اسلامی مدارس میں اصلاحات

جمیل مرغز  پير 22 اکتوبر 2018

جب نظام تعلیم میں اصلاحات کی بات آتی ہے تو اس ملک میں نجی اسکول سسٹم اور سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی ایک بڑی تعداد لاکھوں طالب علموں کو تعلیم دے رہی ہیں۔چیف جسٹس صاحب نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ ملک میں تعلیم کے میدان میں ’’ایک کتاب‘ایک بستہ اور ایک یونیفارم ‘‘کا نظام کیوں نافذ نہیں ہوسکتا؟ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 25کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ 5سے16سال کے ہر بچے کو لازمی اور مفت تعلیم دے‘‘۔انھوں نے کہا کہ اگر ہم آئین کے اس آرٹیکل کو صحیح معنوں میں نافذ نہیں کرسکتے تو یہ آئین میں صرف ایک نمائشی آرٹیکل ہوگا‘‘ حالانکہ یہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر عمل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے ‘تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لیے عمران خان نے بھی کہا ہے‘امید ہے کہ مدارس کے نظام میں بھی اصلاحات ہوں گی۔

قومی اسمبلی میں بھی اس کی گونج سنائی دی کہ مدرسہ نظام میں ضروری تبدیلیاں اور بہتری کے اقدامات ضرور ہونے چاہیے اور انھیں قانون کا حصہ بننا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھی اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مدرسہ نظام میں اصلاحات مغربی ایجنڈا ہے۔مولانا ہر اختلافی نکتے کو مغربی ایجنڈا کہہ دیتے ہیں‘ یہ مسئلہ صرف مولانا فضل الرحمان ہی کا نہیں بلکہ اس مسئلے پر تمام مکاتب فکر کے علماء متفق ہیں جو مدرسہ سسٹم سے وابستہ ہیں‘تبدیلی اور اصلاحات کی گنجائش ہر جگہ رہتی ہے۔

وہ ایک مدرسہ کا نصاب بھی ہو سکتا ہے اور کسی جدید یونیورسٹی کا نظام اور نصاب بھی، اس لیے سب سے پہلے تو اس عدم تحفظ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ مدرسہ نظام میں اگر اصلاحات کی جاتی ہیں تو وہ خلاف اسلام ہوں گی۔میری ناقص رائے میں اُس سسٹم میں اصلاح ہونی چاہیے ‘جس میں انسانی ذہنوں کو برین واشنگ کے عمل سے گزار کر مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کن طاقتوروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور انھیں کون استعمال کر رہا ہے۔ گزرے برسوں میں‘عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم میں بھی انھیں استعمال کیا گیا اور اس انداز میں کہ خبر بھی نہ ہوئی‘اسی کا خمیازہ ہے کہ جو آج معاشرے میں برداشت اور روا داری کے عناصر ناپید نظر آتے ہیں‘امریکا اور روس کی باہمی لڑائی تھی‘طاقت کی کشمکش تھی ‘امریکا روس کوافغان سر زمین پر رسوا کرنا چاہتا تھا۔

اس آگ کو بھڑکانے کے لیے پاکستانی مدرسوں کے معصوم نوجوانوں کو ایندھن بنایا گیا اور مخصوص اسلامی فیکٹر کو تراشنے کے لیے سی آئی اے نے اپنا کردار ادا کیا‘امریکا نے روس کو افغانیوں کے ہاتھوں شکست دلوانے کے لیے اس جہاد کی فنڈنگ کی۔مدرسہ سسٹم کو اس مخصوص سوچ سے نکالنے کی جو کوشش بعد میں آنے والی حکومتوں کو کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی‘مدرسہ سسٹم ایک ایسا زبردست نظام ہے جس میں لاکھوں غریب بچوں کی کفالت ہوتی ہے اور علم کی روشنی سے ان کے ذہن منور کیے جاتے ہیں‘غریب گھرانوں میں جہاں والدین بچوں کے کھانے پینے اور تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘وہاں بچوں کو شعور کی عمر سے پہلے ہی ان مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے۔

جہاں تین وقت کا کھانا اور رہائش بھی ملتی ہے اور دین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور اس کے عوض ان سے کوئی فیس کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا جاتا ‘اگر ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے سیاسی اور غیر سیاسی قسم کے ہزاروں مدرسے نہ ہوتے تو سوچئے کہ ان میں پناہ لینے والے لاکھوں غریب بچے کہاں جاتے؟یہ یقیناً چیریٹی کا وسیع نظام ہے کہ مدرسے لاکھوں غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم ‘غذا اور رہائش کا ذمے لے کر ان کا بوجھ کم کرتے ہیں، اگر مدرسہ سسٹم پر سے ہر قسم کے ایجنڈے کی گرد جھاڑ کر دیکھیں تو یہ ایک شاندار ابتدائی نظام تھا جسے کوتاہ نظر حکومتوں اور ویژن سے عاری لیڈروں اور مذہب پر سیاست کرنے والوںنے مسخ کرکے رکھ دیا  اور اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ:

؎  ایک وہ ہیںجنہیں تصویر بنا آتی ہے

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

سوال یہ ہے کہ مدارس کے انفرااسٹرکچر کو کیسے بہترین صورت میں ڈھالا جا سکتا تھا؟ اگر ہیومن ریسورس کی قدر کرنے والی ایک بھی حکومت میرے ملک کو میسر آتی تو وہ اپنی ترجیحات کی فہرست میں اس ایجنڈے کو شامل کرتی کہ ملک کے قصبوں‘ دیہات‘ گوٹھوں سے لے کر بڑے بڑے شہروں میں موجود مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں غریب بچوں کو کیسے ملک کا ایک قابل اور ذمے دارشہری بناناہے‘تین وقت کی روٹی اور رہائش تو پہلے سے موجود تھی‘کرنا صرف یہ تھا کہ جو نصاب یہ غریب بچے پڑھ رہے ہیں‘اسی کے ساتھ انھیں ہنر سکھانے کا بندوبست کیا جاتا یعنی مدارس کو  ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی شکل میں ڈھال کر ‘حکومت اس سسٹم سے حیرت انگیز نتائج حاصل کر سکتی تھی۔غربت کے اندھیروں میں غرق لاکھوں گھرانوں کی قسمت بدلی جا سکتی تھی‘مدرسوں سے پڑھنے والے نوجوان‘جدید تعلیم اورہنر نہ سیکھنے کی وجہ سے بیروزگار رہ جاتے ہیں‘ بہت کم ایسی جگہیں ہیں جہاں ایسے نوجوانوں کو نوکری مل سکے۔

ایسے حالات میں یہ نوجوان آسانی سے ان طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہوسکتے ہیںجو ان کو اپنے مفاد کی آگ میں جھونکنا چاہتی ہیں‘پاکستان میں چند بڑے مدرسہ سسٹم کے پیچھے ایسے افراد موجود ہیں جو سیاست کی بساط پر اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘وہ الیکشن لڑتے ہیں‘اسمبلیوں اور سینیٹ کا حصہ بنتے ہیں‘اپنی کم تعداد کے باوجود حکومتوں کے ساتھ بارگین کرکے‘ وزارتیں حاصل کرتے ہیں‘ نوکریوں کے کوٹے لیتے ہیں اور مالی مفادات حاصل کرتے ہیں‘ایسے مذہبی رہنماء اپنے زیر نگیں مدرسوں میں اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں‘یوں یہ مدارس‘ایک ایسی تربیت گاہ ہوتے ہیں۔

جہاں ان مذہبی رہنماؤں کے حامی اور حمایتی تیار ہوتے ہیںجو مستقبل میں ان کے سیاسی جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں‘اپنے مستقبل سے بے نیاز ہوکر ایسے نوجوان‘ان رہنماؤں کے مفادات کے لیے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں‘ان کے گھروں میں کبھی غربت کے اندھیرے کم نہیں ہوتے‘ان کی زندگیاں کبھی نہیں بدلتیں‘ہاں وہ جن رہنماؤں کے جلسوں میں نعرے لگاتے ہیں‘وہ الیکشن بھی جیتتے ہیں اور حکومتوں کا حصہ بھی بنتے ہیں‘ بیرون ملک کے دورے بھی کرتے ہیں اور اندرون ملک سیاسی سرگرمیوں میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں‘لیکن جب کبھی بات آجائے مدارس کی اصلاحات کی تو اسے سازش کا نام دے کر لاحول پڑھتے ہیںاور اپنے ان حمایتیوں سے داد وصول کرتے ہیں کہ کس طرح وہ مغربی اور الحادی سوچ کے سامنے دین کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ دینی مدارس کے طالب علموں کو چند علوم تک ہی محدود کیوں رکھا جائے۔

کیا مدرسے کا طالب علم‘سائنس نہیں پڑھ سکتا؟اسے فزکس‘کیمسٹری‘ بیالوجی‘اکاؤنٹس‘ مارکیٹنگ اور آئی ٹیک تعلیم کیوں نہیں دی جاتی؟کیا ان مدرسوں میں سائنس کی لیبارٹریاں موجود ہیں؟ کروڑوں روپے فنڈ لینے والے مدرسوں کے مہتمم اور منتظمین مدارس کو دینی علم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی درسگاہوں میں کیوں نہیں بدل سکتے؟ وہ مدرسوں کے طالب علموں کے ذہنوں کو کیوں محدود رکھنا چاہتے ہیںجب کہ ان کی اپنی اولادیں بیرون ملک یونیورسٹیوں سے اعلی اور جدید تعلیم حاصل کرتی ہیں‘وہ خود جہازوں میں سفر کرتے ہیں‘ بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں‘ ائر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں‘کمیونیکیشن کے لیے ہر جدید ذریعہ استعمال کرتے ہیں‘آئی پیڈ اور اسمارٹ فون کا استعمال کرتے ہیں‘ جب کہ ان کے زیر سرپرستی مدرسوں کے طالب علم کا رہن سہن ایسا ہوتا ہے کہ ذہن اور شعور ایک خاص جگہ پر آکر رک جاتا ہے اور ان کی آنکھیں ایک مخصوص عینک سے دنیا کو دیکھتی ہیں۔

کائنات کی عظیم کتاب قرآن مجید کی تعلیم مدارس کے طالب علموں کو دی جاتی ہے اور پھر بھی ان کے ذہنوں کو ایک مخصوص مسلک کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ قرآن پاک جگہ جگہ انسان کو سوچنے ‘تدبر کرنے اور کائنات کو تسخیر کرنے کی دعوت دیتا ہے‘ قرآن کسی مسلک  کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ پوری انسانیت کو دعوت فکر دیتا ہے‘اسی طرح قرآن حکیم اسلام کا آفاقی پیغام دنیا تک پہنچاتا ہے۔اسلام رواداری‘برداشت‘اور حسن سلوک کا مذہب ہے جب کہ ہمارے مدارس جو کسی نہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘طالب علموں کے ذہنوں کو جس صورت میں ڈھالتے ہیں اس کے بعد انھیں اپنے مسلک کے علاوہ باقی فرقے اور مسالک کے مسلمان انھیں مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔