ڈیم، دریائے سندھ اور قدرتی ماحول

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 22 اکتوبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پانی کی کمی اور قدرتی ماحول کی تباہی عالمی سطح کے دو اہم ترین مسائل ہیں۔ پاکستان بھی ان مسائل سے گزر رہا ہے۔ پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان اس قسم کی منصوبہ بندی کرنے میں بہت پیچھے رہا ہے جس کی ایک وجہ ڈیم کی تعمیر کے لیے صوبوں کی مخالفت بھی رہی ہے۔ صوبہ سندھ کی جانب سے اس مسئلہ کو سیاسی ایشو کے طور پر بھی ابھارا گیا ہے۔

یقینی طور پر جس طرح ڈیم کی تعمیر میںبہت سے فوائد ہیں وہاں کچھ خدشات بھی اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ وہ پانی جو برسات کے بعد سمندر میں جاگرتا ہے، اس کا ذخیرہ کرنا اور پھر اس کا مختلف کاموں میں استعمال ہے، مثلاً بجلی حاصل کرنا۔ ڈیم کی تعمیر پر نقصانات میں دو طرح کے اعتراضات سامنے آئے ہیں، ایک اعتراض سیاسی یا صوبائیت کے حوالے سے ہے کہ ڈیم بنانے سے پانی کا کنٹرول وفاق یا صوبہ پنجاب کے حصے میں آجائے گا، جو دیگر صوبوں کی ضروریات کا خیال پوری طرح نہیں رکھے گا۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب پانی کی کمی شدت اختیار کرے گی تو دریائے سندھ میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ ڈیم میں ہی ذخیرہ رکھا جائے گا، جس سے دریا کے پانی کی قدرتی روانی متاثر کی جائے گی۔ نئے ڈیم بنانے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ پہلے ہی سندھ میں گڈو، سکھر اور کوٹڑی کے مقام پر تین بیراج تعمیر ہونے سے انڈس ڈیلٹا میں پانی کی آمد کم ہوئی ہے جب کہ سسٹم میں پانی کی قلت سے ٹھٹھہ، سجاول اور بدین پر مشتمل علاقے پانی کی قلت سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت سندھ اور بعض ماہرین کا مطالبہ رہا ہے کہ ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں کم سے کم تیس ملین ایکڑ فٹ پانی کا بہاؤ ہونا چاہیے تاکہ انڈس ڈیلٹا خشک نہ ہو لیکن 1991 میں ایک فیصلے کے تحت دس ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے پر اتفاق کیا گیا، خبرو ں کے مطابق اس پر بھی عملدرآمد نہیںہوا۔

یوں اس وقت دریائے سندھ کے ٹھٹھہ اور سجاول پل (ڈاؤن اسٹریم) میں پانی محض ایک تالاب کی صورت میں موجود ہے۔ یہ صورتحال دریائے سندھ سے وابستہ ان ماہی گیروں کے لیے سخت مشکلات کا باعث ہے جن کا صدیوں سے رزق یہاں کے پانی سے وابستہ ہے۔ یہاں کے لوگوں میں یہ باتیں مشہور ہیں کہ اوپر ڈیم بن رہے ہیں اور پہلے والے ڈیموں کو بھر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان تک پانی نہیں پہنچ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے پاس آنے والا قدرتی پانی ڈیموں کے بننے کے بعد وہیں جمع کرکے رکھا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ سندھ کے ماہی گیروں میں یہ تاثر پیدا ہونا اچھی بات نہیں، اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔

یہاں یہ بھی تاثر ہے کہ بھاشاڈیم کی تعمیر سے بھی دریائے سندھ کے کنارے رہنے والے ماہی گیروں کے لیے اور بھی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ یہ صورتحال اچھی نہیں، کیونکہ دریائے سندھ میں جیسے جیسے پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے یہاں زراعت کا شعبہ اور ماہی گیری کی صنعت بھی متاثر ہوتی جارہی ہے، غریب ماہی گیروں کی گزر اوقات کے مسائل بھی گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف دریائے سندھ کے اطراف جو جنگلات تھے وہ بھی ختم ہوچکے ہیں اور اب تک آٹھ لاکھ سے زائد لوگ یہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی مشکلات دہری ہیں، کیونکہ ایک اور مسئلہ سمندر کی سطح میں ہر سال ہونے والا اضافہ بھی ہے۔ خود حکومت سندھ کے مطابق پینتیس لاکھ ایکڑ زمین سمندر میں چلی گئی ہے یا پھر سمندری دباؤ کے باعث بنجر ہوچکی ہے۔ گویا قدرتی ماحول میں بھی خطرناک تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ایک ماہر ماحولیات کے مطابق ’تیمر‘ کے جنگلات بھی اس صورتحال کے باعث ختم ہورہے ہیں، جن میں ستر فیصد سے زائد مچھلی، جھینگے اور کیکڑے کی افزائش نسل ہوتی ہے۔ یہاں انواع و اقسام کے پرندوں اور نباتات کی نسل بھی متاثر ہو رہی ہے۔ سندھ کے باسیوں کے یہ اعتراضات بہت اہم ہیں۔

اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان میں پانی یا آبی ذخائر کی قلت تو ہے مگر جو منصوبے بن چکے ہیں اور مزید بننے جارہے ہیں ان سے دو قسم کے اعتراضات ابھر کر سامنے آرہے ہیں، ایک چھوٹے صوبوں کا بڑے صوبے اور وفاق پر عدم اعتماد، جو لسانی کشیدگی بڑھانے کا سبب بھی ہے، اور دوسرا اعتراض قدرتی ماحول کی تباہی ہے، جس سے اس وادی کے لوگوں کا رزق بھی ختم ہورہا ہے۔

سندھ کے باشندوں کے یہ دونوں اعتراضات نہایت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اس کو محض سیاسی ایشو کہہ کر رد نہیںکر دینا چاہیے۔ دریائے سندھ میں کس قدر پانی چھوڑنا ضروری ہے۔ یقیناً یہ ماہرین کا کام ہے اور اس پر صوبوں اور وفاق کے درمیان اتفاق رائے بھی ضروری ہے، لیکن جس طرح ڈیم بنانا وقت کی ضرورت ہے اسی طرح قدرتی ماحول کو برقرار رکھنا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے، لہٰذا ایک مسئلے کو حل کرتے ہوئے دوسرے مسئلے کو بڑھا دینا درست نہیں ہوگا۔ دریائے سندھ اور اس کے اردگرد کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنا بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ اگر اس دریا کے قدرتی بہاؤ میں منصوبے کی تعمیر سے کمی آرہی ہے تو اس کو دور کرنا چاہیے۔ قدرتی بہاؤ کوختم کرنا بھی خطرناک ہوسکتا ہے، ڈیم کی تعمیر سے اس کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔

سندھ کے چھوٹے ماہی گیر اور دیگر معترضین جو کچھ کہہ رہے ہیں اور احتجاج کی صدا بلند کررہے ہیں، ان کی اس آواز کو دبانے کے بجائے نہ صرف ان کی بات کو سننا سمجھنا چاہیے بلکہ اس ضمن میں خصوصی اور غیر جانبدار کمیٹی قائم کرکے تمام اعتراضات کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ یہ وہ معاملات نہیں ہیں کہ کل کو ان کی تلافی ممکن ہو سکے، قدرتی ماحول اگر ایک مرتبہ تباہ ہوگیا تو اس کے منفی اثرات سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔

بلاشبہ پوری دنیا میں جدید نظام کی طرف پیش قدمی جاری ہے، ڈیم بن رہے ہیں، بجلی پیدا کی جارہی ہے، صنعتیں لگ رہی ہیں، دن رات ان میں اضافہ ہورہا ہے اور معیار زندگی بھی بلند ہورہا ہے، مگر اس سبب عالمی سطح پر ماحولیات کی تباہی بھی سامنے آئی ہے، وہی سائنس جس نے ہماری آسانی کے لیے فریج، ایئرکنڈیشنڈ اور گاڑیاں وغیرہ فراہم کیں، اب وہی سائنس کہہ رہی کہ فریج، ایئرکنڈیشنڈ اور گاڑیاں وغیرہ کے استعمال سے اور صنعتوں کے دن رات چلنے سے گرین گیسز خارج ہو رہی ہیں جس سے اوزون کی سطح خراب ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، طوفان آرہے ہیں اور ماحول میں آلودگی بڑھ رہی ہے، دنیا تباہی کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے، قدرتی ماحول محفوظ کرکے ہی اس تباہی کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اب یہ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم منصوبے ضرور بنائیں مگر ماحول کی تباہی میں حصہ نہ لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔