- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
کاش
یہ بہار کے موسم کی خوشگوار شام تھی۔ میں نے مری جانے کا پروگرام بنالیا۔ سب کچھ اپنے شیڈول کے مطابق ہوا اور ٹھیک دو دن بعد میں مری روانہ ہوگیا۔ یہ میرا مری کا دوسرا ٹرپ تھا۔ راستے میں زندگی کے بہت سے خوشگوار رنگوں کو دیکھا اور محسوس کیا۔ یقیناً یہ ہر لحاظ سے ایک انتہائی خوشگوار سفر تھا۔ تین دن کے اِس سفر میں ہر طرح کی موج مستی کرنے کے بعد واپس لوٹنے کا وقت آگیا۔ واپسی کا سفر اتنا بھیانک ہوگا، یہ میں نے سوچا نہ تھا۔ راستے میں ایک گاڑی والے کی موٹرسائیکل سوار سے ٹکر ہوگئی۔ دونوں کی رفتار انتہائی مناسب تھی لیکن اِس حادثے میں موٹر سائیکل سوار کی سر پر چوٹ لگنے سے موقعے پر ہی موت واقع ہوگئی۔
یہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ میں ایک شخص کو اپنے سامنے مرتا دیکھ کر بہت افسردہ ہوچکا تھا۔ وقت گزرتا چلا گیا اور میں اس حادثے کو بھول گیا۔ ابھی میں نے اِس حادثے کو بڑی مشکل سے بھلایا ہی تھا کہ ملک میں ’’ہیلمٹ‘‘ کی گونج سنائی دینے لگی۔ میں نے کچھ لوگوں کو اِس کے دفاع میں بولتے سُنا جبکہ کچھ لوگوں کو تنقید کرتے سُنا اور پھر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بے شک زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور انسان صرف اور صرف تدبیر کرتا ہے اور کاش… مری کے اُس حادثے میں اُس شخص نے تدبیر کی ہوتی اور ہیلمٹ پہنا ہوتا تو آج شاید وہ زندہ ہوتا۔
اب آپ اِس بات کو ایک دوسرے زاویئے سے سوچ کر دیکھیے۔ ہمارے ملک میں کرپشن عام ہے۔ حکمران تو دور کی بات، عام آدمی بھی قانون کی پاسدرای نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اور اِس بگاڑ کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہر شخص خود کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔ میں نے میڈیا پر لوگوں کو یہ کہتے سُنا ہے کہ اگر غریب آدمی اتنے کا چالان بھرے گا تو اپنے بچوں کو کیا کھلائے گا؟ میرا اُن تمام لوگوں سے ایک سوال ہے کہ جس عمران خان کو نیا پاکستان بنانے کےلیے آپ نے ووٹ دیا ہے، اب اُس کے فیصلوں کی عزت کرنا بھی سیکھیے۔ بات امیر یا غریب کی نہیں، قانون کی ہے۔ آپ جب قانون کا احترام کریں گے، آپ جب قوانین پر عمل کریں گے تو آپ چاہے امیر ہوں یا غریب، کوئی بھی آپ کا چالان نہیں کرے گا۔
آپ دُنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک اُٹھا کر دیکھ لیجیے، اس ملک میں لوگ آپ کو قانون کی پاسداری کرتے نظر آئیں گے؛ اور اس کی وجہ وہاں کے سخت قوانین اور ان پر سختی سے عمل درآمد ہے۔ ہمیں یہ کھلے دل سے ماننا ہوگا کہ ملک میں جو فضا بن چکی ہے، معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، اس کا خاتمہ صرف اور صرف سخت قوانین سے ممکن ہے۔ ہمارے ملک میں پندرہ پندرہ سال کے بچے شہر کی شاہراہوں پر تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے نظر آتے ہیں۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹ ایک عام مسئلہ ہے۔ اس ملک میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانا لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایک ہزار میں سے صرف چند لوگ ہیلمٹ پہنتے ہیں۔ موٹرسائیکل کی یہ خطر ناک سواری کئی جانوں کا ضیاع کر چکی ہے۔ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ ہمیں چاہیے کہ خود کو بدلیں۔
انسان کےلیے اس کی جان سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ جان ہے تو جہان ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ملک میں بنائے گئے قوانین کا احترام کریں۔ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے کیونکہ قوموں کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرتے ہیں۔ میرا عمران خان صاحب کو ایک مشورہ ہے کہ بے شک آپ میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے لیکن جب بگڑے ہوئے بچے پر بہت زیادہ سختی کی جائے تو وہ اُ کتا جاتا ہے۔ اس ملک کے لوگ بھی بگڑے ہوئے بچوں سے کچھ کم نہیں۔ اگر آپ ایک دم سے اِن پر سختی کریں گے اور بوجھ ڈال دیں گے تو پھر یہ آپ سے اُکتا جائیں گے۔
برسوں لگ گئے اِس بگاڑ کو پیدا ہونے میں، اِس لیے آپ لوگوں کو تھوڑا وقت دیجیے۔ آپ سختی کیجیے لیکن اتنی کہ جتنی سہی جا سکے تاکہ مسئلہ بھی ختم ہوجائے اور لوگ بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔