افغانستان… ناکارہ اسلحے کا گودام

غلام محی الدین  اتوار 16 جون 2013
اربوں ڈالر مالیت کے بے کار جنگی ساز و سامان کی واپسی نے امریکا کو مشکل میں ڈال دیا ہے. فوٹو : فائل

اربوں ڈالر مالیت کے بے کار جنگی ساز و سامان کی واپسی نے امریکا کو مشکل میں ڈال دیا ہے. فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  کہتے ہیں کہ دشمن کو اگر مخالف کی جنگی حکمت عملی یا اس کے ہتھیاروں سے متعلق آگاہی حاصل ہو جائے تو وہ آدھی جنگ جیت جاتا ہے۔

امریکا نے افغانستان میں 12 سال کی بے نتیجہ اور طویل جنگ لڑنے کے بعد جب اپنے جنگی ساز و سامان کو واپس لے جانے سے متعلق پہلی مرتبہ اس انداز میں سوچا تو وہ ایک نئی مشکل میں پڑ گیا۔ امریکی تھینک ٹینکس کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اب کس طرح افغانستان کے طول و عرض میں بکھرے لاکھوں ٹن وزنی کارآمد اور ناکارہ جنگی ساز و سامان کی واپسی کو ممکن بنایا جائے ۔

صدر اوباما سمیت امریکی تھینک ٹینکس سوچ رہے ہیں کہ اگر وہ روس کی طرح اپنے ناکارہ اسلحے کو افغانستان میں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں تو ناکارہ اسلحے کی تیاری اور اِس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور مخصوص میٹریل سے متعلق معلومات افشاء ہوجائیں گی، یہ خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا، اگر وہ اس سامان کو واپس امریکا لے جانے کا پروگرام بناتے ہیں تو اُس پر کم از کم 6 ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ امریکا کی کمزور معیشت کا پول کھول دے گا جس پر امریکی کانگریس نے اعتراض کرتے ہوئے صاف الفاظ میں یہ کہ بھی دیا ہے کہ’’ اتنی کثیر رقم کی بجائے کوئی کم لاگت والی راہ نکالی جائے‘‘۔

یاد رہے امریکا نے جب عراق سے اپنی فوجیں نکالی تھیں تو وہاں پرموجود ناکارہ اسلحے کی واپسی، اُس کے لیے مسئلہ نہیں بنی تھی، عراق سے کویت تک بے کار اسلحہ بڑی آسانی کے ساتھ لایا گیا اور سمندری راستے سے واپس امریکا بھیج دیاگیا تھا لیکن افغانستان سے جنگی ساز و سامان کو نکالنا اِس طرح ممکن نہیں ۔ واپسی کی سب سے سستی اور آسان راہ داری چمن کے بارڈر سے کراچی بندرگاہ تک ہے لیکن پاکستان کے خلاف مسلسل ڈرون حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پس منظر میں امریکا کے لیے اب یہ راہ بھی قریباً مسدود ہوتی جا رہی ہے بل کہ مسدود ہو چکی ہے۔

عالمی مارکیٹ میں افغانستان کے اندر بکھرے اس ناکارہ امریکی اسلحے کی قیمت کا اندازہ 80 ملین ڈالر سے زیادہ لگائی گئی ہے جس کے حصول کے لیے افغانستان سمیت کئی ممالک نے گہری دل چسپی ظاہر کی ہے لیکن امریکا اِس ضمن میں ابھی تک مخمصے میں پڑا ہوا ہے۔ اِن ممالک میں سب سے زیادہ دل چسپی بھارت لے رہا ہے اور بھارت نے ناکارہ اسلحے کے حصول کے لیے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو شیشے میں اتارنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نئے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ایک طرف گرم جوشی کا اظہار شروع کر دیا ہے تو دوسری جانب طالبان کے ذریعے امریکی سپلائی کے عمل میں شامل ٹرکوں پر حملے بھی شروع کرا دیے ہیں۔

تاکہ امریکا مجبور ہو کر یہ سامان فروخت کرنے کی حامی بھر لے ۔ لیکن بھارت کو یہ ہر گز بھولنا نہیں چاہئے کہ اس سامان کی ترسیل پاکستان کی راہ داری کے سوا ممکن نہیں حالاں کہ اسی نوعیت کی مشکلات بھارت کے لیے بھی کھڑی ہوسکتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے راستے واہگہ بارڈر تک کی راہ داری میں خیبر پختونخوا کی نئی حکومت خاص طور پر مشکل کھڑی کر سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی شاید ہی اِس کی اجازت دے،جب کہ طالبان کا خطرہ الگ ہو گا ۔

چمن (بلوچستان) سے واہگہ تک کی طوالت اتنی زیادہ ہے کہ کرایے اور دیگر اخراجات کی مد میں داڑھی سے زیادہ مونچھیں بڑھنے کا امکان ہے، یہی حال کراچی سے ممبئی تک کے سمندری سفر کا بھی ہے۔ اس کے باوجود افغانستان کے صدر حامد کرزئی امریکی اسلحہ کے سکریپ کی فروخت کے لیے دو دفعہ بھارت کادورہ کر چکے ہیں۔ واقفان حال تو وثوق کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں’’ ایران پاکستان گیس پائپ لائن میں بھارت نے دوبارہ شمولیت کا عندیہ دے کر پاکستان کو بہ ظاہر خیر سگالی کا پیغام دیا ہے اور دوسری جانب طالبان کو امریکی سامان کی واپسی میں روکاوٹ ڈالنے کی راہ بھی دکھائی ہے تاکہ امریکا فوری طور پر یہ ناکارہ جنگی سامان فروخت کرنے پر راضی ہو جائے‘‘۔

اب مجبور ہو کر یا کچھ اور سوچ کر امریکا نے اپنے ناکارہ اسلحے کے حوالے سے ایک عندیہ دیا تو ہے کہ انخلاء کے بعد افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے افغانستان میں فولاد سازی کی درمیانے درجے کی صنعت کو اِس سکریپ سے ابھارنے میں مدد دی جا سکتی ہے لیکن امریکا کو یہ اعتبار ہرگز نہیں کہ افغانستان کے فولاد ساز ادارے اس کو واقعی فونڈریوں میں ڈھال کر کھلی مارکیٹ میں لائیں گے یا اُسی طرح اونے پونے فروخت کر دیں گے۔

بعض عالمی مبصرین نے اِس حوالے سے ایک اور بات بھی کی ہے کہ امریکی افواج کے پرامن انخلاء اور خطے میں دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے امریکا اِس ناکارہ اسلحے کو پاکستان کے حوالے کر سکتا ہے تاکہ پاکستان کی معیشت کو استحکام فراہم کیا جا سکے لیکن امریکا کو یہ دھڑکا لاحق رہے گا کہ اس کے تیار کردہ اسلحے کے میٹریل اور ٹیکنالوجی سے کہیں چین با خبر نہ ہو جائے حالاں کہ خود چین اور دیگر یورپی ممالک بھی اِس ناکارہ اسلحے کو خریدنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

اس ساری صورت حال کے حوالے سے جو بات تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اب امریکا کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے ،امریکا نے خود ہی عالمی برادری کے سامنے افغانستان سے افواج کے انخلاء کے لیے 31 دسمبر 2014 تک کی تاریخ مقرر کی ،اب اس سے پہلے پہلے اُس نے نیٹو افواج کے ساتھ اپنے فوجیوں کو بھی افغانستان سے نکالنا ہے اور ناکارہ اسلحے کی ترسیل یا فروخت کے معاملے کو بھی نمٹانا ہے۔ قریباً 18 ماہ باقی ہیں اور امریکا ابھی تک مخمصے میں پھنسا ہوا ہے۔ ناکارہ اسلحے کی واپسی کے حوالے سے مختلف تجاویز اب تک زیر غور ہیں کہ کون سا جنگی سامان کس راستے سے واپس جائے گا تاکہ ترسیل کے اخراجات کم سے کم ہوں لیکن ابھی تک امریکا کو کوئی بھی موثر راہ دکھائی نہیں دے رہی۔

ادھر افغانستان اور بھارت امریکا سے زیادہ اِس بات پر فکر مند ہیں کہ اگر پاکستان اور امریکا کے درمیان اِس حوالے سے کوئی معاہدہ طے پا گیا تو پاکستان اس ناکارہ اسلحے سے حاصل ہونے والے فولاد اور قیمتی ایلومینیم کو جنگی جہازوں اور ٹینکوں کے پرزے بنانے کے لیے استعمال کرے گا البتہ دونوں ممالک کو ایک تسلی ضرور ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی رقم موجود نہیں ، پاکستان کس طرح اسلحے کے سکریپ کو خریدے گا اور بعد میں اُس کی ترسیل کو بھی ممکن بنائے گا؟

لیکن غور طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے راستے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس میں صرف افواج کی واپسی کا ذکر ہے ، موثر یا ناکارہ اسلحے کی واپسی کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں… اسی لیے بعض دفاعی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اگر امریکا نے اپنے موثر یا ناکارہ اسلحے سمیت پاکستان کے راستے واپس جانے کا پروگرام طے کر لیا ہے تو یہ 31 دسمبر 2014 تک ممکن نہیں ۔ اس کے لیے امریکا کو اب اپنے اسلحے اور دیگر جنگی ساز و سامان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی کھل کر بات کرنا پڑے گی اور اب خفیہ معاہدوں سے معاملات شائد طے نہیں ہوسکیں۔

اب پاکستان کی نئی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے وسیع قومی مفادات کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے؟ نئی حکومت اگر اِس اسکریپ کو پاکستان کی اسٹیل مل اور دوسرے فولادی کارخانوں تک لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو احسن طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ اگر یہی اسکریپ بھارت نے خرید لیا تو نواز شریف حکومت کے ہاتھ سے معاشی بہتری کا ایک نادر موقع نکل جائے گا اور اس کے بعد پاکستان کو شاید پیاز اورٹماٹروں کی درآمد کے بدلے اپنی راہ داری بھی دینا پڑے۔

ناکارہ اسلحے کے گودام افغانستان سے، امریکا کے انخلاء کے دوران پاک بھارت اور پاک امریکا کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ابھی بہت سے اتار چڑھائو سامنے آنے والے ہیں، جن کو عبور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہمارے سفارت کاروں نے صبر و تحمل ، ہوش مندی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ کام لیا تو پاکستان ناکارہ اسلحے کے ذریعے خطے میں وہ کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے، جو امریکا کو دنیا کے جدید ترین موثر اسلحے کے ساتھ 12 سال کی طویل ترین جنگ لڑنے کے بعد بھی افغانستان میں حاصل نہیں ہو سکیں۔

نیٹو کنٹینرز پر حملے ۔۔۔۔اب کیا ہوگا؟
امریکا نے جب افغانستان میں جب قدم جمائے تھے اُس وقت سے لے کر اب تک نیٹو کنٹینرز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں کبھی شدت اور کبھی کمی آجاتی ہے لیکن تازہ ترین صورت حال اب پھر خراب ہوچکی ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت کے بننے سے پہلے ہی وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ ہوا جس کے نتیجے میں تحریک طالبان کے ایک اہم رہنما ولی الرحمان ہلاک ہو گئے۔

ردعمل میں گفتگو کے ذریعے صلع اور امن کی پیش کش طالبان نے فوری طور پر واپس لے لی اور ایک دفعہ پھر امریکی سامان واپس لے جانے پر کنٹینروں پر حملے شروع ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک آٹھ کے قریب ڈرائیوروں کو قتل کیا جا چکا ہے اور کئی ایک زخمی ہیں۔ طورخم سے پشاور تک کا جو کرایہ 20 ہزار روپے تھا اب اُسی 60 کلومیٹر فاصلے کا یہ کرایہ ایک لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے، 50 ہزار روپے پر بھی کوئی ڈرائیور نہیں مان رہا۔ ڈرائیوروں کے انکار نے امریکیوں کے اعصاب شل کر رکھے ہیں کیوں کہ طورخم کے دونوں جانب امریکی فوجی گاڑیوں اور کنٹینروں کی طویل قطاریں لگ چکی ہیں اور ہر وقت خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔

افغانستان سے واپس جاتی ہوئی امریکی افواج اور ان کے ساز و سامان کو لوٹنے اور تباہ کرنے کی جو حکمت عملی تحریک طالبان نے اب اپنائی ہے، اُس کا توڑ امریکیوں کے پاس نہیں ہے، خوف زدہ امریکی اپنے سامان کی تمام تر ذمہ داری ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیوروں پر ڈال کر الگ بیٹھے نظر آ رہے ہیں جس کے باعث کنٹینرز لے جانے والے ڈرائیوروں نے ٹرالر مالکان کو صاف جواب دے دیا ہے ۔ جنگی سامان کی واپسی رواں سال فروری 2013 کے وسط میں شروع ہوئی تھی اور نیٹو افواج اور ٹرانسپورٹروں میں کابل سے کراچی تک ایک جنگی فوجی جیپ لے جانے کا کرایہ 2 لاکھ روپے طے ہوا تھا جب کہ کنٹینر کا کرایہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے اس سے الگ سے تھا مگر جب 26 مئی کے بعد حالات خراب ہوئے تو لاگت کا یہی تخمینہ بڑھ کر اب ایک جیپ لے جانے کے اخراجات 4 لاکھ روپے اور کنٹینر کا کرایہ اڑھائی لاکھ تک بڑھ گیا ۔ پہلے ایک ڈرائیور کو اس مد میں 10 ہزار ملتے تھے، پھر 20 ہزار ہوئے اور اب ان کوایک لاکھ روپے تک کا لالچ دیا جا رہا ہے مگر وہ نہیں مان رہے ۔

ڈرائیور اُس وقت خوف زدہ ہوئے جب طالبان نے سڑک کنارے بارودی سرنگیں نصب کرنے کی بجائے چلتے کنٹینروں کے ڈرائیوروں کو موٹر سائیکل پر سوار ہو کر گولیاں مارنا شروع کر دیں، طالبان کارروائی کرکے پل بھر میں غائب ہو جاتے ہیں اور اس صورت حال نے امریکیوں کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی ہے اور اب ڈرائیور بھی سڑکوں پر کنٹینرز کھڑے کرکے غائب ہو چکے ہیں اور یوں طورخم سے پشاور تک امریکی ساز و سامان سے بھرے کنٹینرز بے یارومددگار کھڑے نظر آ تے ہیں۔ مستقبل کی صورت حال کیا ہو گی؟ معلوم نہیں لیکن یہ بنتی کچھ یوں نظر آ رہی ہے کہ اگر ڈرائیوروں کو تحفظ نہ ملا تو نیٹو سپلائی پاکستان کے راستے مکمل طور پر بند ہو جائے گی اور خطے میں ایک نیا فساد کھڑا ہوجائے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔