Life of Pi : ناول اور اس پر بننے والی فلم جس نے تہلکہ مچا دیا

محمد اختر  اتوار 16 جون 2013
لائف بوٹ پر زیبرے ، بندر، لگڑبگڑ اور شیر کے ساتھ بحرالکاہل میں بھٹکتے لڑکے کی حیرت انگیز کہانی . فوٹو : فائل

لائف بوٹ پر زیبرے ، بندر، لگڑبگڑ اور شیر کے ساتھ بحرالکاہل میں بھٹکتے لڑکے کی حیرت انگیز کہانی . فوٹو : فائل

اس سال 85 ویں آسکرایوارڈ کی تقریب برپاہوئی تو جس فلم نے سب سے زیادہ آسکر ایوارڈ حاصل کیے ،اس کا نام ’’لائف آف پی‘‘(Life of Pi ) ہے۔

یہ فلم 2001 میں اسی نام سے شائع ہونے والے ناول سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ جس طرح ناول کی اشاعت پر کسی کوعلم نہ تھا کہ یہ اس قدر کامیاب ناول ثابت ہوگا ، اسی طرح جب اس پر فیچر فلم بنائی گئی تو تب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ یہ سب سے زیادہ آسکر ایوارڈ حاصل کرے گی۔

Life of Pi ایک تخیلاتی اور مہماتی ناول ہے جسے ایک فرانسیسی نژاد کینیڈین مصنف یان مارٹل نے تحریر کیا تھا۔ناول کا ہیرو ایک تامل لڑکا ’’پسائن مولیٹور ’’پی‘‘ پٹیل‘‘ ہے جو ایک بھارتی جزیرے پانڈی چری کا رہنے والا ہے۔ناول کی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ کسی طرح اسے اوائل عمری میں ہی بیک وقت روحانیت اور عملی دنیا دونوں کے تجربات سے سامنا ہوتا ہے۔ وہ بحری جہاز ڈوبنے کے نتیجے میں لکڑی کی ایک کشتی میں 227 دن تک بحرالکاہل کی لامحدود وسعتوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ کشتی پر ایک بنگالی شیر سمیت کئی جانور سوار ہوتے ہیں۔ اس ناول کی کہانی میں آخر ایسا کیا تھا کہ نہ صرف ناول نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور کئی ایوارڈ حاصل کیے بلکہ اس پر بنائی گئی فلم نے بھی کروڑوں دلوں کو موہ لیا اور چار آسکر اپنے نام کیے۔آئیے آپ کو اس ناول کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں:

Life of Pi کی اب تک ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ابتداء میں لندن کے پانچ بڑے اشاعتی اداروں نے اسے حقارت کے ساتھ مسترد کردیا تھا۔تاہم کینیڈا کا ایک اشاعتی ادارہ خوش قسمت نکلا اور اس نے یہ ناول چھاپ دیا۔یہ اشاعتی ادارہ Knopf تھا۔ یہ ناول پہلی بار ستمبر 2001 میں شائع ہوا۔ اس کے یوکے ایڈیشن نے اگلے سال کا ’’مین بکر پرائز فار فکشن‘‘ (Man Booker Prize for Fiction) حاصل کیا۔مذکورہ برطانوی انعام حاصل کرنے کے علاہ اس ناول نے فرانس ، جنوبی افریقہ اور کینیڈا میں بھی کئی انعام حاصل کیے۔اس ناو ل کی کہانی بہت اچھوتی اور دل کو موہ لینے والی ہے۔آئیے اس کا ایک چھوٹا سا خلاصہ پڑھتے ہیں:

کہانی کا مختصر خلاصہ
Life of Pi کی کہانی تین حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلے حصے میں کہانی کا مرکزی کردار ’’پی‘‘ اپنے بچپن کے دنوں کے بارے میں بتاتا ہے۔اس کا نام والدین نے فرانس میں ایک سوئمنگ پول کے نام پر’’ پسائن مولیٹر پٹیل‘‘رکھا تھا۔ وہ سکول میں پڑھتا ہے تو بچے اس کا مشکل نام پکارنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اس کے اصل نام کے بجائے ’’پسنگ پٹیل‘‘ Pissing Patel کہہ کراسے چھیڑنے لگتے ہیں۔ وہ اس بات سے تنگ آکر اپنا نام مختصر کرکے ’’پی‘‘ رکھ لیتا ہے۔’’پی‘‘ کا باپ پانڈی چری میں ایک چڑیا گھر کا مالک ہے۔ اس چڑیا گھر کی وجہ سے اس کا خاندان خوش حال ہے اور اس کی وجہ سے ’’پی‘‘ جانوروں کی نفسیات سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔

پی ہندو ہے لیکن جب وہ چودہ سال کا ہوتا ہے تو اسے عیسائیت اور اسلام سے لگاؤ ہوجاتا ہے اور آخر کار وہ ان تینوں مذاہب کا پیروکار بن جاتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے بجائے خدا سے محبت کرتا ہے۔وہ ان تینوں مذاہب کی مدد سے خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تینوں مذاہب افادیت رکھتے ہیں۔

اس کے خاندان کا زمین کے مسئلے پر حکومت کے ساتھ تنازعہ ہوتا ہے تو وہ چڑیا گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس طرح وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ چڑیا گھر کے جانور دنیا بھر کے چڑیا گھروں کو بیچ دیے جائیں اور ان کا خاندان کینیڈا میں آباد ہوجائے۔

ناول کے دوسرے حصے میں پی کا خاندان ایک جاپانی مال بردار بحری جہاز پر سوار ہوکر کینیڈا کی جانب روانہ ہوتا ہے اور اپنے چڑیا گھر کے کچھ جانور بھی ساتھ لے لیتاہے۔تاہم ان کا بحری جہاز سمندری طوفان کے نتیجے میں اس وقت سمندر میں غرق ہوجاتا ہے جب وہ منیلا کی بندرگاہ سے کچھ دن کے فاصلے پر ہوتا ہے۔پی کا خاندان اس حادثے میں مارا جاتا ہے۔

طوفان کے دوران پی ایک چھوٹی سی لائف بوٹ پر سوارہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ کشتی پر ایک بنگالی شیر ، ایک لگڑبگڑ ، ایک زخمی زیبرا اور ایک بندر بھی ہوتا ہے۔ابتدا میں پی جب بنگالی شیر کو کشتی پر سوار کرانے لگتا ہے تو اچانک اسے احساس ہوتا ہے کہ ساڑھے چار سو پونڈ وزنی شیر کو کشتی پر بٹھا کر وہ غلطی کررہا ہے تو وہ اسے چپو مار کر بھگانے کی کوشش کرتا ہے تاہم شیر کشتی میں سوار ہوکر رہتا ہے۔ اس شیر کا نام ’’رچرڈ پارکر‘‘ ہے جو اصل میں اسے پکڑنے والے شکاری کے نام پر رکھا گیا تھا۔پی شیر سے خوفزدہ ہوکر پانی میں چھلانگ لگادیتا ہے لیکن چاروں طرف ٹھاٹھیں مارتے سمندر ، یخ پانی اور شارکوں سے خوفزدہ ہوکر وہ دوبارہ کشتی میں سوار ہوجاتا ہے۔وہ محسوس کرتاہے کہ رچرڈ پارکر یعنی بنگالی شیر کشتی میں کہیں چھپ گیا ہے جبکہ دیگر جانور سامنے موجود ہوتے ہیں۔

پی ان جانوروں سمیت زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت اسے شدید پریشانی ہوتی جب لگڑبگڑ زیبرا کو ہلاک کردیتا ہے اور بندر کو بھی ماردیتا ہے۔اس موقع پر بنگالی شیرجو کشتی کی ترپال کے نیچے میں چھپا ہوتا ہے ، لگڑ بگڑ کو مار کر کھا جاتا ہے۔پی اس صورت حال سے خوفزدہ ہوجاتا ہے اور کشتی پر موجود کچھ امدادی اشیاء کی مدد سے ایک بیڑی بناتا ہے اور اسے کشتی سے باندھ کر خود اس پر چلاجاتا ہے تاکہ شیر سے محفوظ رہے۔شیر کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ اسے کچھ مچھلیاں اور پانی دیتا ہے۔وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس طرح شیر چپ چاپ بیٹھا رہے اور کشتی اس کی حرکت سے ڈگمگانے نہ پائے۔پی اس موقع پر خود کو راجہ نر ثابت کرنے کے لیے کشتی کے ایک کونے میں پیشاب کردیتا ہے۔آخرکار شیر رچرڈ پارکر اور پی ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ لیتے ہیں۔

سمندر میں بھٹکنے کے دوران پی کئی واقعات کو یاد کرتا ہے۔ایک موقع پر وہ مسلسل سمندر میں رہنے کے باعث اندھا ہوجاتا ہے اور اسی اندھے پن کے دوران اس کا سامنا ایک فرانسیسی باشندے سے ہوتا ہے جو اسی کی طرح سمندر میں ایک تختے پر بھٹک رہا ہے۔وہ بھی سمندر میں رہنے کی وجہ سے نیم اندھا ہوچکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے خوراک کے ذائقوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔اس سے پہلے کے فرانسیسی باشندہ پی کو ہلاک کرکے اسے کھاجائے، شیر رچرڈ پارکر اس فرانسیسی پر حملہ کرکے اسے کھا جاتا ہے۔ پھر پی گوشت خور الجی سے بنے ایک متحرک جزیرے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں پر میرکات نیولوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ 227دن بعد پی کی کشتی میکسیکو کے ساحل پر پہنچتی ہے تو بنگالی شیر فوری طورپر قریبی جنگلوں میں غائب ہوجاتا ہے۔

ناول کے تیسرے حصے میں پی کا ایک میکسیکن ہسپتال میں علاج ہورہا ہے۔جاپانی وزارت ٹرانسپورٹ کے دو حکام پی سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔وہ اس سے جہاز ڈوبنے کے اسباب کاپتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ اس نے اپنی جان کیسے بچائی۔لیکن وہ اس کی جانوروں والی کہانی پر یقین نہیں کرتے جس پر پی انہیں ایک متبادل کہانی سناتا ہے جس میں وہ انسانی سفاکی کی نشاندہی کرتا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی ماں، ایک لنگڑے ملاح اور بحری جہاز کے باورچی کے ساتھ لائف بوٹ پر سوار تھا۔ جہاز ڈوبنے سے قبل یہ افراد پی کی ماں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔باورچی ملاح اور پی کی ماں کو قتل کردیتا ہے اور ان کو خوراک اور چارے کے طورپر استعمال کرتا ہے۔پی جواب میں باورچی کو قتل کردیتا ہے۔ جاپانی حکام پی کی کہانی کو اس کی پہلی کہانی سے جوڑتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دوسری کہانی میں پی نے بندر کو اپنی ماں ، زیبرا کو ملاح ، باورچی کو لگڑ بگڑ اور خود اپنے آپ کو رچرڈپارکر یعنی شیر کے طورپر پیش کیا ہے۔

جاپانی حکام کو متعلقہ معلومات فراہم کرنے کے بعد پی ان سے سوال کرتا ہے کہ وہ اس کی دونوں میں سے کون سی کہانی کو قبول کریں گے۔چونکہ جاپانی حکام اس بات کو ثابت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اس کی کون سی کہانی سچی ہے اور ساتھ ہی جہاز ڈوبنے کے واقعے سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا ، اس لیے وہ اس کی جانوروں والی کہانی پر یقین کرلیتے ہیں۔پی ان کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’خدا کی بھی یہی مرضی تھی۔‘‘

ناول کے بیانیے کے لیے مصنف نے جو تکنیک استعمال کی ہے اسے ناقدین نے ’’دستاویزی حقیقت نگاری ‘‘ کا نام دیا ہے۔ پہلے تو مرکزی کردار پی اپنے بچپن کے دنوں کو خود بیان کرتا ہے اور پھر یان مارٹل خود بیان کرتا ہے جس کے لیے وہ وزٹنگ رائٹر کے طورپر واقعے کے کئی سالوں بعد پی کا انٹرویو کرتا ہے۔ناول کا منظرنامہ میوزیکل کاؤنٹر پوائنٹ ، دیومالاسازی اور ایک ناقابل اعتبار راوی پی پر مشتمل ہے۔

کچھ مصنف کے بارے میں
یان مارٹل فرانسیسی ہے لیکن اس کی پیدائش سپین کے قصبے سالامانکا میں ہوئی۔ اس کے والدین نکول پیرن اور ایملی مارٹل کا تعلق کینیڈا کے فرانسیسی زبان بولنے والے صوبے کیوبک سے ہے۔مارٹل کا والد اس کی پیدائش کے موقع پر سپین میں کینیڈا کا سفارت کار تھا۔والد کے سفارت کار ہونے کی وجہ سے مارٹل فرانس ، میکسیکو ، کوسٹاریکا اور دیگرملکوں میں بھی رہا۔اس نے ہائی سکول کی تعلیم پورٹ ہوپ اونٹاریو کے بورڈنگ سکول سے حاصل کی۔ جوانی کے دنوں میں اس نے ایران ، ترکی اور بھارت میں بھی کچھ عرصہ گذارا۔پٹس بورو اونٹاریو کی ٹرینٹ یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھنے کے بعد اس نے بھارت میں تیرہ ماہ گذارے جہاں وہ مسجدوں ، مندروں ، چرچوں اور چڑیا گھروں کے دورے کرتا رہا۔ یہاں پر اس نے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں اور پرانی کہانیوں کا مطالعہ کیا۔اس وقت مارٹل کی رہائش ساسکاٹون کینیڈا میں ہے۔ کہانیوں کی اس کی پہلی کتاب ’’سیون سٹوریز‘‘ کے عنوان سے 1993 میں شائع ہوئی تھی۔

’’لائف آف پی‘‘ کا آئیڈیا
’’لائف آف پی ‘‘ لکھنے کا خیال اسے کیسے آیا ، اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس نے ایک برازیلی ادیب موکائر سکلیر کے ناولٹ ’’میکس اینڈ دی کیٹس‘‘ کے بارے میں ایک تبصرہ پڑھا تو اس کے دل میں یہ آروز جاگی کہ وہ ایک ایسی کہانی لکھے جس میں لائف بوٹ میں شیر اور انسان کا ساتھ دکھایا جائے۔موکائر سکلیر کی کہانی ایک ایسے جرمن یہودی کے بارے میں جو ایک چیتے کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے بحراوقیانوس میں سفر کررہا ہے۔ مارٹل کا ناول پڑھنے پر موکائر بہت حیران ہوا کہ اس نے کیسے اس کو بتائے بغیر اس کے خیال کو اپنے ناول میں استعمال کیا۔ موکائر اس کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا لیکن پھر اس کی مارٹل سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔

مارٹل کا تازہ ناول’’بیٹرائس اینڈ ورجل‘‘ 2010 میں شائع ہوا جس کا موضوع ہولوکاسٹ ہے۔اس کے مرکزی کردار دو بھس بھرے جانور (بندر اور گدھا) ہیں جبکہ باقی کردار بھی بھس بھرے جانور ہیں جو بھس بھرے جانوروں کی ایک دکان پر دکھائے گئے ہیں۔ مارٹل کے بقول یہ ناول ایک ہی موضوع پر دو مختلف نکتہ ہائے نظر کا بیان ہے۔ ناول پر بنائی جانے والی فلم کو 85ویں آسکر ایوارڈ میں سب سے زیادہ ایوارڈ ملنے کے بعد ناول ایک بار پھر عالمی شہرت حاصل کر گیا ہے اور دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ فروخت ہورہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔