گٹھیا کا مرض

شاہدہ ریحانہ  پير 17 جون 2013
خواتین چہل قدمی کے ذریعے اس بیماری سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ فوٹو: فائل

خواتین چہل قدمی کے ذریعے اس بیماری سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ فوٹو: فائل

خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد گٹھیا کے مرض کا شکار ہو جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بہت سے گھروں میں بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی غذائی ضروریات کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور لڑکیوں کی اس ضرورت کو نادانستہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہوتا ہے یا باقاعدہ دانستہ طور پر غصب کر لیا جاتا ہے اور یہ غذائی کمی بعد ازاں ان میں اس تکلیف کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے گھروں میں رائج یہ تفریق یا غفلت ختم کی جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کو زیادہ معیاری اور متوازن خوراک کی ضرورت ہے، ورنہ بعد میں خواتین ہارمونز کی کمی کے باعث زیادہ تیزی سے گٹھیا کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ہمیں اوائل عمر سے ہی متوازن خوراک پر توجہ دینا ہوگی۔

ہر فرد کی عمر، جنس اور کام کے مطابق غذائی ضروریات الگ الگ ہوتی ہے۔ تاہم خواتین عموماً گھر اور بچوں کی مصروفیت کے باعث ذہنی وجسمانی دونوں قسم کی مشقت کرتی ہیں، لہٰذا ان کی خوراک میں نشاستہ، چکنائی اور لحمیات مناسب مقدار میں شامل ہونا چاہیے۔ ایک بالغ خاتون کو عام حالات میں لحمیات نشاستہ، چکنائی کے علاوہ حیاتین اور نمکیات کی بھی اشد ضروری ہوتی ہے۔ ہماری غذا میں نمکیات یعنی کیلشیم، فولاد وغیرہ ہماری ہڈیوں، دانتوں اور ناخنوں کا ایک لازمی جز ہیں۔ لہٰذا غذا میں ان کے استعمال کا خاص خیال رکھا جائے، حیاتین اور نمکیات کی کمی جسم کو مختلف امراض کا شکار کر دیتی ہے۔ ہمارا جسم حیاتین کے بغیر دوسرے غذائی اجزا سے فایدہ نہیں اٹھاتا۔ اس لیے اگر جوڑوں، پٹھوں کے درد سے بچنا ہے، تو خیال رکھیے کہ آپ کی غذا میں لحمیات، نشاستہ اور چکنائی کے ساتھ تمام حیاتین اور نمکیات بھی ضرور شامل ہوں۔ ورنہ غذائی قلت کے باعث آپ کے پٹھے، ہڈیاں، دانت اور ناخن وغیرہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہماری غذا میں وہ تمام اجزا شامل ہونے چاہئیں، جس کی جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔

گٹھیا سے تحفظ کے لیے ابتدائی عمر سے خواتین کو اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا چاہیے، تاکہ عملی زندگی میں آنے کے بعد مختلف مسائل سے بچا جا سکے۔ گٹھیا کا سبب جسم کی قوت مدافعت کی کم زوری قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جوڑوں کے اندر کی ساخت اور انہیں سہارا دینے اور توانا رکھنے والے پٹھے اور رگوں کی کم زوری کا عمل دھیرے دھیرے اپنا کام دکھانے لگتا ہے۔ اگر خواتین کچھ احتیاط، کچھ ضروری اقدام بروقت اٹھالیں تو درد و تکلیف کے بغیر زندگی گزار سکتی ہیں۔ جوڑوں کو صحت مند رکھ کر ہم گٹھیا کا شکار ہونے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ جوڑوں میں درد اور ورم کا ایک سبب مُٹاپا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کا وزن آپ کی عمر اور قد کی مناسبت سے زیادہ ہے تو یہ اوسٹیو پوروسیس (ہڈیوں کے بھربھرے پن) کا پیش خیمہ بھی بن  سکتا ہے۔ یہ مرض بھی خواتین کو زیادہ نشانہ بناتا ہے، جس میں ہڈیاں اندر سے کھوکھلی ہو کر بہت کم زور ہو جاتی ہیں۔ یہ مرض اکثر معمول سے زیادہ وزن رکھنے والی خواتین کو ہی زیادہ گھیرتا ہے۔

متوازن وزن رکھنے والی خواتین بھاری جسامت کی خواتین کے مقابلے میں اوسٹیو پوروسیس سے 50 فی صد زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔ اوسٹیو پوروسیس سے محفوظ رہنے کا راستہ بھی اسی میں ہے کہ وزن کو قابو میں رکھا جائے۔ وزن میں اضافہ چلنے پھرنے اور بھاگنے دوڑنے میں ہی رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ یہ وزن آپ کے عضلات اور جوڑوں کو بھی برداشت کرنا پڑے گا اور اگر آپ نے یہ وزن کم نہ کیا تو یہ بوجھ دھیرے دھیرے جوڑوں کی اندرونی ہڈیوں پر منتقل ہو جائے گا، جس سے ہڈیاں متاثر ہوتی ہیںاور گِھِسنے لگتی ہیں، جو نہایت خطرناک ہے، لہٰذا وزن کم کرنے کے لیے اپنی غذا میں اعتدال لائیے۔ اپنے معالج کے مشورے سے اپنا غذائی چارٹ بنائیں اور ورزش سے بھی مدد لیجیے۔ ورزش وزن میں کمی کے ساتھ جوڑوں اور پٹھوں کو صحت مند رکھنے کا باعث بھی ہوگی۔ دیکھنے میں آیا کہ ورزش کرنے والی اور زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والی خواتین بہت کم گٹھیا یا جوڑوں کی تکالیف کا شکار ہوتی ہیں، کیوں کہ اس سے ہمارے سارے جوڑوں کی ورزش ہوتی رہتی ہے اور جسم کے مختلف جوڑ آگے پیچھے حرکت سے توانائی اور مضبوطی حاصل کرتے ہیں۔

متوازن خوراک، ورزش اور چہل قدمی سے خواتین خود کو، اور اپنی بچیوں کو گٹھیا اور اس نوع کے دیگر امراض سے بچا سکتی ہیں۔ ورزشوں کو ابتدائی عمر یا پھر جوانی میں ضرور اختیار کریں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دورانیے میں اضافہ کرتی جائیں اور کوشش کریں، ناغہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو سہولت میسر ہو تو کشتی رانی، تیراکی، اسکیٹنگ، والی بال، فٹ بال، باسکٹ بال اور ٹینس جیسے کھیلوں میں حصہ لیں، جس سے آپ کا جسمانی نظام اس مشقت کا عادی ہو گا۔ ان کھیلوں کا حصہ رہنے سے آپ کے جسم کا ہر حصہ گھومنے، مڑنے اور پلٹنے کی مشق سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ اگر آپ ان کھیلوں میں حصہ نہیں لیتیں تو دھیرے دھیرے ورزش کو اپنی عادت بنائیں، تاکہ آپ کے جوڑ اور ان کے اطراف کے عضلات اس کے عادی ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے ان عضلات کو مضبوط کرنے والی، ٹانگ، رانوں، پنڈلیوں کی ورزشیں سیکھ لی جائیں۔

چہل قدمی کے لیے مناسب لباس اور جوتوں کا بھی ضرور بندوبست کیجیے۔ ڈھیلا ڈھالا آرام دہ لباس اور جوگرز کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ ہاتھ، پیروں کو خوب حرکت دیں۔ گھٹنے موڑے بغیر ہاتھوں سے پیر کے انگوٹھے چھونے کی کوشش کریں، پھر رفتہ رفتہ اس کی رفتار بڑھائیں تاکہ بہت زیادہ بوجھ جوڑ اور پٹھوں پر نہ پڑے اور جلد تھکن بھی نہ ہو۔ عام طور پر خواتین ورزشوں سے گھبراتی ہیں اور گھریلو کام کاج اور بچوں کی پرورش کو ہی ایک سخت قسم کی ورزش گردانتی ہیں۔ ان امور کی انجام دہی کے دوران وہ صرف کاموں کی انجام دہی کا مقصد لیے ہوئی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کی چہل قدمی اور متحرک رہنے کی ضرورت تو پوری ہو رہی ہوتی، لیکن جسم کے ہر جوڑ کی حرکت اس طرح نہیں ہوتی ہے، جس طرح ورزش میں ہوتی ہے۔ لہٰذا ہلکی پھلکی اور آسان ورزشیں انہیں ضرور کرنی چاہئیں، تاکہ وہ نہ صرف گٹھیا اور اوسٹیو پروسیس بلکہ اس نوع کی دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔