مسلمانوں کا خون ارزاں کیوں؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 17 اگست 2012
advo786@yahoo.com

[email protected]

میانمار میں فوج، سیکیورٹی اداروں کی مدد اور حکومتی ایما پر مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہے، ہزاروں قتل کردیے گئے ہیں۔ ان کی املاک اور عزت و آبرو کو پامال کیا جارہا ہے۔ برما کی فوجی حکومت پروپیگنڈا کررہی ہے کہ یہ مسلمان انگریزوں کے قبضے کے بعد برما میں آباد ہوئے تھے جب کہ حقیقتاً یہ لوگ سات صدی سے برما میں قیام پذیر ہیں، جنھیں نہ شناختی کارڈ کا حق حاصل ہے، نہ جائیداد خریدنے کی اجازت ہے۔ انھیں تعلیم جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔ اگر یونیورسٹی کالجز میں داخلہ مل بھی جائے تو انھیں ڈگری، ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ وغیرہ جاری نہیں کیے جاتے۔ سرکاری نوکریاں ان کے لیے شجرِ ممنوعہ ہیں۔

شہری حدود سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ کسی انتہائی مجبوری کے باعث باہر جانے کی اجازت کے لیے بھی رشوتیں دینی پڑتی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس عالمی انسانی مسئلے پر آزاد اور باخبر میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ ٹی وی ٹاک شوز میں اس مسئلے سے انکار یا لاعلمی ظاہر کی۔ اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستان کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بڑی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ قتل و غارت گری کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوگا جو سامنے آنا چاہیے۔ تصویروں میں ہمیں لاشیں بکھری نظر آتی ہیں، کیا پتہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہیں۔

ایک اور بہت بڑی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ اﷲ رب العالمین ہے اور حضورؐ رحمت اللعالمین ہیں، کسی انسان کو دوسرے انسان پر فوقیت نہیں ہے۔ ایک اور سماجی شخصیت کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ افسانہ کیا ہے، حقیقت کیا ہے۔ پروگرام میں شریک ایک عالم کا کہنا تھا کہ انسان کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے لیکن جس کا کام ہی خبر دینا ہو، اسے اپنا کام ذمے داری سے کرنا چاہیے۔ تمام شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ ظلم صرف ظلم ہوتا ہے، مسلم مریں یا غیر مسلم انسان تو سب ہیں۔ ان شرکاء کی گفتگو سن کر بے ساختہ کرنل قذافی کے وہ جملے ذہین میں تازہ ہوگئے جو انھوں نے راجیو گاندھی کے دور میں بھارت میں منعقد غیر وابستہ ممالک کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے کہ ’’دنیا میں کوئی غیر وابستہ طاقت نہیں ہے۔ ایک ظالم ہے دوسرا مظلوم۔ اس فورم کے افراد یا تو مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوجائیں یا ظالم کے ساتھ اس کے ظلم میں شریک ہوجائیں۔

غیر وابستہ ممالک اس وقت کہاں تھے جب میرے ملک پر پابندیاں عاید کی گئیں، میرے گھر پر بم باری کرکے میری بچّی شہید کردی گئی تھی۔‘‘ آج اگر ہم لیبیا اور شام میں رونما کی جانے والی یا ہونے والی بغاوتوں کا موازنہ کریں تو عالمی طاقتوں کے دہرے اور منافقانہ رویے معمر قذافی کے اس موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ میانمار میں فوجی، مسلمانوں کا قتل عام اور خواتین کی آبروریزی کررہے ہیں۔ حکومتی اہلکاروں نے تشدد کی مہم چلائی ہوئی ہے اور حکومت مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے، امدادی کارکنان اور صحافیوں کو متاثرہ علاقوں میں جانے نہیں دیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسلمانوں کی لاشوںکو دفنانے کے بجائے جلایا یا بہایا جارہا ہے۔ خود اس کے صدر کا بیان ہے کہ مسلمانوں کو نکال کر کسی دوسرے ملک میں بسادیا جائے۔

ان بے خانماں مسلمانوں سے عالمی ادارے اور حکومتیں تو درکنار مسلمان حکومتوں، اداروں اور شخصیات نے بھی بے اعتنائی اختیار کی ہوئی ہے، نہ کوئی احتجاج ہے، نہ مذمت اور نہ ان کے تحفظ اور امدادی سرگرمی دیکھنے میں آئی۔ دوسری جانب بودھ قبائل نے آسام میں مسلمانوں کے خون سے جس طرح ہولی کھیلی گئی ہے اس پر ایڈوانی جیسا شخص بھی ارکانِ پارلیمنٹ پر برس پڑا کہ گجرات کے فسادات پر واویلا مچانے والے آسام کے اندر ایک ہی دن میں 5 ہزار بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہیں؟ افغانستان، عراق، صومالیہ، لبنان، فلسطین، شام، سوڈان اور شمالی علاقہ جات وغیرہ میں نہتے مسلمانوں کو اسکڈ میزائلوں، لیزر میز گائیڈ بموں، ڈیزی کٹر بموں، ڈرونز حملوں، اپاچی ہیلی کاپٹرز اور ہوائی جہازوں کے ذریعے حملے کرکے گھروں، اسپتالوں، شادی ہالوں، مسجدوں، گاڑیوں پر حملے کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے۔

عورتوں، بچّوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں، چیمپئن اور سامراجی قوتوں کے سامنے سجدہ ریز روشن خیال مبصرین اور مسلم حکمران اس کائناتی قسم کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی امن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ برقعے پر پابندی عاید کرنے والے اٹلی، فرانس، بیلجیئم، ڈنمارک اور جرمنی وغیرہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اس سے جسمانی نشوونما رک جاتی ہے۔ اس لیے یہ انسانی آزادی کے خلاف ہے، لیکن جب حجاب کے مقدمے کی فریق شہید حجاب مرواج الشربینی پر عدالت کے اندر خنجر کے 8 وار کرکے قتل کیا جارہا ہوتا ہے تو جج اور پولیس والے یہ منظر دیکھتے رہتے ہیں، جیسے ہی اس کا شوہر بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اس کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے چیمپئن، روشن خیال اور عالمی امن کے دعوے دار بھی اس قبیح و سفّاکانہ عمل پر لب کشائی کرنے کے بجائے ہمیں امریکی عدالت کی وہ فوٹیج دِکھا کر امریکا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اُکساتے رہتے ہیں جس میں ایک جج اپنی کرسی سے اُچھل کر کسی ملزم کو دبوچ لیتا ہے۔

عافیہ صدیقی جیسی عورت کے ساتھ انسانیت و امن کے علمبرداروں کا رویہ اور ایوان ریڈلی و دیگر قیدی غیر مسلم خواتین کے ساتھ جاہل، اجڈ اور دہشت گرد طالبان کا رویہ ان کے عزم اور عزائم کے فرق کو ظاہر کرتا ہے، جو ان جاہلوں، ظالموں اور دہشت گردوں کے رویوں اور سلوک کی تعریف اور اسلام کا دفاع اور وکالت کررہی ہے۔ بوسنیا، عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل اور خواتین کی عصمت دری کرانے والے اپنے ماتھے پر ابوغریب اور گوانتاناموبے کے جھومر سجائے بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ، سیکیورٹی کونسل، ورلڈ بینک ان کی کنیزیں ہیں اور مسلمان حکمران، روشن خیال امن اور انسانی حقوق کے علمبردار ان کے غلام ہیں جو کسی ردعمل یا حق گوئی کی یادداشت میں دہشت گردوں کی صفوں میں شمار کیے جانے کے خوف سے امریکی حاشیہ نویسوں کی صفوں میں ہی قیام و سجود میں مصروفِ عمل ہیں۔ مسلم ممالک میں مملوکیت اور پٹھو آمرانہ حکومتوں کو بھی امریکا کی بھرپور اعانت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ آج شامی حکمران اپنے ہی شہریوں پر جنگی طیاروں سے بم باری کرکے ماررہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے کارنامے سرانجام دیے جاتے رہے ہیں، آیندہ بھی دلوائے جاتے رہیں گے۔

حقیقت میں مسلمان ملکوں اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں جہاں مسلمان سربراہان کا بڑا کردار ہے وہیں خود مسلمانوں کی اپنی غفلت، دینوی اور دنیاوی شعور و تعلیم سے دُوری ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسے ملک میں بغلوں میں کتے لیے کمال اتاترک کو آئیڈیل قرار دینے والے شعائرِ اسلام پردہ، داڑھی اور اسلامی اقدار کا کھلم کھلا تمسخر اُڑانے والے، نصاب کو مغرب زدہ اور مدارس کو امریکی حصار میں لانے والے حدود اﷲ اور توہینِ رسالت میں تبدیلیاں لانے اور اس کے مرتکب سزا یافتہ افراد کو فرار کرنے، امن کی بیٹیوں اور بیٹوں کو محض داڑھی حجاب اور شعائرِ اسلام کی پابندی کرنے کی پاداش میں کفار کے حوالے کرنے اور اپنے مسجد و مدارس میں معصوم بچیوں کا قتل عام کرنے والے حکمران بساط سے بڑھ کر وہ خدمات انجام دیتے رہے ہیں جس کی کسی غیر مسلم سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔