنٹ پر لانے میں سرخرو ہو جاتی ہے تو یہ امید بندھتی ہے کہ ملک جلد ہی معاشی بحران سے نکل کر خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو معاشی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔