- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
ہندو عورتیں کورٹ کے حکم کے بعد بھی بھگوان کے درشن سے محروم
1991میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاکیزگی برقرار نہ رکھنے کے جرم کا سزاوار عورتوں کو قرار دیتے ہوئے کیرالہ کے تاریخی سبریمالہ مندر میں ان کے داخلے پر پابند عائد کی تھی جس کا کئی سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ہندو عورتوں کو بھگوان کے آگے ماتھا ٹیکنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن برا ہو ہندوتوا انتہا پسندی کا جس کا زور اتنا شدید ہے کہ ہم مذہب بھی زد میں آئے بنا نہیں رہتے۔
اس انتہاپسند رویے نے پہلے تو کیرالہ میں آنے والے بدترین سیلاب کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھگوان کا عتاب قرار دیا اور اب سبریمالہ مندر کے سامنے بھگوان کو ہندو عورتوں کے ’’نحس وجود‘‘سے محفوظ رکھنے کے لیے ہزاروں انتہاپسند ہندو پُرتشدد مظاہرے کر رہے ہیں۔
مندر میں داخلے کی غرض سے آنے والی عورتوں کا زبردستی راستہ روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ پہلے سبریمالہ مندر میں ماہواری آنے والی عمر کی خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ تھی لیکن ہندو انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف ماہواری نہیں بلکہ یہاں رکھی ’’بھگوان ایاپا‘‘ کی مورتی ہے اور یہ وہ بھگوان ہے جس نے کنوارے رہنے کا عہد باندھا تھا اور ساری زندگی مجرد گزاری۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھگوان اپایا دو مرد دیوتائوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جنہوں نے اسے شیطانی قوتوں سے مقابلے کی شکتی دی تھی اور وہ شیطان ایک عورت ہی تھی۔
مذہبی تاریخ کوئی بھی داستان سناتی ہو یہ سچ ہے کہ ہندو دھرم میں عورتوں کو پوجا پاٹ سے دور رکھنے کا سلسلہ اب بہت دراز ہو چکا۔ لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ خود ہندو عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس تنازعے میں انتہاپسند رویوں کی کمر ٹھونکنے کو شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ یہ عورتیں مندر تک جانے والی ہر گاڑی کو روک کر یہ تصدیق کر رہی ہیں کہ اس میں دس سے پچاس سال کی درمیانی عمر کی کوئی عورت تو نہیں۔
سبریمالہ مندر اس وقت بھارت کا ایک بہت بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے لیکن مشتعل مظاہرین پیچھے پٹنے کو تیار نہیں۔ صدیوں سے چلی آنے والی روایت کو سینے سے لگائے اس بھارت میں کب ایک بڑے فساد کے شعلے بلند ہو جائیں کوئی نہیں جانتا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔