بجلی آگئی

وجاہت علی عباسی  اتوار 16 جون 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

’’بجلی آگئی‘‘ یہ جملہ پاکستان میں اتنی بار بولا جاتا ہے کہ اگر اس جملے کو سیدھی لائن میں لکھا جائے تو ہم روز اس لائن سے دنیا کے چار چکر لگاسکتے ہیں، گزرگیا وہ زمانہ جب پاکستان میں بچہ پہلے جملے میں ماں یا باپ بولنے کی کوشش کرتا تھا۔ آج بچہ ’’ماں‘‘ سے پہلے ’’بجلی‘‘ بولنے کی کوشش کرتا ہے، گرمی میں بلکتا ہوا بچہ سوچتا ہے کہ کیسے پوچھوں کہ لائٹ کب آئے گی؟ ہاں مانا کہ بڑے شہروں میں رہنے والے کئی لوگ جو جنریٹر افورڈ کرسکتے ہیں اب بجلی جانے کا زیادہ سوچتے بھی نہیں ہیں۔ انھیں جنریٹر چلانے کی عادت ہوگئی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی نوے فیصد لوگ بغیر جنریٹر کے بجلی آنے کا انتظار دن میں بار بار کرتے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے حالات ایسے بدلتے ہیں جیسے کرکٹ میچ میں ہر اوور کے بعد رن ریٹ، کبھی حالات اچھے توکبھی برے اور اسی لیے ہمارے درمیان ہمیشہ بزنس کے اچھے تعلقات قائم کرنے میں پیچیدگیاں رہیں لیکن اب لگتا ہے کہ گھر میں پنکھا چلانے کے لیے ہمیں انڈیا سے پکی والی دوستی کرنی ہی پڑے گی۔

بجلی کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے ہماری نئی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بہت سنجیدگی سے انڈیا سے بجلی خریدنے کے بارے میں سوچیں گے۔ پاکستان انڈیا سے ہزار میگاواٹ بجلی امپورٹ کرنے کا سوچ رہا ہے جب کہ پچھلی گورنمنٹ نے بھی ایسا سوچا تھا لیکن وہ صرف پانچ سو میگاواٹ تھی اس سال اگست میں انڈیا اور پاکستان مل کر اس پروجیکٹ پر عمل کرنے پر غور کریں گے۔

دنیا کی سب سے قابل بھروسہ بجلی کی کمپنی نیویارک میں واقع Con Edison کے چند اہم اہل کاروں کو قریب سے جاننے کی وجہ سے اکثر ہم پاکستان کی بجلی اور اس کے مسئلے پر ان سے بات کرتے ہیں، اس لیے ایک لمبی ریسرچ کے بعد اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ انڈیا سے بجلی خریدنا ایک سمجھدار فیصلہ ہے۔ دنیا میں اس وقت گلوبلائزیشن ہورہی ہے چھپ کر بند ماحول میں کام کرنے کے بجائے بڑی کمپنیاں دوسری کمپنیوں کے ساتھ مل کر ٹیم ورک کرتی ہیں شاید آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ آئی فون بنانے والی کمپنی ’’ایپل‘‘ جب بینک کرپٹ ہونے والی تھی تو وہ اپنی سب سے بڑی دشمن کمپنی مائیکروسافٹ کے پاس گئے جن کی مدد سے ایپل پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہوپائی۔ آج پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے اور یہ کام بغیر مدد اور بجلی کے نہیں ہوسکتا۔

کچھ چیزیں ہمیں بجلی کو لے کر امریکا سے سیکھنی چاہئیں جہاں ایک دو نہیں درجنوں بجلی کی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں ہر اسٹیٹ میں ہوتی ہیں جو بجلی بناکر ان کمپنیوں کو بیچتی ہیں جو بجلی کسٹمرز کو تقسیم کرتی ہے، بجلی کی سپلائی ڈیمانڈ چین ویسے ہی چلتی ہے جیسے دوسرے بزنس۔ بیشتر کمپنیاں پبلک ہوتی ہیں اور اس وجہ سے گورنمنٹ ان کو قریب سے مانیٹر کرتی ہے۔ اگر کبھی دو گھنٹے کے لیے بھی لائٹ چلی جائے تو بجلی کی کمپنی ملین آف ڈالرز حکومت کو فائن بھرتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دکانداروں یا عام لوگوں کا بجلی جانے سے جو نقصان ہو وہ بھی بھرتی ہے جیسے ریفریجریٹر میں رکھی کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ۔

امریکا میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی حکومت باقاعدہ بجلی کی کمپنی کے لیے بجٹ مختص کرتی ہے جس کی وجہ سے ہر سال پبلک ٹیکس کا ایک حصہ بجلی کمپنیوں کو جاتا ہے اسی لیے ان کمپنیوں کو grow کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی کام کرنے والے اہل کاروں کو بونس اور میڈیکل انشورنس جیسی مراعات دی جاتی ہیں۔ سینڈی جیسے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے ہی سے ایمرجنسی میں کام کرنے کے لیے تیاری کرلی جاتی ہے جس کے لیے ان ٹیموں کی سال میں کئی بار ٹریننگ بھی ہوتی ہے۔ یہ تو امریکا جیسے ملک کا وہ سسٹم ہے جو پوری طرح چل رہا ہے اور کامیاب بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کو اپنی بجلی کا حال بہتر کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

سب سے پہلے پاکستان کو اپنے الیکٹریسٹی جنریشن پلانٹس پر سرمایہ لگانا چاہیے۔ کول، ہائیڈرو اور نیوکلیئر ہر طرح کے پلانٹ جو پاور مہیا کرسکیں ساتھ ہی فوراً باہر کی کمپنیوں سے رابطہ کریں اور انھیں یہ بتائیں کہ ہم کیسے بجلی بیچیں گے اور کیسے اس سے ہر مہینے فائدہ حاصل ہوگا جو اس وقت پاکستان میں نہیں ہورہا۔

پاکستان میں اس وقت بجلی کی ساری فنڈنگ گورنمنٹ کی طرف سے آتی ہے جس میں انوسٹمنٹ سے کیا فائدہ ہوگا پر زیادہ غور نہیں کیا جاتا۔ بجلی بیچنے سے زیادہ فائدہ ہونے سے خود بخود ہمارا سسٹم بہتر ہونے لگے گا۔

یوٹیلیٹی کمپنیوں کا سارا کام پلاننگ اور شیڈول پر منحصر ہوتا ہے۔ پاکستان کی بجلی کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی بجلی بنانے والی کمپنیوں مستقبل کی پلاننگ پر بڑا فوکس رکھیں، ایک مہینے میں کیا بہتر ہوگا ، ایک سال، دس سال میں ہمیں کہاں ہونا چاہیے، یہ ہمیں آج معلوم ہونا چاہیے۔

جہاں کئی لوگوں کو انڈیا سے بجلی خریدنا غلط لگتا ہے وہیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم انڈیا سے مدد نہیں مانگ رہے بجلی خرید رہے ہیں جس میں صرف ہمارا نہیں ان کا بھی فائدہ ہے جہاں ہمارے پنکھے چلیں گے اور بچوں کو چین کی نیند آئے گی وہیں انڈیا میں بھی ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی۔انڈیا سے دو سال بجلی خریدنا ٹھیک ہے لیکن اس عرصے میں ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہیے۔ ہمارے اپنے بجلی کے پلانٹس ہوں گے تو انڈیا ہمیں مزید سستی بجلی بیچے گا۔

نیویارک کی کمپنی کان ریڈیسن کے نائب صدر سے پاکستان کی بجلی کے بارے میں لمبی بات چیت کے آخر میں انھوں نے ہم سے کہا کہ پاکستان کی بجلی سے زیادہ بڑا مسئلہ وہاں کے لوگوں میں ’’چلتا ہے‘‘ والی سوچ ہے۔ ہم ہر چیز کو آدھا ادھورا بغیر ڈسپلن کے چھوڑ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کام پورا ہوگیا اگر ہماری بجلی کو یا کسی بھی اور سسٹم کو پاکستان میں بہتر بنانا ہے تو یہ ’’چلتا ہے‘‘ والا سسٹم ختم کرنا ہوگا ورنہ جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔