ادارے الطاف حسین کو معاف کردیں تو وہ آئیں اور ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کی قیادت سنبھال لیں، آفاق احمد

سید بابر علی  اتوار 28 اکتوبر 2018
 متحدہ قومی موومنٹ بنانے کے لیے اسلم بیگ نے پیسے دیئے، مہاجرقومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے خصوصی بات چیت۔ فوٹو: فائل

 متحدہ قومی موومنٹ بنانے کے لیے اسلم بیگ نے پیسے دیئے، مہاجرقومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے خصوصی بات چیت۔ فوٹو: فائل

آفاق احمد کا شمار ’’ایم کیو ایم‘‘ کے بانی ارکان میں کیا جاتا ہے۔ انہوں مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کے فیصلے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک نیا دھڑا مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے نام سے قائم کر لیا تھا۔ 2004میں قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث قرار دے کر انہیں آٹھ سال کے لیے پابند سلاسل کردیا گیا۔

سترہ دسمبر 2011 کو سندھ ہائی کورٹ نے عدم شواہد کی بنا پر انہیں بری کردیا تھا۔ رہائی کے بعد انہوں نے مہاجر قومی موومنٹ کو دوبارہ فعال کرنا شروع کردیا۔ حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ کے شکست کے اسباب اور اُردو بولنے والوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ان سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے انہوں نے بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔ یہ انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس: آپ نے کئی بار کہا ہے کہ مہاجروں کو متحد ہونا چاہیے اور اس کے لیے آپ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ کیا اس ضمن میں کبھی ایم کیو ایم لندن، پاکستان یا پی ایس پی کی جانب سے کوئی پیش رفت کی گئی؟

آفاق احمد: میں نے مہاجروں کے متحد ہونے کی بات ایک خاص تناظر میں کہی تھی۔ ہمارے ہاں ایک پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ جی آفاق احمد کی عامر خان سے ملاقات ہوئی، یا مہاجر قومی موومنٹ متحدہ قومی موومنٹ میں ضم ہورہی ہے۔ میں ہمیشہ یہ بات کہتا ہوں کہ مہاجروں کے مشترکہ مفاد کے لیے ہم سب کو مشترکہ کوششیں، مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے، لیکن جہاں تک مہاجر قومی موومنٹ کے کسی دوسری پارٹی میں الحاق یا ضم ہونے کی بات ہے تو میرا یا میری جماعت کا کبھی کسی جماعت کے ساتھ الحاق کا پروگرام تھا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی ہوگا۔

ایکسپریس: مائنس الطاف کے بعد آپ کے ایم کیو ایم پاکستان میں جانے اور متحدہ کے راہ نماؤں سے روابط کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں، ایک تواتر سے اس طرح کی خبروں سے کس کو فایدہ پہنچ رہا ہے؟

آفاق احمد: یہ پروپیگنڈاہمیشہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے کیا جاتا ہے، میری طرف سے کبھی ایسی کوئی بے ہودہ کوشش نہیں کی گئی۔ ضمنی انتخابات کے موقع پر مہاجر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پُر زور طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ یہ ایم کیو ایم بہادر آباد والوں کا حلقہ تھا، وہ اپنی تمام تنظیمی صلاحیتیں، تمام تر وسائل، تمام کارکنان کو ایک جگہ پر لگانے کے باوجود ایک سیٹ نہیں بچا سکے۔ ظاہر ہے لوگوں میں مایوسی بہت ہے، عوام ان سے نالاں ہیں، ایسے وقت میں یہ پروپیگنڈا کرنا کہ جی ہماری آفاق احمد سے ملاقات ہوئی ہے، آفاق احمد اپنے دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں آرہے ہیں، ان سب کا مقصد لوگوں کی امید باندھنا تھا۔ لیکن اپنے سیاسی مفاد کے لیے کسی کے نام سے جھوٹی خبر چلا دینا اچھی بات نہیں ہے، تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبریں یہاں تک کہ لفظوں کا چناؤ تک ایک جیسا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ اسٹوری باقاعدہ پلانٹ کی گئی۔

ایکسپریس: عالمگیر خان کے جیتنے پر آپ نے کہا کہ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ شہر ہمارا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں مہاجروں کی اکثریت نہیں رہی ہے؟ کیا ساڑھے چار لاکھ ووٹروں کے حلقے سے 35 ہزار ووٹ نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں؟

آٖفاق احمد: دیکھیے کچھ غلطیاں الطاف حسین کی طرف سے ہوئیں اور وہ ایسی غلطیاں ہیں جنہیں در گزر نہیں کیا جاسکتا، وہ غصے میں تھے، اعصابی تناؤ کا شکار تھے یا کچھ بھی تھا لیکن انہیں پاکستان کے خلاف زہرافشانی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ناراضگی اداروں سے، حکومتوں سے، سیاست دانوں سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے لوگوں سے احتجاج کرسکتے ہیں لیکن ملک کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہیے، اور اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی ان کا نمائندہ اقوام متحدہ میں جاکر دو بار پاکستان کے خلاف زہر اگل چکا ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ان سارے خیالات کو دیکھ کر یہ نتائج بنائے گئے ہیں، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ یہ شہر مہاجروں کا نہیں ہے۔ نتائج ان کے حق میں بنائے گئے ہیں جو لوگ یہاں بہت تھوڑے سے ووٹ کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم اگر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے یہ بات کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ جی مخالفت کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں، لیکن جب جیتنے والا خود یہ کہے کہ ہم تو صرف کیماڑی کی سیٹ پکی سمجھ کر اسے لینے کے لیے لڑ رہے تھے، کیوں کہ ہمارے خیال میں اس کے علاوہ کسی اور سیٹ پر جیت کا تصور ہی نہیں تھا، تو ایسا نہیں کہ تبدیلی کی خواہش پر عوام نے ووٹ ڈال دیا ہے، یہ جو کچھ بھی ہے وہ انجنیئرڈ ہے۔

25 جولائی کو اسی حلقے سے عمران خان نے ایک لاکھ کے قریب ووٹ لیے تھے، اگر عمران خان کو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے تو عالمگیر خان کو بھی اتنے ہی ووٹ ملنے چاہیے تھے، لیکن نہیں ملے تو پھر وہ ووٹ کہاں ہیں؟ دوسری بات یہ کہ کوئی امیدوار اگر دس ہزار ووٹ لے کر بھی جیتے تو کہلائے گا منتخب نمائندہ ہی، اور اگر قومی اسمبلی میں کراچی کی نمائندگی محسود، چیمہ یا ڈوگر کر رہا ہوِ تو یہ میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ اسی لیے متحدہ قومی موومنٹ بنائی نہیں بنوائی گئی تھی، اسلم بیگ نے اس کام کے لیے باقاعدہ اصرار کیا تھا، پیسے دیے تھے۔ مہران بینک اسکینڈل جھوٹا اسکینڈل نہیں ہے، اس کے بعد الطاف حسین نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے اگر متحدہ قومی موومنٹ بنا بھی دی تو کیاوہ پنجاب سے ایک کونسلر کی بھی سیٹ جیتنے میں کام یاب ہوئے؟ وہاں کے لوگوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا، آپ محسود قبائل کے علاقے میں چلے جائیں وہاں مقامی شخص کے بغیر آپ گلی میں چہل قدمی تک کے لیے نہیں نکل سکتے اور وہ آپ کے شہر سے آپ کے نمائندے بن کر اسمبلی میں جا رہے ہیں، تو یہ ہمارے لیے تکلیف دہ بات تو ہے۔

ایکسپریس: آپ کے اختلافات الطاف حسین سے تھے، اب وہ ایم کیو ایم کا حصہ نہیں، تو آج کی ایم کیو ایم سے الگ رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اگر الطاف حسین واپس آکر مہاجروں کے نام پر سیاست کرنا چاہیں تو کیا آپ اُردو بولنے والوں کے مفاد میں ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے؟ فقط جلاوطنی کے سبب اختلاف ہونا کچھ سمجھ میں نہیں آتا، اس کی وضاحت فرمائیں؟

آفاق احمد: میرا الطاف حسین سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں تھا، میرا ان سے اختلاف پالیسیوں پر تھا، اور اسی وجہ سے میں الگ ہوا۔ الطاف حسین کے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ رہنے یا الگ ہونے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے مہاجر قومی موومنٹ کے ساتھ حقیقی کا لفظ صرف اس وقت تک استعمال کیا جب تک مہاجر قومی موومنٹ دو تھیں ایک الطاف حسین چلا رہے تھے دوسری ہم۔ الطاف حسین اصولی طور پر ایم کیو ایم کو قومی دھارے کی جماعت بنانے فیصلہ کر چکے تھے، اسی بات پر مجھے اختلاف تھا۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے اس فیصلے کو کچھ عرصے کے لیے موخر کردیا۔ میرا الطاف حسین سے اختلاف صرف یہ تھا کہ وہ مہاجروں کی سیاست یا مہاجروں کے نظریے سے لاتعلق ہوکر قومی دھارے کی سیاست کرنا چاہتے تھے اس پر میرا اختلاف یہ تھا کہ جب تک مہاجر عوام کے مسئلے حل نہیں ہوتے تو اس وقت تک قومی دھارے کی سیاست نہ کی جائے، آپ نے اپنا قد مہاجر عوام کی حمایت سے بنایا ہے پہلے ان کے مسائل حل کیے جائیں۔

میں اختلاف کرکے الگ ہوچکا تھا تو میں نے مہاجر قومی موومنٹ کے فرق کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ ’حقیقی‘ استعمال کیا، الگ ہونے کے بعد جب انہیں لگا کہ وہ کچھ چیزوں کو سنبھالنے میں کام یاب ہوگئے ہیں تو انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے قیام کا اعلان کردیا، جس کے بعد میں نے حقیقی کا لفظ ختم کردیا۔ بنیادی طور پر متحدہ قومی موومنٹ، مہاجر قومی موومنٹ کے بطن سے پیدا ہونے والی جماعت ہے، اب دو اختلافات ہو گئے ہیں، انہیں پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگانا  چاہیے تھا، ایک مہاجر لفظ سے انحراف کرنا دوسرا پاکستان کے خلاف نعرہ لگانا، اگر وہ اپنے اس اقدام کی وہ قوم سے معافی مانگتے ہیں، پاکستان کے ادارے، اسٹیبلشمنٹ، عدالتیں انہیں معاف کردیتی ہیں، اور وہ پاکستانی پاسپورٹ پر وطن واپس آکر مہاجروں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو یہ پارٹی ان ہی کی تھی، وہ آئیں اور اپنی پارٹی سنبھال لیں، ہم تو خود کو سیاسی سمجھتے ہی نہیں، ہم تو تحریکی لوگ ہیں، ہمارے یہاں تو لیڈر شپ کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، وہ آئیں اور آکر قیادت سنبھال لیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، پہلے بھی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے، بعد میں بھی کر لیں گے یا اگر کوئی مہاجر قومی موومنٹ کی نظریاتی سیاست دوبارہ کرنا چاہتا ہے تو یہ پارٹی ان کی ہے، یہ سب بنیادی طور پر مہاجر قومی موومنٹ کے ہی کارکن تھے، چاہے وہ بہادر آباد ہو، لندن ہو یا پی ایس پی، اگر متحدہ کے قائد وطن واپس آکر اپنی پارٹی سنبھالنا چاہتے ہیں تو سنبھالیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ایکسپریس: جون 2003میں ایک موقر انگریزی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں آپ نے اس وقت کے صدر اور سابق آرمی چیف پرویزمشرف پر الزام عاید کیا کہ انہوں نے لیگل فریم ورک (ایل ایف او) پر متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے الطاف حسین سے ساز باز کی اور الطاف حسین کے مطالبے پر آپ کے خلاف کارروائی کی، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ آپ کا کہنا ہے کہ 2003 میں ایم کیو ایم حقیقی کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومتی ایجنسیوں نے آپ سے کئی بار رابطہ کیا گیا۔ آپ کو تیرہ افراد کے ناموں پر مشتمل فہرست پیش کی گئی۔ جلاوطنی کے عوض محفوظ راستہ اور لاکھوں روپے دینے کی پیش کش کی گئی جسے آپ اور عامرخان نے مسترد کردیا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے خلاف تمام تر کارروائی فوج کے ایما پر کی گئی؟

آفاق احمد: دیکھیں آپریشن کے فیصلے تو حکومتیں کرتی ہیں ادارے ان کے تابع ہوتے ہیں، اور انہیں جو حکم ملا انہوں اس کے مطابق کام کیا۔ اس وقت متحدہ کے سربراہ حکومت کی ضرورت تھے اور پرویزمشرف حکومت تھا، آپ انہیں فوج کا سربراہ بھی کہہ سکتے ہیں، اسے اپنی حکومت چلانے کے لیے الطاف حسین اور اس کے ووٹوں کی ضرورت تھی، اس حمایت کے بدلے الطاف حسین نے ان کے سامنے شرائط رکھیں جن میں مہاجر قومی موومنٹ کا خاتمہ، بیت الحمزہ کی ڈیمولیشن کرنا اور انہیں ملک بدر کرنا یا جیلوں میں سڑانا تھا، ملک بدری سے ہم نے منع کردیا جس پر ہمیں جیل میں ڈال دیا گیا جہاں میں ساڑھے آٹھ سال قید رہا۔ وہ حکومت الطاف کے سامنے بلیک میل ہوئی اور حکومت نے ان کے ہر مطالبے کو پورا کیا۔ اور انہوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو ہمارے خلاف آپریشن کا حکم دیا۔

ایکسپریس: اگر کبھی الطاف حسین کو سیاست کی اجازت مل جاتی ہے، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ مہاجر قوم انہیں دوبارہ قبول کر لے گی؟

آفاق احمد: میں سیاسی کارکن ہوں، ہم عوام میں رہتے ہوئے ان کے جذبات کو جذبات کو نوٹ کرتے ہیں ، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ الطاف بہت بُرا ہے، لیکن بعض اوقات یہ ہوتا ہے جو اس سے زیادہ برے ہوتے ہیں اس پر وہ لوگوں کو اچھا لگنے لگتا ہے، یہ ایک عام آدمی کے سوچنے کا انداز ہے۔ کچھ عرصے قبل سہیل انور سیال نے مہاجر قوم کے لیے مغلظات بکیں، اس کے مغلظات بکنے سے لوگوں میں یہ احساس بیدار ہوا کہ اگر الطاف حسین سیاست کر رہا ہوتا تو انور سیال کو کبھی یہ سب کہنے کی جرأت نہ ہوتی۔ موجودہ قیادت اس طرح کا شدید ردعمل نہیں دکھاسکی، جس طرح کا سخت ردعمل اس طرح کے معاملات پر الطاف حسین دیتا تھا۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم کا قیام لسانیت کی بنیاد پر عمل میں آیا، بعد میں اسے متحدہ قومی موومنٹ کردیا گیا، آپ کی جماعت لسانی بنیاد پر ہی سیاست کرنے کے باوجود اُردو بولنے والے طبقے میں مقبولیت کیوں حاصل نہیں کرسکی؟

آفاق احمد: میں ساڑھے آٹھ سال جیل میں رہا، تو میری غیرموجودگی میں تنظیمی کام کیسے ہوتے؟2002  میں ہم نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کیں اور اگر ہمیں کام کرنے دیا جاتا تو ہم آگے چل کر مزید علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں کرتے، اس سے پہلے ہمیں الطاف حسین نے کبھی ہمیں سیاسی خطرہ سمجھا ہی نہیں تھا۔ لیکن قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کے بعد سے الطاف نے ہمیں سیاسی خطرہ سمجھنا شروع کردیا۔ اس نے پرویزمشرف سے ہماری ملک بدری، بیت الحمزہ کو ڈھانے، ہمارے دفاتر کو سیل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ اس وقت جب کراچی میں الطاف کا طوطی بولتا تھا اس وقت بھی ہم بہت کم مارجن سے ہارے تھے۔ آٹھ سال جیل بعد جیل سے رہا ہونے کے اگلے چار سال تک مجھے ایک مخصوص علاقے تک محدود رکھا گیا، اس کے باوجود ہم نے کراچی اور حیدرآباد میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور ویسے بھی ہم پہلے مرحلے میں الطاف کے مینڈیٹ کو چیلنیج نہیں کرسکتے تھے، لیکن ہمارے کارکنان اور ووٹ بینک میں اضافہ ہوا۔ اسی بنیاد پر ہمارے خلاف آپریشن کیا گیا۔

ایکسپریس: دو دن پہلے کی گئی ایک پریس کانفرنس میں آپ نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کو چار سیٹیں بھی الطاف حسین کا اثر زائل کرنے کے لیے دی گئیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر الطاف حسین پارٹی سربراہ ہوتے تو ایم کیو ایم مزید سیٹیں لینے میں کام یاب ہوجاتی؟

آفاق احمد: الطاف حسین کے بارے میں پھر کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے فاش غلطی کی، انہیں ملک کے خلاف نہیں جانا چاہیے تھا، لیکن اس کے باوجود عوام کو اب تک اس بات پر قائل نہیں کیا جاسکا کہ الطاف غلط ہے، اس لیے کہ بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو عوام کے سامنے ہیں، عوام دیکھ رہے ہیں، اچکزئی صاحب نے اسمبلی میں پاکستان کے خلاف زہرافشانی کی، ان کے خلاف کارروائی میں اور الطاف کے خلاف کارروائی میں فرق نظر آرہا تھا، جس کی وجہ سے الطاف کو کہیں نہ کہیں سے عوام کی ہمدردی ملی ہے۔ اسفندیار ولی نے پاکستان کے خلاف بات کی، عمران خان جو خود وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں انہوں نے خود پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی، کس نے عمران خان کے خلاف کارروائی کی؟ عوام اس طرح کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔ لوگوں کو آپ کا جانب دارانہ، امتیازی سلوک دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ الطاف کی فاش غلطی کے باوجود آپ لوگوں کو الطاف سے دور کرنے میں ناکام رہے ہیں، میں یہ نہیں کہ کہہ رہا کہ الطاف کو سپورٹ ملنی چاہیے، اخلاقاً ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے، لیکن اس امتیازی سلوک سے عام آدمی کو اچھا پیغام نہیں مل رہا، الطاف کے خلاف جو ردعمل آیا وہی رد عمل اچکزئی، اسفند یار ولی اور عمران خان کے بیان پر بھی انا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا، تو یہ جانب دارانہ رویہ یا امتیازی سلوک بعض غلطیوں پر بھی مٹی ڈال دیتا ہے۔

ایکسپریس: متحدہ قومی موومنٹ پر ’را‘ اور دیگر غیرملکی ایجنسیوں کے ساتھ روابط کے الزامات لگائے جاتے ہیں، کیا مشترکہ جدوجہد کے دور میں اس طرح کے روابط کا آپ کو علم تھا؟

آفاق احمد: یہ میرے علم میں نہیں تھی اور اگر میرے علم میں ہوتی تو میں ان میں سے نہیں جو اس پر پردہ ڈالتا۔ جب میں الطاف کے سامنے کُھل کر اختلاف کرسکتا تھا تو اس بات پر بھی اختلاف کرسکتا تھا، مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ آج وہ لوگ حکومتی چھتری تلے بیٹھے ہیں جو وہ لوگ تھے جو الطاف کے ساتھ یا الطاف کے کہنے پر تمام سفارت کاروں سے معاملات طے کرتے رہے، انڈیا کا دورہ ارینج کیا گیا، اور انڈیا میں جو مغلظات بکی گئیں اور ٹی وی پر بیٹھ کر ان کی وکالت کی گئی، اس وقت جن لوگوں نے وکالت کی آج انہی لوگوں سے بجائے یہ پوچھنے کے کہ بھائی تم لوگ ان تمام معاملات میں شریک رہے ہو اس کا جواب دو۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ آپ کو مصطفی کمال اور انیس ایڈووکیٹ کی جانب سے کوئی نئی سیاسی جماعت بنانے کی سُن گُن مل گئی تھی، اور آپ نے انیس ایڈووکیٹ کو فون کر کے اس کی تصدیق کرنی چاہیے لیکن انہوں نے اس کی تردید کردی اور کچھ دن بعد وہ کراچی میں تھے۔ اس سارے واقعے کا پس منظر کیا ہے؟

آفاق احمد: ہاں میری انیس ایڈووکیٹ سے اس موضوع پر بات ہوئی تھی، ا س کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ میں لندن میں ایک نجی ٹی وی کے نمائندے کے ساتھ موجود تھا تو اس کے موبائل پر انیس ایڈووکیٹ کا فون آیا۔ مرتضی شاہ نے مجھے فون تھماتے ہوئے کہ آفاق بھائی آپ کے پرانے دوست کا فون ہے۔ دوسری جانب انیس ایڈووکیٹ تھے، اس وقت میں نے ان کو سمجھایا تھا کہ ایسی کوئی بے وقوفی مت کرنا، کیوں کہ میرے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ تم ایک الگ جماعت بنانے والے ہو، جس پر انہوں نے متحدہ کے قائد کی برائیاں کرتے ہوئے کہا کہ آفاق بھائی جو آپ کہتے تھے وہ آج ہمیں سمجھ آرہا ہے کہ وہ سب ٹھیک تھا۔ میں نے کہا کہ یہ سب بے کار کی باتیں ہیں اور جو کچھ تم کرنے والے ہو یہ بے وقوفی مت کرنا، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔

ایکسپریس: کیا انیس ایڈووکیٹ متحدہ قومی موومنٹ میں ہوتے ہوئے بھی آپ سے رابطے میں تھے؟

آفاق احمد: ہاں انیس ایڈووکیٹ اور انیس قائم خانی سے رابطے رہتے تھے، کیوں کہ یہ لوگ اندرون سندھ اور حیدرآباد کے معاملات دیکھتے تھے۔

ایکسپریس: 1994میں آپ نے کچھ مشترکہ دوستوں کے کہنے پر الطاف حسین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن اس معاملے میں مزید پیش رفت کیوں نہ ہوسکی؟

آفاق احمد: میں نے کبھی الطاف حسین کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس کا مقصد تو اس کے غلط اقدام کی حمایت کرنا ہوتا۔ ہاں یہ پیغام ضرور پہنچایا کہ یہ جو تم مارا ماری کررہے ہو یہ مت کرو، اگر مجھے غلط سمجھتے ہو تو مجھے اپنا کام کرنے دو تم اپنا کام کرو، تقریر اور دلائل کا راستہ اختیار کرو، یہ گولی کے ذریعے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور قتل کرنے کا سلسلہ بند کرو۔ یہ بات اس تک پہنچانے کے لیے میں نے مشترکہ دوستوں کو بیچ میں ڈالا تھا کہ بھئی آپ ایک دوسرے کو ماریے مت، میں نے ان کے موقف کی حمایت کرنے یا دوستی کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔

ایکسپریس: سندھ کی موجودہ سیاسی قیادت خصوصاً وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ الگ صوبے کے سخت مخالف ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور قوم پرست جماعتوں کو یہ طرزعمل اُردو بولنے والوں میں احساس محرومی کا سبب بن رہا ہے؟

آفاق احمد: دیکھیے صرف بیانات ہی نہیں ان کے عملی اقدامات سے بھی مہاجروں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ انہیں ہر طرح سے کچلنے کی سازشیں کی جارہی ہے، روزگار سے دور رکھا جا رہا ہے۔ ملازمتوں کے قوانین کے مطابق گریڈ ایک سے چودہ گریڈ تک میں اسی ڈسٹرکٹ کے بندے کا تقرر کیا جانا چاہیے، لیکن آپ ایک اور پانچ گریڈ کے لوگوں کو بھی لاڑکانہ اور دادو سے ڈیپوٹیشن پر کراچی بھیج دیتے ہیں۔ جب ان تقرریوں کی ضرورت کراچی میں ہے تو پھر کراچی کے لوگوں کا ہی تقرر کیوں نہیں کیا جاتا؟ جہاں ضرورت نہیں ہے تو وہاں سے بھرتی کرکے آن ڈیپوٹیشن پر کراچی کیوں بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات اور معاملات ہیں جن کی وجہ سے مہاجر عوام میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اور انہیں صوبائی حکومت سے اپنے مسائل کے حل اور حقوق کے دفاع کی امید نہیں ہے۔

ایکسپریس: آپ جنوبی سندھ صوبے کے لیے پُرزور مہم چلا رہے ہیں، کیا آپ کے خیال میں مہاجروں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے الگ صوبے کا قیام ناگزیر ہے؟ دوسری طرف آپ سندھ کی کسی بھی طرح کی تقسیم کے خلاف شدید ردعمل دینے والے ذوالفقار مرزا کے اتحادی رہے؟

آفاق احمد: سندھ میں الگ صوبے کا قیام کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے ذوالفقار مرزا کے اتحادی ہونے کی تو میں کبھی بھی ان کا اتحادی نہیں رہا، اگر ان کا اتحادی ہوتا تو ان کے ہر اقدام کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ ہم سیاسی لوگ ہیں ہیں ہماری ذاتی دوستی الگ اور سیاسی نظریات الگ ہیں ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی میں ہونے کے باوجود مجھ سے ملنے کے لیے جیل آتے تھے، انہیں بھی الطاف حسین کی پالیسی سے اختلاف تھا اور مجھے بھی۔ میں ابتدا سے مہاجروں کے لیے الگ صوبے کے قیام کا حامی رہا ہوں۔ شہری علاقوں کی اپنی الگ حیثیت ہے، اور جس طرح مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم اور اندرون سندھ کی آبادی کو زیادہ دکھایا گیا، قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں میں جو فرق آیا اس کے حساب سے ہمیں نہیں لگتا کہ عددی اعتبار سے کم زور ہونے کے باوجود ہم اس صوبے میں اپنے حقوق کا دفاع کرسکتے ہیں، لہٰذا الگ صوبے کے قیام کی طرف قدم بڑھانا ہماری مجبور ی ہے۔

میں نے یونس حبیب سے پچاس لاکھ روپے لیے تھے، آفاق احمد

آٖفاق احمد: مہران بینک اسکینڈل میں الطاف حسین کے پیسے لینے کے معاملے پر گواہی دینے کی بات میں نے کبھی نہیں کی۔ دوسروں کے جرائم اپنی جگہ ہیں، لیکن میں کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنتا، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ الطاف حسین نے پیسے لیے تھے، لیکن میں ان کے معاملے پر گواہی دینے کے لیے تھوڑی بیٹھا ہوں۔ اب الطاف حسین نے کتنے پیسے لیے تھے یہ آپ الطاف حسین سے پوچھیں، اسلم بیگ سے پوچھیں، یونس حبیب سے پوچھیں۔ ہاں میں نے یونس حبیب سے کھلے عام پچاس لاکھ روپے لیے تھے۔ یہ پیسے میں نے کسی ایجنسی سے نہیں ایک تاجر سے الیکشن فنڈ کی مد میں لیے تھے، میں نے یونس حبیب سے کہا کہ جب تم ایک ملک دشمن کو پیسے دے سکتے ہو تو ہمیں تو الیکشن کے لیے پیسے چاہییں۔ میرا یونس حبیب سے تعلق اس زمانے سے تھا جب وہ حبیب بینک میں ریجنل مینیجر تھا اور میں لیبر ڈویژن کے معاملات دیکھتا تھا۔

’’مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور نے مہاجروں کی زیادہ بہتر خدمت کی‘‘

میں نے 1991میں اس وقت الطاف حسین سے اختلاف کیا تھا جب اس کا طوطی بولتا تھا، اس وقت کوئی الطاف حسین کے خلاف ایک لفظ کہنے کا خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ سب کو ڈر تھا کہ وہ انہیں مار دے گا، اس کے باوجود ہم نے الطاف حسین کے سامنے بیٹھ کر، اس سے اختلاف کیا تھا یہی وجہ ہے میں فخریہ کہتا ہوں کہ ہم پر کوئی غداری کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ہاں! ہم باغی تھے، ہم نے بغاوت کی کہ جی ہم تمہاری اس پالیسی کو نہیں مانتے، مہاجر عوام کے مسئلے حل کیے بنا تم قومی دھارے کی سیاست کرنے جا رہے ہوں تو تمہیں کیسے سپورٹ کردیں، ہم نے الطاف کے ان اقدامات پر اس وقت کہا کہ یہ فیصلہ پوری تحریک کو تباہ کردے گا، کیوں کہ ہم تحریک کے ساتھ وفا نہیں کر رہے، اگر ہم مہاجر لفظ سے انحراف کرتے ہیں تو یہ اپنے لوگوں کے خون کے ساتھ بے وفائی ہے، میرا موقف یہ تھا کہ اگر قومی دھارے کی سیاست کرکے مہاجر عوام کے مسئلے حل کرنے ہیں تو یہی کام مولانا شاہ احمد نورانی بھی تو کرتے تھے ، پروفیسر غفور کا بھی تو یہی موقف تھا، پھر ان میں کیا خرابی تھی؟ ہم ان کے موقف کی سپورٹ کرنے کے بجائے شکوہ یہ کرتے تھے کہ یہ پنجاب کو ناراض نہیں کرسکتے اس لیے یہ مہاجر قوم کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالاںکہ کے مہاجر قوم کے لیے سب سے زیادہ ٹھوس کام تو ان لوگوں نے کیے، لسانی معاہدہ انہوں نے ہی کیا تھا جس کی وجہ سے آج بھی گورنر اردو بولنے والا ہوتا ہے۔ آ پ کو جو کوٹا ملتا ہے، لسانی بنیاد پر آپ کی جو شناخت ہے، یا بھٹو نے آئین میں سندھ کو دو لسانی صوبہ تسلیم کیا تو ظاہر ہے کہ یہ کوششیں ان کی ہی تھیں۔

تو ان میں کیا برائی تھی، میں نے کہا کہ ہم اس وقت مولانا نورانی کو مسترد کرکے مہاجر سیاست کو فروغ دے رہے تھے، لوگ مہاجر نام پر آپ کو ووٹ دے رہے تھے اور اب آپ قومی دھارے کی سیاست کرنے جا رہے ہیں تو آپ مولانا شاہ احمد نورانی یا پروفیسر غفور سے بہتر تو نہیں ہیں، ہاں آپ صر ف مہاجر نام پر سیاست کرنے کی صورت میں ہم سب کے لیے بہتر تھے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ اس تحریک کو برباد کر رہے ہیں، بعد میں آپ نے ایجنسیوں کے کہنے پر ان کے دباؤ میں آکر متحدہ قومی موومنٹ بنالی، ہم پر جھوٹے الزامات لگانا اور ہمارے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔