آسٹریلیا میں 15 ہزار بچوں سے زیادتی کے واقعات پر وزیر اعظم نے معافی مانگ لی

ویب ڈیسک  پير 22 اکتوبر 2018
بچوں کو سب سے زیادہ پادریوں، یتیم خانوں کے نگراں اور بااثر شخصیات نے نشانہ بنایا جن کے کیسز دبا دیے گئے (فوٹو : فائل)

بچوں کو سب سے زیادہ پادریوں، یتیم خانوں کے نگراں اور بااثر شخصیات نے نشانہ بنایا جن کے کیسز دبا دیے گئے (فوٹو : فائل)

سڈنی: آسٹریلیا نے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے 15 ہزار سے زائد بچوں اور اُن کے والدین سے سرکاری سطح پر معافی مانگ لی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے پارلیمنٹ میں اپنی جذباتی تقریر میں ریاستی اداروں میں جنسی زیادتی کے شکار بچوں سے معافی مانگتے ہوئے اعتراف کیا کہ حکومت دل خراش واقعات کی روک تھام میں ناکام رہی۔

آسٹریلوی وزیراعظم کا خطاب براہ راست ٹی وی پر نشر کیا گیا جس میں آسٹریلوی وزیراعظم نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ یہ ایسا جرم ہے جو ایک آسٹریلوی نے دوسرے آسٹریلوی کے ساتھ ریاستی اور مذہبی اداروں میں کیا، افسوس ہم نے کرب ناک کیفیت کا سامنا کرنے والے ان بچوں کو فراموش کردیا، آسٹریلوی حکومت ایسے تمام بچوں اور ان کے والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے پر سرکاری طور پر معافی کی خواستگار ہے۔

اس موقع پر آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے بچوں کی زیادتی کے حوالے سے ایک میوزیم کے قیام کا اعلان کیا۔ میوزیم کے ذریعے جنسی زیادتی کے شکار بچوں کے نفسیاتی، معاشرتی اور ذہنی مسائل سے متعلق شعور اور آگاہی فراہم کی جائے گی۔

آسٹریلوی وزیراعظم کے خطاب سے قبل اراکین پارلیمنٹ جنسی زیادتی کے شکار بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جب کہ زیادتی کے شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔

آسٹریلوی وزیراعظم کی جانب سے سرکاری معافی نامہ رائل کمیشن کی پانچ سالہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی اداروں میں بچوں سے زیادتی کے 15 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے اور کسی کو انصاف نہیں مل سکا۔

رائل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں سب سے زیادہ چرچ کے پادری، یتیم خانوں کے انچارج اور دیگر طاقت ور شخصیات ملوث رہی ہیں جس کی وجہ سے زیادتی کے شکار بچوں کی شکایت کو دبا دیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔