سندھ میں سرکاری اسپتال نجی شعبے کو دینے کا تجربہ ناکام

طفیل احمد  جمعـء 26 اکتوبر 2018
مریضوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں، ناقص دوائیں فراہم کی جا رہی ہیں، رپورٹ
فوٹو:فائل

مریضوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں، ناقص دوائیں فراہم کی جا رہی ہیں، رپورٹ فوٹو:فائل

 کراچی: صوبائی محکمہ صحت کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو گیا اورسرکاری اسپتالوں کونجی شعبے کی تحویل میں دیے جانے کے بعد ان اسپتالوں میں صحت کی سہولتوں کی دستیابی میں مزید تنزلی پیدا ہوگئی۔

سندھ میں سرکاری اسپتالوں کو نجی شعبے کی تحویل میں دینے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ ان میں سے بیشتراسپتالوں میں مریضوں کی شکایت پرصوبائی محکمہ صحت بھی حرکت میں آگیا اور ابتدائی طورپر سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال، سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال اورضلع ملیر میں صحت  کے 34 مراکز پرانکوائری شروع کردی گئی بعدازاں انکوائری رپورٹ پر کارروائی کے بجائے سرد خانے کی نذرکردی گئی۔

اس وقت حکومت سندھ نے کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے1165 سے زائد صحت کے بنیادی مراکز پیپلزپرائمری ہیلتھ اینشیٹوکے حوالے کررکھے ہیں جس کے بورڈ میں پیپلزپارٹی کے اہم رہنما شامل ہیں۔

اندرون سندھ میں واقع104رول ہیلتھ سینٹرزکواین جی او انٹی گریٹڈ ہیلتھ سروسز کے ماتحت کردیے، ہینڈز نامی این جی او کو سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری سمیت ضلع ملیر کے 34 صحت کے مراکزدے دیے، پاورٹی این جی اوکوسندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی دیے رکھا، ضلع ٹھٹھہ اورضلع سجاول کے تمام تعلقہ اور ضلعی اسپتالوں کو مرگ نامی این جی اوکودے دیا ۔

انڈس اسپتال کو بدین سول اسپتال کے ماتحت کردیا، امن فاؤنڈیشن کو ٹھٹھہ اور سجاول کی ایمبولینس سروس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دے دیاگیاجبکہ ایرانی حکومت کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے ٹھٹھہ کے ایک اسپتال کوپبلک پرائیویٹ کے نام پرکراچی کے ایک ڈاکٹرکے نام کردیاگیا۔

محکمہ صحت کے ذمے دار افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ محکمہ صحت نے پختونخواسے تعلق رکھنے والی این جی او پاورٹی ایلیویشن کے ماتحت کیے جانے والے سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال آنے والے مریضوں کی شکایت پرانکوائری شروع کردی جس میں بدعنوانی کی رپورٹ سامنے آنے پر محکمہ کی جانب سے کارروائی روک دی گئی اور رپورٹ سرد خانے کی نذرکردی گئی۔

محکمہ صحت کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیاگیا تھاکہ پختونخوا سے تعلق رکھنے والی این جی او نے اسپتال میں54 اسامیاں غیر ضروری مختص کرکے بھرتیاں بھی کیں جنھیں لاکھوں روپے ماہانہ بھاری معاوضوں پر مقررکیاگیا۔

محکمہ صحت نے اپنی انکوائری رپورٹ میں کہاہے کہ اسپتال میں مریضوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں جبکہ غیر معیاری اور ناقص دوائیں فراہم کی جارہی ہیں اور متعدد ڈاکٹراسپتال آتے ہی نہیں۔ محکمہ صحت نے اپنی رپورٹ پر ہینڈز اور پاورٹی ایلیویشن کی کارکردگی پر سخت برہمی اورعدم اعتماد کااظہار بھی کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔