ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث استعمال شدہ کپڑے اور جوتے بھی عوام کی دسترس سے باہر

آصف محمود  پير 22 اکتوبر 2018
پرانی چیزوں کی قیمتیں بھی اس قدرزیادہ ہیں کہ اتنی قیمت میں نئی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں،عوام فوٹو: ایکسپریس

پرانی چیزوں کی قیمتیں بھی اس قدرزیادہ ہیں کہ اتنی قیمت میں نئی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں،عوام فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث استعمال شدہ کپڑے اور جوتے بھی عوام کی دسترس سے باہر جانے لگے ہیں۔ 

گزشتہ چندہفتوں میں ڈالرکی قیمت میں اضافے کے باعث لنڈابازارمیں فروخت ہونیوالے پرانے کپڑوں اورجوتوں کی قیمت میں بھی 20 سے 25 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے ، لاہورمیں نولکھا چوک کے قریب اور ریلوے اسٹیشن کے قریب لنڈا بازاروں میں پرانے جوتوں اورکپڑوں کے ساتھ ساتھ چینی ساختہ جوتے بھی فروخت ہوتے ہیں جہاں دکانداروں نے ان جوتوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں۔

بیرون ملک سے پرانے اوراستعمال شدہ جوتے منگوانے والے ایک تاجر سرفرازخان نے بتایا کہ جوتوں کا جوکارٹن پہلے ایک ہزارڈالرکا تھا وہ اب 14 سو ڈالرمیں مل رہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ نقل وحمل کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں ، لنڈا بازار میں استعمال شدہ جوتا جس کی قیمت پہلے 500 روپے تھی وہ اب 700 روپے میں مل رہا ہے ، اسی طرح استعمال شدہ کپڑوں کا بھی یہی حال ہے ، اس کاروبار سے جڑے دکانداروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی ان کا سیزن شروع ہوجاتا ہے لیکن ڈالرکی قیمت بڑھنے سے اب پرانے اوراستعمال شدہ جوتوں ، کپڑوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں جس سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا، لوگ اتنی قیمت میں پرانی چیزیں خریدنے کی بجائے مقامی طور پر تیارکردہ مقامی جوتے اورکپڑے خرید لیتے ہیں۔

لنڈابازارمیں خریداری کے لیے آنیوالی خواتین نے بتایا کہ وہ اتوارکے روز یہ سوچ کریہاں خریداری کرنے آئی تھیں کہ یہاں سے سستے جوتے اورکپڑے مل جائیں گے لیکن یہاں توپرانی چیزوں کی قیمتیں بھی اس قدرزیادہ ہیں کہ اتنی قیمت میں نئی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں، پرانے کپڑوں میں عام طورپر سویٹر، جرسیاں ، گرم پتلون ، قمیض، پاجامے وغیرہ خریدے جاتے ہیں ، ایک صاف اوراچھی کوالٹی کی استعمال شدہ مردانہ شرٹ 600 روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہے ، اسی طرح پتلون کی قیمت بھی 500 روپے سے ایک ہزار روپے تک ہیں ، تاہم بہت زیادہ استعمال شدہ پتلون بھی 300 روپے میں بھی مل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔