لوڈشیڈنگ کے اصل محرکات اور کراچی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 15 جون 2013
ملک میںسالانہ40ارب روپےکی بجلی چوری ہورہی ہےاوروفاقی وصوبائی حکومتیں اس چوری کوکنٹرول کرنےکےلیے تعاون نہیں کررہی ہیں.

ملک میںسالانہ40ارب روپےکی بجلی چوری ہورہی ہےاوروفاقی وصوبائی حکومتیں اس چوری کوکنٹرول کرنےکےلیے تعاون نہیں کررہی ہیں.

نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ملک میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کے دیگر نسخوں کے ساتھ ایک انوکھا نسخہ بھی سامنے آیا۔ اس نسخے کے مطابق وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کراچی کو ملنے والی بجلی میں 350 میگاواٹ کٹوتی سے ملک کے دیگر حصوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہوجائے گا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق اجلاس کی صدارت میں وفاقی وزیر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دنوں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے بھی کراچی کی بجلی میں کٹوتی کرنے سے متعلق اپنے ولولہ انگیز عزم کا اظہار کیا تھا۔

بجلی کی ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کرنے کے اس انوکھے نسخے پر سندھ اسمبلی میں شدید تنقید کی گئی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نے اس فیصلے کو کراچی دشمنی سے تعبیر کیا۔ اس سلسلے میں فیصل سبزواری نے فیصلے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو 76 فیصد ریونیو دینے والا کراچی صرف سندھ کا شہر یا دارالخلافہ نہیں بلکہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنیوالا شہر ہے جہاں 650 میگاواٹ بجلی ختم کرنے کی سازش شروع ہوئی ہے۔ سندھ اسمبلی میں اس فیصلے پر مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کراچی کو ملنے والے 650 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔

متحدہ قومی موومنٹ اور سندھ اسمبلی کے دیگر اراکین اسمبلی کی جانب سے کٹوتی کے فیصلے پر احتجاج قطعی طور پر بجا ہے اور ان کا موقف بالکل درست ہے کہ جو شہر ملک کو 67 فیصد ریونیو فراہم کرتا ہو اسے 67 فیصد بھی بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ سی سی آئی میں طے معاہدے کے تحت بجلی میں کٹوتی قانوناً بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ سندھ 71 فیصد گیس دے رہا ہے جب کہ اس کے بدلے میں سندھ صرف 22 فیصد گیس استعمال کر رہا ہے۔

کراچی شہر کے لیے بجلی میں کٹوتی کے مسئلے کو محض تنگ نظری یا تعصب کے ذہن سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ عقلی بنیادوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کراچی کو پورے ملک کا بزنس حب کہا جاتا ہے بلاشبہ پورے ملک کو یہاں سے ریونیو بھی 76 فیصد کے قریب ملتا ہے جو ظاہر ہے کہ یہاں کی کاروباری سرگرمیوں کے باعث ہی ملتا ہے اگر بجلی نہیں ہوگی تو یہ کاروباری سرگرمیاں بھلا کیسے جاری رہ سکیں گی اور جب یہ کاروباری پہیہ رکے گا تو لازماً پورے ملک کی معیشت بھی متاثر ہوگی۔ اے این پی کے ایک رہنما کہتے ہیں کہ کراچی کی بجلی میں کٹوتی ضرور ہونی چاہیے، جب کہ ان ہی کے ایک دوسرے رہنما کہتے ہیں کہ کراچی شہر میں 40 لاکھ کے قریب صوبہ پختونخوا کے لوگ آباد ہیں، کیا بجلی کی کمی سے یہ آبادی متاثر نہیں ہوگی، ان کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا؟

ملک میں معیشت کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لیے جہاں دیگر فیصلے کرنا ہوں گے، ان شہروں اور علاقوں (مثلاً کراچی اور فیصل آباد) میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم سے کم کرنا ہوگی کیونکہ کاروباری علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مطلب صرف وہاں کی آبادی کو گرمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ بے روزگاری کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور ایسے علاقے جہاں ملز اور فیکٹریاں برآمدات تیار کرتی ہوں وہاں لوڈشیڈنگ سے ملکی زرمبادلہ پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

کراچی شہر کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں حق جتانے کے لیے ہمیشہ منی پاکستان کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے مگر اس شہر کو وسائل مہیا کرنے کے لیے، یہاں سہولیات فراہم کرنے کے لیے اور خاص کر پائیدار امن قائم کرنے کے لیے کبھی بھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ آبادیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں غیر قانونی طور پر پہلے زمینوں پر قبضہ کرکے کچی آبادیاں قائم کی گئیں، اس کو کاروبار بناکر مافیا نے پیسے بنائے پھر ان آبادیوں کو لیز کرایا گیا ووٹ حاصل کرنے کے لیے، چنانچہ اس عمل میں جتنی بھی تعمیرات ہوئیں وہ غیر انسانی طرز کی سہولتیں کہ جہاں پانی، ہوا اور روشنی کی کمی یا عدم دستیابی مسئلہ بنی، نتیجتاً یہاں کے باسی مختلف بیماریوں کا شکار رہنے لگے۔

یہی حال فلیٹس کی تعمیرات میں ہوا جہاں نقشے وغیرہ کے سلسلے میں بھی قانون کی خلاف ورزیاں کی گئیں چنانچہ اب کراچی شہر کی غریب بستیاں ہوں یا مڈل کلاس کے فلیٹس، ان سب میں رہنے والے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں نہ تو سکون سے سوپاتے ہیں نہ ہی دن کے وقت گھر کے اندر کوئی کام کاج کرسکتے ہیں۔ آکسیجن اور روشنی کی کمی کے باعث بچوں میں ہڈیوں کی بیماریاں ہورہی ہیں۔ حاملہ خواتین کے ہاں بچے بغیر آپریشن کے نہیں ہوتے، غرض ذہنی اور جسمانی مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔ گویا اس شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ شہریوں کے لیے ایک نہیں کئی اعتبار سے زندگی اجیرن کرچکی ہے۔

لوڈشیڈنگ کی تقسیم کے لیے معقول طریقے اپنانے چاہئیں مثلاً ایک عدالتی ریمارکس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ لوڈشیڈنگ امیر اور غریب طبقے کے امتیاز کے بغیر ہونی چاہیے۔ اسی طرح بڑے بڑے حکومتی اداروں میں VIP کے نام پر لوڈشیڈنگ کا استثنیٰ بھی درست نہیں ہے۔

جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے، اصولاً وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ جو صارفین بجلی کے بل کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے ان پر بے تحاشا لوڈشیڈنگ کسی طور درست نہیں۔ پھر بجلی کی یہ چوری بھی کوئی معمولی نہیں اس کو روکنا بجلی پیدا کرنے والے اداروں اور حکومت کا مسئلہ ہے نہ کہ صارفین کا کہ عام بے قصور صارفین سے اس کا بدلہ لوڈشیڈنگ اور بلز میں اضافی چارجز سے لیا جائے۔

قانون کی خلاف ورزی کا جتنا سرعام ہمارے ہاں مظاہرہ ہوتا ہے اور اس کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے دنیا میں شاید ہی کہیں اور ہو مثلاً حال ہی میں قائم مقام چیئرمین نیپرا خواجہ محمد نعیم نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں سالانہ 40 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے اور وفاقی وصوبائی حکومتیں اس چوری کو کنٹرول کرنے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہیں، اگر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو مکمل آزادی دی جاتی تو بجلی کا بحران اتنا زیادہ نہ ہوتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت 4 سو ارب کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے اس کے باوجود سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، 45 ارب روپے سود کی مد میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو حکومت ادا کر رہی ہے، عدالتوں میں بجلی کے کیسز پر سالانہ 80 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔

چیئرمین نیپرا خواجہ محمد نعیم کا سینیٹ میں مندرجہ بالا بیان اس قابل ہے کہ اس پر سوموٹو ایکشن لیا جائے یا کم از کم نئی حکومت سنجیدگی کے ساتھ ایک کمیٹی یا کمیشن بنائے جو ان معاملات کو حل کرنے میں مدد کرے تاکہ لوڈشیڈنگ کے اصل محرکات کو ختم کیا جاسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔