- عمان؛ جھولا گرنے سے 7 بچے اور ایک خاتون شدید زخمی
- بابر اعظم نے سال کے بہترین کرکٹر کی ٹرافی وصول کرلی
- گورنر پنجاب کا صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار
- بھارت؛ تاجر نے فیس بک لائیو آکر خودکشی کرلی
- متحدہ عرب امارات میں رہائشی ویزے کے حامل افراد کیلیے خوش خبری
- باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مسافر سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد
- پاکستان ریلوے نے کرایوں میں اضافہ کر دیا
- ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ای سی پی کے فیصلے کیخلاف اپیل؛ عدالت کل فیصلہ سنائے گی
- پی ٹی اے کا توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا کیخلاف بڑا ایکشن
- دماغی امواج میں تبدیلی سے سیکھنے کا عمل تین گنا تیز ہوسکتا ہے!
- گوجرانوالہ: 10 سالہ بچے نے غیرت کے نام پر ماں کی جان لے لی
- آسٹریلیا میں سکے سے بھی چھوٹا انتہائی تابکار کیپسول گرکرگم ہوگیا
- اسکول کی طالبہ نے صاف ہوا فراہم کرنے والا بیگ پیک بنالیا
- طالبعلم پر ٹیچر کا تشدد، اسکول کی رجسٹریشن معطل اور جرمانہ عائد
- اسمبلیاں تحلیل کرنا بہترین حکمت عملی تھی، حکومت بند گلی میں آگئی، عمران خان
- ملک میں اب نواز شریف کے سوا کوئی چوائس نہیں، مریم نواز
- سونے کی قیمت میں ایک مرتبہ پھر ہزاروں روپے کا اضافہ
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم ون ڈے، سوریا کمار ٹی20 میں پہلی پوزیشن پر براجمان
- امریکی وزیر خارجہ کی فلسطینی صدر سے ملاقات
- معروف بلڈر کی گاڑی پر فائرنگ، ڈرائیور زخمی
خوشی
چاند کا یک خوبصورت منظر فوٹو : ایکسپریس
پشاور: آج رمضان کی اُنتیس تاریخ تھی۔ رات کو چاند کے نظر آنے کے بعد سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ ندا نے ابو سے بازار جانے کی فرمایش کی۔ اگرچہ اس نے عید کے لیے زیادہ تر چیزیں خرید لی تھیں مگر آج وہ اپنی دو سہیلیوں خدیجہ اور صبا، کے لیے تحفے اور اپنے لیے کچھ اور چیزیں لینا چاہتی تھی۔ پہلے تو ابو نے ٹال دیا مگر جب ندا کا اصرار بڑھنے لگا تو وہ اُسے بازار لے گئے۔ ندا نے خدیجہ، صبا اور اپنی کزنوں کے لیے بہت خوب صورت تحفے لیے۔ وہ ہمیشہ عید والے دن اپنی سہیلیوں کو تحفے دیتی تھی۔
وہ خوشی خوشی خریداری کرکے گھر پہنچی تو گھر میں پچھلے سال آنے والے سیلاب کے متعلق باتیں ہورہی تھیں۔ سیلاب سے متاثر ہونے والوں میں خود ندا کا گھرانہ بھی شامل تھا۔ جب سیلاب آیا تھا تو وہ سب گائوں میں تھے اور ان کا سب کچھ بہہ گیا تھا۔ ندا کو وہ دن یاد آنے لگے جب وہ بھی متاثرینِ سیلاب کی فہرست میں شامل تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ان دنوں کو جو مشکلات سے بھرے ہوئے تھے، بھول نہیں سکتی تھی۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر ایک فلم کی طرح گھوم رہے تھے۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے پچھلی عید یاد آئی جو بے سروسامانی کی حالت میں گزری تھی۔ اس دن وہ بلک بلک کر روئی تھی کیوںکہ وہ پہلی عید تھی جب اس کے پاس کچھ نہ تھا۔
ندا چوںکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے زیادہ نقصان ہونے کے باوجود آج ان کے حالات پھر سے بہتر تھے۔ پورا سال گزرنے کے باوجود ندا ان دنوں کو بھول نہیں پائی تھی جب وہ دوسروں کی مدد کی منتظر ہوتی تھی۔ اُس نے سوچا کہ آج کوئی اور اس کی مدد کا منتظر ہوگا۔ جس طرح وہ پچھلی عید میں امداد کے لیے لوگوں کی راہ تک رہی ہوتی تھی، آج اس کی کوئی ہم عمر لڑکی اس کی راہ تک رہی ہوگی۔ اس نے وہ تمام تحفے جو اپنی سہیلیوں اور کزنز کے لیے خریدے تھے، متاثرینِ سیلاب کو دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اب اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ سب اُن تک پہنچ بھی پائے گا کہ نہیں؟ خود تو وہ جا نہیں سکتی تھی۔
اس نے ابو سے مشورہ کیا۔ ابو نے اس کے فیصلے کو سراہا اور پھر کہا کہ اگر وہ یہ امداد ان کو نہیں دے سکتی تو کسی ایسے ادارے کو دے دے جو واقعی ان تک مدد پہنچاتے ہوں۔ ندا نے ایسا ہی کیا اور اپنے تمام تحفے ایک ایسے ہی ادارے میں دے آئی۔
آج ندا نے ایک بار پھر پرانے کپڑوں میں عید منائی مگر آج وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ بہت خوش تھی۔ اس کا دل مطمئن تھا۔ اسے پہلی بار اتنی خوشی حاصل ہوئی تھی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔