نام کیوں نہ بدلیں ؟

وسعت اللہ خان  منگل 23 اکتوبر 2018

پچھلے ہفتے یہاں سندھ کے دارالحکومت کولاچی میں سرحد پار سے آئی ایک خبر کے مطابق آریا ورت (قدیم بھارت) کے سب سے گنجان صوبے کوسالا (قدیم اتر پردیش ) کی راجدھانی لکھناوتی (لکھنؤ) میں مہامنتری شریمان اجے موہن بشت (یوگی ادتیا ناتھ کا پیدائشی نام ) نے گھوشنا کی کہ آیندہ سے الہ آباد کو پریاگ راج پکارا جائے۔کہا جاتا ہے مہامنتری نے آریا ورت کے راج شالہ اندر پرستھ ( قدیم دہلی )کے راج محل کی پوری حمائیت کے بعد الہ آباد کا نام بدلا۔

اسی بات کو میں یوں بھی کہہ سکتا تھا کہ پچھلے ہفتے کراچی میں سرحد پار سے جو خبریں آئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں وزیرِ اعلی یوگی ادتیا ناتھ نے الہ آباد کا نام پریاگ راج رکھنے کا اعلان کیا ہے۔کہا جاتا ہے وزیرِ اعلی نے یہ فیصلہ دلی میں وزیرِ اعظم کے دفتر کو اعتماد میں لے کر کیا۔پر اس طرح سیدھا سیدھا یہ خبر بتانے میں خاک مزہ آتا۔

انیس سو سینتالیس سے اب تک بھارت میں پچیس اور پاکستان میں لگ بھگ دس شہروں کے نام تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں کتنی ہندو اور انگریز دور کی عمارات اور شاہراہیں پاکستان میں مشرف بہ اسلام اور بھارت میں کتنے مغل اور انگریز نام شدھی کرن کیے گئے۔ تعداد سیکڑوں میں ہے۔

اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ نئے شہر بنا کے نئے نام رکھو اور نئی تاریخ بناؤ۔یہ کام تو مغلوں اور پھر انگریزوں کے بعد مانو بند ہی ہو گیا۔اس سے کہیں آسان کام اب یہ رہ گیا ہے کہ کسی بھی پرانے شہر، اسپتال ، یونیورسٹی ، شاہراہ  کا نام بدل دو اور یہ فرض کر لو کہ عوام اسے بھی سرکار کا ایک اور سنہری کارنامہ سمجھ کے واہ واہ کر لے گی۔

جیسے پاکستان میں مچھیروں کی بستی کولاچی کے قریب جدید بندرگاہ انگریز کے سندھ پر قبضے کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں تعمیر ہوئی ، کولاچی کے آثار پر جدید کراچی چارلس نیپئیر کے دور میں ابھرنا شروع ہوا۔نئی شاہراہیں، نئی چھاؤنی، چرچ، پارسیوں، ہندوؤں،یہودیوںاور مسلمانوںکے طبی، تعلیمی و دیگر فلاحی منصوبے۔ ہر کمیونٹی نے اپنی معروف شخصیات کے نام پر ان منصوبوں کے نام رکھے۔

مگر ہم نے کیا کیا ؟جدید کراچی کے بانی کے نام پر بنی نیپئر روڈ کو شاہراہِ الطاف حسین کر دیا۔رام چندر ٹمپل روڈ بابر اسٹریٹ ہو گئی۔کسی کو کراچی کے ایک مخیر یہودی شہری سالومن ڈیوڈ روڈ کا نام پسند نہ آیا تو اس نے اسے سلیمان داؤد روڈ کی ٹوپی پہنا دی۔کراچی کے مئیر ہر چندر رائے اس شہر میں بجلی لائے۔ان کے نام پر ہرچندر رائے روڈ حسین بھائی بندوق والا صدیق الوہاب روڈ ہوگئی۔اور تو کچھ نہیں ہوا کراچی کی اصل تاریخ اور اس کے بنیادی کردار آنے والی نسلوں کے لیے اوجھل ہو گئے۔مگر لوگوں کی یاداشت کم بخت بہت سخت جان ہے۔ جب میں کراچی میں کسی رکشے والے سے پوچھتا ہوں کہ محمد بن قاسم روڈ چلو گے؟ وہ پوچھتا ہے یہ کہاں ہے صاحب ؟ جب میں سمجھاتا ہوں کہ صدر سے تھوڑا آگے تو وہ خفا ہو جاتا ہے ’’صاب سیدھا سیدھا اردو میں بولو نا کہ برنس روڈ جانا ہے‘‘۔حالانکہ برنس روڈ کا نام محمد بن قاسم روڈ ہوئے بیس برس سے زائد ہوچلے۔

وسطی پنجاب کے ساندل بار میں بارانی علاقے کی نہری نظام سے کایا کلپ کرنے کے دوران انگریزوں نے شمالی ہندوستان کا پہلا جدید شہر یہاں پر سر جیمز براڈ وڈ  لائل کے نام پر بہت لاڈ سے بنایا۔لائل پور کے مرکزی گھنٹہ گھر چوک پر آٹھ بازار آن ملتے ہیں۔مگر انیس سو اناسی کے ایک مارشل لائی حکم کے تحت ایک روز اچانک پاکستان کا کاٹن کیپیٹل لائل پور سعودی شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی محبت میں فیصل آباد ہو گیا۔یہ الگ بات کہ  شاہ فیصل نے اس شہر میں کبھی قدم بھی نہ رکھا۔مزید خوشی ہوتی کہ اس محبتِ بے پایاں کے جواب میں جدہ کا نام بھی جناح پور ہو جاتا۔بہرحال آج لائل پور فیصل آباد کی صرف ایک ٹاؤن کمیٹی کا نام ہے۔تقسیم سے پہلے نہری انقلاب سے پیدا ہونے والے اس شہر میں ہندو کاروبارئیوں اور سکھ زمینداروں کی ایک بڑی تعداد مقیم تھی۔

مگر کیا نام بدلنے سے نام کھرچ بھی جاتے ہیں ؟ آج بھی وسطی پنجاب کے ساندل بار میں اسی برس پہلے پیدا ہونے والے کوئی سردار جی کہیں ملتے  ہیں تو پوچھتے ہیں میرا لیل پور کیسا ہے ؟ میں جب انھیں کہتا ہوں کہ لیل پور ہن فیصل آباد ہوگیا ہے تو سردار جی کہتے ہیں فیصل آباد تہانوں مبارک ساہنوں تے مرن تک لیل پور ہی جچدا ہے۔

اسی طرح بھارت میں مغلوں کا بنایا اورنگ آباد سانبھا جی نگر ہو گیا۔اب میں سراج اورنگ آبادی کو کیا لکھوں ؟ الہ آباد دو دریاؤں کے سنگم پر دورِ اکبری میں پھلا پھولا۔مگر اکبر کی روشن خیالی و دریا دلی اور اس کا ہندوستانی ہونا بھی الہ آباد کو ساڑھے چار سو برس بعد کسی یوگی ادتیا ناتھ کے ہاتھوں پریاگ راج ہونے سے نہ بچا سکا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرلوں نے کلکتہ کو کتنے ارمانوں سے لندن کے ویسٹ منسٹر ڈسٹرکٹ کی طرز پر تعمیر کیا۔کلکتہ انیس سو بارہ تک برطانوی ہند کا دارالحکومت رہا اور پھر یہ دارالحکومت انگریزوں کی بنائی نئی دلی شفٹ ہوگیا۔اور آج کلکتہ کا کوئی وجود نہیں۔اس کا نام کولکٹہ ہوگیا۔اب مجھے غالب کو ایسے پڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ’’کولکٹے کا تو نے ذکر کیا اے ہم نشیں ، اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے‘‘۔

آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان میں بس ایک ایک نیا شہر بنا۔چندی گڑھ اور اسلام آباد اور وہ بھی ایک ہی یونانی آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا۔مگر اس دوران بیسیوں شہروں کے نام بدل دیے گئے۔

بس دو شہر ایسے ہیں جن کے باسیوں نے نام بدلنے نہیں دیے۔ایک ہے جیکب آباد جسے سر جان جیکب نے اٹھارہ سو چالیس کی دہائی میں بسایا۔ضیا دور میں اس کا نام بھی بدلنے کی کوشش کی مگر مقامی بلدیہ کی مزاحمت کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔ جان جیکب کو پیر کادرجہ حاصل ہے۔ اس کی قبر پر شادی کے خواہش مند جوڑے آتے ہیں تاکہ پیر جیکب ان کے والدین کے دل نرم کر دے اور شادی شدہ جوڑے اس لیے آتے ہیں کہ پیر جیکب ان کے دل ایک دوسرے کے لیے نرم رکھے۔دوسرا شہر ایبٹ آباد ہے۔جو پنڈی کے بعد سب سے بڑا عسکری مرکز ہے۔ نام بدلنے کی تجویز ہمیشہ یہاںکے عوام کے لیے نان ایشو رہا ہے۔اگر نام سے زیادہ دھیان کام بدلنے پر دے دیا جائے توکچھ بات بن جائے۔مگر ہمیں بات بنانے سے زیادہ باتیں بنانے سے دلچسپی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔