’’میرا دوست نواز شریف‘‘

عبدالقادر حسن  جمعرات 25 اکتوبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زندہ رہنے والی کتابیں لکھ جاتے ہیں اور بد نصیب ہیں ہم لوگ جو صرف ایک دن اور وہ بھی شاید زندہ نہ رہنے والی کوئی تحریر لکھ دیتے ہیں جو دوسرے دن ردی کاغذ بن جاتی ہے۔

ہمیشہ کی طرح کچھ دن پہلے میرے دوست ضیاء شاہد نے اپنی تازہ تصنیف بجھوائی جس کا نام پڑھ کر ہی اندازہ ہوگیا کہ کتاب پڑھنے والی ہے اس لیے میں نے یہ نیت کر لی کہ خالی خولی تبصرہ نہیں ہو گا بلکہ پوری کتاب کا مطالعہ کرکے ہی اس کے بارے میں رائے زنی ہوگی۔ ضیاء شاہد نے میاں نوا زشریف سے اپنے کئی دہائیوں پر محیط تعلقات کو کتاب کا موضوع بنایا ہے، اس لیے انھوں نے کتاب کا نام ’میرا دوست نواز شریف‘ رکھنا پسند کیا ۔ نام سے ہی آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتاب کا موضوع کیا ہے۔

چار سو صفحات پر مشتمل کتاب میں میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو تفصیل اور باریک بینی سے بیان کیا گیا ہے جس کے لیے میرا دوست ضیاء شاہد داد کا مستحق ہے کہ اس نے ماضی کے واقعات کو یاد بھی رکھا اور آنے والی نسلوں کے لیے ان واقعات کو کتاب کی شکل بھی دے دی۔

بڑی مدت کے بعد ایسی کتاب پڑھنے کو ملی کہ جس کو ایک طرف رکھنے کو جی ہی نہیں چاہا اور اگر ہمت ہوتی تو ایک ہی نشست میں کتاب ختم کر لی جاتی مگر اب ایسی ہمتیں ختم ہو چکی ہیں، اس لیے اپنی سہولت کے مطابق کئی نشستوں میں دلچسپ واقعات پڑھے اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایک بھی ایسا واقعہ جو ضیاء شاہد نے کتاب میں بیان کیا ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جس میں میاں نواز شریف کے عروج و زوال کی داستان بیان کی گئی ہے اور وہ بھی ایک ایسے شخص نے کی ہے جو کبھی ان کی پارٹی کا ایک عہدیدار اور قریبی ساتھی تھا۔ضیاء نے بلا تامل اور کسی رکھ رکھاؤ کے بغیر بتایا ہے کہ حکمران بن جانے کے بعد نواز شریف نے اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے حکومتیں گنوائیں اور آج ان کی حکمرانی کا ذکر عبرت آموز ہے۔

مصنف نے مستند حوالوں کے ساتھ بات کی ہے نہ انھوں نے کوئی رعایت برتی ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے۔ اس نے میاںنواز شریف کی بادشاہت کے زوال کے حقیقی اسباب بھی بیان کیے ہیں جو محب وطن پاکستانیوں کے لیے بڑے ہی درد ناک اور افسوسناک ہیں ۔

حکمران نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو بڑی تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے ان کی بطور حکمران غلط پالیسیوں ، ذاتی کردار اور قومی مفادات سے بے نیازی کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے ان کے ذاتی اور ظاہری کردار کے بارے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کا ظاہری کردار دیکھ کر ان کے چاہنے والے ان کے احترام میں گردن جھکا دیتے ہیں لیکن اگر میاں صاحب کے حقیقی کردار کا جائز ہ لیا جائے تومعاملات کچھ اور ہی نکلتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’کسی نے مجھ سے کہا ایک جملے میں نواز شریف کی تعریف کرو میں نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ایک ایسا آئینہ ہے جو اس کے گردا گرد کھڑے ہوں ان کی تصویریں آئینے میں دکھائی دیں گی اس کے چاروں طرف بھوت اور چڑیلیں ہیں تو وہی نظر آئیں گی اگر خوشنما پھول ہیں تو آپ نوازشریف کو پھولوں سے سجا ہوا دیکھیں گے۔

میرا دوست معصوم آدمی ہے اس آئینے میں نیکی شرافت اور پاکستان سے محبت دکھائی دیتی تھی اب کئی برسوں سے وہ انڈین لابی اور اینٹی آرمی سوچ کے حامل دوستوں میں گھرا ہوا ہے جیسے محمود اچکزئی، اسفند یار ولی اور سب سے بڑھ کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ دانشور ، پر جوش سیاسی ورکر اور بقول شخصے ’سرخا‘پرویز رشید وغیرہ۔ اب آپ میرے اس دوست کے آئینے میں قائد اعظم اور ان کے ساتھی کہاں تلاش کریں گے ‘‘۔

مصنف جتنی تفصیل سے نواز شریف کی سیاسی زندگی کو زیر بحث لایا ہے اس سے مستند اور جامع معلومات پہلے دستیاب نہ تھیں ۔دراصل ضیاء شاہد نے نواز شریف کی کایا پلٹ کا رونا رویا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں وہ اول و آخر پاکستانی تھا، وہ اندرا  گاندھی ، واجپائی اور مودی کا حاشیہ نشین نہیں بن سکتا تھا ۔ میرے بھائی کواچانک کیا ہو گیا، یہ انڈین لابی آپ کو کہاں لے آئی، آپ تو ایک اچھے درد مند پاکستانی ہوتے تھے، آپ تو کسی کے آلہ کار نہیں بنے، یہ آپ کے کانوں میں نفرت کا سیسہ کون انڈیل رہا ہے، یہ بھارت کی کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اسکالرز آپ کی سوچ کو بدل رہے ہیں ‘‘ ۔

مصنف نے جتنی تفصیل اور بے باکی کے ساتھ  میاں نواز شریف کے سیاسی سفر کا احاطہ کیا ہے، وہ شاید پھر کبھی ممکن نہ ہو سکے کیونکہ سچ بولنا اورپھر اسے لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مجھے مصنف سے ایک بات پر اختلاف ہے کہ ایک کارکن اور شبانہ روز محنت کرنے والا اخبار نویس سیاست دانوں کے چنگل میں کیسے پھنس گیا اور اس نے باقاعدہ طور پر سیاسی پارٹی جوائن کر لی حالانکہ ایسی کئی سیاسی پارٹیاں اس کی صحافت کے سامنے ہیچ تھیں۔

بہر حال انسان خطا کا پتلا ہے اورمیرا اخبار نویس دوست بھی اس سے مبرا نہیں اس نے سیاست میں رہتے ہوئے بھی اپنے لیڈر کے سامنے سچ بات کی اور کلمہ حق کہاجس کی پاداش میں بالآخر سیاست سے رخصت ہو کر اپنے اصلی شعبے میں کل وقت کے لیے واپس آگیا ۔

میرے دوست کی کتاب پڑھنے والی ہے اور ان پاکستانیوں کو ضرور پڑھنی چاہیے جو اپنی قوم کا درد اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اصلاح پر تیار ہیں ۔’’پس اے عبرت والو! عبرت پکڑو ان واقعات سے اگر تمہاری آنکھیں کام کرتی ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔