ایک معجزہ بھی ہماری قسمت میں تھا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 15 جون 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا کا کاروبار ادارے چلاتے ہیں افراد نہیں اسی لیے انسانی تجربے نے اسمبلیاں بنائی ہیں جو ہر سطح پر اجتماعی صورت میں مل جل کر ملکی و قومی امور کو چلاتی ہیں۔ عوام کی نمائندگی کرتی ہیں یعنی ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ملک چلتا ہے لیکن بدقسمتی سے جس ملک کے ادارے ناکام ہو جائیں یعنی اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں وہ ملک رفتہ رفتہ شکست و ریخت کے شکار ہو جاتے ہیں اور انھیں اس زوال سے بچانے اور باقی رکھنے کے لیے اداروں کی جگہ ایسے افراد کو سامنے لایا جاتا ہے جو اداروں کی جگہ لے سکیں اور کاروبار حیات چلا سکیں۔ پاکستان کی طرح ہر ملک میں پاسپورٹ اس کے کسی شہری کی عالمی شناخت ہوتا ہے اور سرحدیں عبور کرنے کا ایک قانونی طریقہ لیکن پاکستان میں شروع شروع میں یہ بھی سرکاری مراعات کا ایک حصہ تھا اور جس کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا وہ با اثر لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے پاسپورٹ کی درخواست وفاقی وزیر داخلہ جو غالباً غلام مصطفیٰ جتوئی تھے اور لاہور کے دورے پر تھے ان کی خدمت میں پیش کی۔ اس موقع پر کئی صحافی دوستوں نے بھی میری سفارش کی اور انھوں نے درخواست پر دستخط کر دیے۔ ان دنوں پاسپورٹ آفس تو کوئی تھا نہیں‘ ڈاک خانے یہ کام کرتے تھے۔ میں نے لاہور کے جی پی او میں درخواست جمع کرائی اور کئی چکروں کے بعد پاسپورٹ جاری کر دیا گیا۔ سخت جلد والی سبز رنگ کی ایک کاپی۔ بھٹو صاحب نے خلیجی ملکوں سے پاکستانیوں کی ملازمت کی بات کی اور اس طرح حکومت نے پاسپورٹ عام کر دیا۔ مزدور بھی پاسپورٹ لینے لگے۔

پھر ایک موقع آیا کہ پاکستانیوں نے اس جائز اور جاری ذریعے کو بھی اپنی رشوت ستانی کی تحویل میں لے لیا اور پاسپورٹ کا محکمہ سرکاری اہلکاروں کے لیے نفع بخش اور عوام کے لیے ایک مصیبت بن گیا بلکہ بحران کی شکل اختیار کر گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومت مجبور ہو گئی اور اس بحران میں باہر کے ایک محکمے، پولیس کا افسر بھیجنا پڑا جس نے معجزہ کر دکھایا‘ نہ خود کھایا نہ کھانے دیا‘ جو کھا رہے تھے ان کو ٹھکانے لگا دیا اور پاکستانیوں کی ایک ایسی مشکل حل کر دی جو ان کی مجبوری تھی۔ ملکی سرحدوں سے باہر نوکری‘ تعلیم‘ حج‘ عمرہ‘ سیر سپاٹا‘ کاروبار سب قانونی ہو گئے یعنی ملک سے باہر قدم رکھنا قانون کے مطابق ہو گیا۔ دنیا بھر میں رائج اس طریق کار کی پاکستان میں کیا صورت بن گئی اس کا پس منظر ملاحظہ ہو:

2012ء کے وسط سے عوام کو پاسپورٹوں کے حصول میں مشکلات پیش آنا شروع ہوئیں پھر یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر گیا۔ پاکستان کے شہری اور بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانی کئی ماہ سے اپنے پاسپورٹوں کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے مگر انھیں یہی جواب ملتا تھا کہ لیمینیشن پیپر کی سپلائی بند ہونے سے پاسپورٹ چھپنے بند ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں طلباء و طالبات کو باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلے مل چکے تھے مگر وہ پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے داخلہ نہ لے سکے‘ مریض علاج کے لیے نہ جا سکے‘ کئی ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور پروفیشنلز کو باہر نوکری مل گئی تھی مگر پاسپورٹ نہ ملنے سے نوکریوں سے محروم رہ گئے۔ میڈیا اس قومی بحران کو مسلسل پروجیکٹ کر رہا تھا اور بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی سفارتخانوں کے باہر احتجاج کر رہے تھے‘ حکومت کی ہی نہیں ملک کی بھی بہت بدنامی ہو رہی تھی۔

جب حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تو حکومت نے ڈی جی پاسپورٹ کو ہٹا دیا اور بحران پر قابو پانے کے لیے کسی دیانتدار‘ باصلاحیت افسر کی تلاش شروع کی۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ انتہائی نیک نام سینئر پولیس افسر ذوالفقار احمد چیمہ کو اس محکمے کا سربراہ بنایا جائے جو بحرانوں سے نمٹنا جانتے ہیں اور ان پر قابو پانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ذوالفقار احمد چیمہ نے کچھ لیت و لعل کے بعد یہ چیلنج قبول کیا اور 9 اپریل کو محکمے کا چارج سنبھال لیا۔

محکمے کے ملازمین کا کہنا ہے کہ 10 اپریل کو یوں لگا کہ محکمے کا زوال رک گیا ہے اور ہم بہتری کے راستے پر گامزن ہو گئے ہیں۔ ہر روز بہتری آنے لگی۔ نئے ڈی جی نے جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا۔ لیمینیشن پیپر کی بحالی‘ کرپٹ عناصر سے محکمے کی صفائی اور سروس ڈلیوری میں بہتری کو اپنی ترجیحات بنایا گیا۔ لیمینیشن پیپر کی سپلائی بڑی تیزی سے بحال ہونے لگی۔ اپریل کے آغاز میں لگتا تھا کہ چند روز کے بعد پاسپورٹ چھپنے بند ہو جائیں گے۔ دو ہزار سے چھ پھر چھ ہزار سے آٹھ‘ دس اور مئی کے پہلے ہفتے میں پندرہ ہزار اور اب بیس ہزار پاسپورٹ یومیہ چھپ رہے ہیں۔

محکمے میں کرپشن کینسر کی طرح سرایت کر چکی تھی۔ پیشہ ور ٹاؤٹوں‘ ایجنٹوں اور محکمے کے کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت سے شہریوں کو لوٹا جا رہا تھا۔ شہریوں سے ایک پاسپورٹ کے لیے پندرہ سے بیس ہزار روپے لیے جا رہے تھے۔ محکمے کو ایجنٹوں نے یرغمال بنا رکھا تھا۔ نئے ڈائریکٹر جنرل نے ٹاؤٹوں اور کرپٹ اہلکاروں کے خلاف سخت آپریشن شروع کر دیا‘ دفاتر میں ٹاؤٹوں کا داخلہ بند کر دیا اور درجنوں بدنام ٹاؤٹوں کو پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دیا۔ محکمے کے اندر صفائی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ بہت سے بدنام اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی گئی۔ ڈی جی نے مشکوک شہرت کے افسروں کو ہٹا کر ان کی جگہ اچھی شہرت کے افسروں کو اہم ذمے داریاں سونپ دیں۔ اچھے افسروں کا حوصلہ‘ جذبہ اور مورال بڑھنے لگا۔ محنت اور لگن سے کام کرنیوالے ملازمین کو نقد انعامات دیے اور زیادہ کام کرنیوالوں کو اور ٹائم الاؤنس دلایا۔

ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد چیمہ نے پہلی بار پاسپورٹ کے ریجنل دفاتر کے غیر اعلانیہ دورے بھی شروع کر دیے۔ وہاں وہ عام شہریوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہوتے اور اہلکاروں کے رویے کا خود مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر پورے اسٹاف کو اکٹھا کر کے واضح طور پر اپنی ترجیحات بتاتے ہیں کہ ایمانداری‘ خوش اخلاقی اور شہریوں کے ساتھ ہمدردانہ رویے کے ساتھ ہم نے پبلک سروس ڈلیوری کا معیار بہتر بنانا ہے اور اس ادارے کو ایک باوقار اور با اعتماد ادارے میں تبدیل کرنا ہے۔ محکمے میں پہلی مرتبہ ملازمین کے لیے ٹریننگ کا شیڈول بنا کر تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ادھر شہریوں کی سہولت کے لیے ہیلپ لائن قائم کر دی گئی۔ ملک بھر سے کوئی بھی درخواست دہندہ 0800-34477 پر فون کر کے اپنی درخواست کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ شہریوں کے لیے سایہ دار شیڈ بنا کر قطار میں کھڑے ہونے کا بندوبست کیا گیا اس سے دھکم پیل ختم ہو گئی۔

بیرون ممالک داخلہ لینے والے طلباء و طالبات‘ علاج کے لیے جانے والے مریض‘ نوکری پر پہنچنے والے پروفیشنلز اور حج عمرے کے کیسوں کو ترجیحی بنیادوں پر پاسپورٹ دیے جانے لگے۔ پاسپورٹ ڈلیوری کا طریقہ کار بھی بہت بہتر بنا دیا گیا۔ دفاتر سے ایجنٹ مافیا غائب ہو گیا ہے اور کرپشن پر خاصی حد تک کنٹرول ہو گیا ہے۔ بلیو یا سرکاری پاسپورٹ صرف اس شخص کو دیا جاتا ہے جو بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کے لیے جا رہا ہو لیکن سابقہ حکومت خصوصاً رحمان ملک نے اپنے ورکروں‘ ٹھیکیداروں اور دوستوں میں سرکاری پاسپورٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹے جس سے ہمارا بلیو پاسپورٹ بے توقیر ہو گیا۔ کئی ملکوں نے سرکاری پاسپورٹ پر ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ پچھلے وزیر صاحب نے اچانک پاسپورٹ کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کر دی مگر فیس میں اضافہ نہ کیا جس سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہونے لگا۔ ڈائریکٹر جنرل نے وزارت داخلہ کی منظوری سے ملک دشمنی پر مبنی اس فیصلے کو بھی منسوخ کر دیا اور دو ہزار کے قریب غیر مستحق افراد کو دیے گئے سرکاری پاسپورٹ کینسل کرنے کی سفارش کر دی۔

جنگی بنیادوں پر کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں پونے دو مہینوں میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ پاسپورٹ پرنٹ کر کے لوگوں کو فراہم کیے گئے۔ بیرون ممالک رہنے والے پاکستانیوں کے تمام پاسپورٹ بنا کر سفارت خانوں کو بھجوا دیے گئے‘ پہلے باہر سے شکایتوں کے بھرے خط آتے تھے اب لوگ مطمئن ہو گئے ہیں‘ ملک کی بدنامی رک گئی ہے۔ پاکستانی سفیروں کے شکریے کے فون اور پاکستانی شہریوں کے دعاؤں بھرے خطوط آ رہے ہیں۔ ارجنٹ فیس والے تمام درخواست دہندگان کے پاسپورٹ بنا دیے گئے۔ ان کی تعداد پونے پانچ لاکھ ہے اور یہ پاسپورٹ پرنٹ کر کے ملک کے کونے کونے میں بھجوا دیے گئے ہیں۔ اب ارجنٹ فیس کے ساتھ درخواست دینے والوں کو ایک ہفتے میں پاسپورٹ مل رہا ہے۔

حج پر جانے والے بہت پریشان تھے۔ ان کے پاسپورٹ بھی تیار کر کے متعلقہ دفاتر کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ نارمل فیس والے تمام پاسپورٹ جون کے آخر تک پرنٹ ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی سارا Backlog نکل جائے گا۔ ہوم ڈلیوری سسٹم کے تحت پاسپورٹ لوگوں کے گھروں پر پہنچانے کا نظام بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ دفاتر سے ایجنٹ مافیا غائب ہو گیا ہے۔ کرپشن پر خاصی حد تک کنٹرول ہو گیا ہے۔

چند ہفتوں میں ایک ڈوبا ہوا محکمہ پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ لوگ اس معجزے کو حیرانی سے دیکھ رہے ہیں اور ایک Success Story کے طور پر اسٹڈی کر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے یہ مثال شخصی دیانت‘ جرأت اور عزم کی ہے جس نے ہمیں یہ بتایا کہ ہم ابھی زندہ ہیں اور زندگی اور عزم صمیم سے بھرپور لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جو اداروں کی طرح کام کر سکتے ہیں اور قوم کو مایوسی سے بچا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔