کسان دوست حکومت

عبدالقادر حسن  ہفتہ 27 اکتوبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں بنیادی طور پر ایک کاشتکار ہوں مگر نہ ہونے کے برابر بلکہ برائے نام کہ ان زمینوں سے جن سے میں اپنا تعلق بنائے رکھنا چاہتا ہوں وہ لاہور سے کوئی تین سو کلو میٹر دور ہیں مگر میرے قارئین کو یہ شبہ رہتا ہے کہ میں قلمکار سے زیادہ کاشتکار ہوں اور وہ بڑی امید سے مجھے اپنے دکھڑے سناتے رہتے ہیں ۔ میں نے جب بھی کوئی تحریر زراعت وغیرہ کے بارے میں لکھی مجھے لاتعداد محبت نامے موصول ہوتے ہیں۔

بنیادی وجہ یہی ہے کہ مجھے جب بھی زراعت کے بارے میں کسی اچھی یا بری خبر کا علم ہوتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس کے بارے میں اپنی رائے ضروردوں ۔ کئی دہائیوں سے لاہور کا مقیمی ہونے کے باوجود میرے اندر کا کاشتکار ایسی کسی خبر سے جاگ اٹھتا ہے جس میں کاشتکاروں کی سہولت کی بات کی گئی ہو۔ ایک مدت ہوئی میں نے اپنی زمینوں پر قدم بھی نہیں رکھا حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ زمین اپنے مالک کے لیے دعا کرتی ہے ۔ بہر حال اپنی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے میں یہ دعائیں لینے سے قاصر ہوں ۔

ایک مدت کے بعد ایسی حکومت آئی ہے جس نے کاشتکاروں کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی ہے یعنی زرعی صارفین کے لیے بجلی کے بل میں پچاس فیصد کی رعائت کر دی گئی ہے، اس رعایتی قیمت کے بعد ہمارے ملک کا خاص طور پر چھوٹا کسان جو کہ زرعی مصنوعات کی مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہا تھا اس کو اخراجات کی مد میں کچھ سہولت ملے گی اور اس کی پیداواری لاگت میں کمی ہو گی جس کا کاشتکار کو فائدہ بھی ہوگا اور اگر حکومت کی جانب سے زراعت کے شعبے کی سر پرستی جاری رہی تو زرعی اجناس کی قیمتیں بھی مناسب رہیں گی۔

آج کل کے حالات میں اگر کوئی طبقہ پس رہا ہے تو یہ وہ کاشتکار ہی ہیں جو اپنا سب کچھ مٹی کے سپرد کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے امید لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے فصل اچھی ہوگئی تو سال اچھا گزر جائے گا اور اگر موسمی حالات اور ناموافق منڈیوں کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں پیداواری لاگت سے بھی کم ملیں تو پھر بھی میرے ملک کا کسان صبر شکر کر کے اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرتا ہے اور آیندہ فصل کے لیے ایک نئی امنگ کے ساتھ دوبارہ سے فصل کی کاشت شروع کر دیتا ہے ۔

ہمارے بدقسمتی یہ رہی کہ ایک بہت بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں آج تک کسان دوست حکومت میسر نہ آ سکی جو حکمران بھی آیا اس نے کاشتکار کو چھوڑ کر صنعتکارکو ترجیح دی اور آج حال یہ ہے کہ صنعتکار تو خام مال کی مہنگائی اوربجلی وغیرہ کی کمیابی کا رونا رو کر یا تو اپنی صنعتیں بند کر چکے ہیں یا پھر اپنے کاروبار کو دوسرے ممالک میں منتقل کر چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے جب کہ کسان کے پاس اس طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں اس نے اپنے ملک کی مٹی سے اپنی روزی حاصل کرنی ہے اور اسی مٹی کے ساتھ مٹی ہو جانا ہے اس کو اگر سونا ملنا ہے تو وہ بھی اپنے ملک کی مٹی سے ہی۔

ہماری حکومتیں آج تک کاشتکاروں کی سہولت کے لیے ایک اقدام کرتی دکھائی دیتی نظر آئی ہیں کہ ان کو مختلف فصلوں کے لیے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کوممکن بنایا جائے۔زرعی قرضوں کے دلکش پیکیج تیار کیے جاتے ہیں تا کہ معصوم چھوٹے کاشتکار بھی قرضوں کے چکر میں بینکوں کے چنگل میں پھنس جائیں ۔ کل کلاں انھی قرضوں کی واپسی کے لیے جان پر بن جاتی ہے اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ اپنے گاؤں کے کئی چھوٹے کاشتکاروں کو میں نے زرعی بینک کے عملے کے ہاتھوں بے عزت ہوتے دیکھا ہے اور پھر محکمہ مال کی مدد سے ان کی گرفتاری بھی دیکھی ہے۔

اس لیے کسی بھی حکومت کو اس طرح کے کسان دشمن فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے اگر کسانوں کی مدد ہی مقصود ہے تو ان کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں اتنی کم کر دی جائیں کہ ان کو حکومت کے قرضوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

کسان کا تمامتر دارومدار اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر ہے اور وہ توکل کی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے کیونکہ اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ آج وہ جو بیج رہا ہے کل ان بیجوں میں کیا نکلے گا اور اگر اچھی فصل تیار ہو گئی تو منڈی میں اس کی کیا قیمت ملے گی لہذا وہ اللہ توکل کرتے ہوئے اپنا سب کچھ مٹی کے سپرد کر کے اللہ کی رحمت کے انتظار میں فصل کی تیاری کے لیے محنت شروع کر دیتا ہے ۔

بارانی علاقے کے لوگوں کے توکل اور صبر کی برداشت کی انتہاء کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پہلے تو زمین کی تیاری کے لیے اللہ کی رحمت کا منتظر رہتا ہے کہ بارش ہو اور نرم زمین میں ہل چلا کر اسے فصل کے لیے تیار کر سکے اور بعد میں فصل کی کاشت کے بعد وہ دوبارہ سے اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے کہ بارش ہو اور اس کی فصل کو سیراب کرے کیونکہ بارانی زمینوں کے لیے بارش کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں جو فصلوں کو سیراب کرے اور جس سال بارشیں نہ ہوں تو بارانی زمیندار کی ساری محنت ضایع چلی جاتی ہے اور اس کا سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے ۔ صبر اور توکل کی انتہاء دیکھنی ہو تو کسی بارانی کاشتکار کے ساتھ گفتگو کر لیں ۔

بات حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی سے شروع ہوئی حکومت کا یہ کسان دوست اقدام اپنے ساتھ بہت دوررس نتائج لائے گا مگر اس کے ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ حکومت کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرے جس سے کسانوں کو ڈیزل کی فراہمی بھی رعائتی نرخوں پر کی جا سکے کیونکہ زمین کی تیاری سے لے کر اجناس کو منڈیوں تک پہنچانے کے لیے ڈیزل کا استعمال بہت زیادہ ہے، ڈیزل کی قیمتوں میں رعایت کا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچے گا کیونکہ جب پیداواری لاگت میں کمی ہو جائے گی تو کاشتکار کو جہاں اپنی فصل کا صحیح نرخ ملے گا وہیں عوام کو بھی سستے داموں اجناس کی فراہمی ممکن ہو سکے گی ۔اس کے ساتھ فصلوں کی تیاری کے لیے کھادوں اور دواؤں کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائی۔

اس کا آسان حل یہ ہے کہ حکومت ان زرعی معاون اشیا کی تیاری پر ٹیکسوں میں چھوٹ دے اور اس کے ساتھ فیکٹریوں کے مالکان کے ساتھ مل کر قیمتوں کا تعین بھی کرے تا کہ اگر حکومت کسان دوست اقدامات کر رہی ہے تو اس کا فائدہ صنعتکار نہ اٹھا سکیں بلکہ اس کا مکمل فائدہ کاشتکار کو ہی ملے ۔ حکومت کی جانب سے کسان دوست اقدامات کے نتائج کئی برسوں کے بعد نہیں بلکہ چند ماہ میں ہی سامنے آجائیں گے۔

یہ واحد پراجیکٹ ہے جس پر حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے تا کہ مارکیٹ میں عوام کی روز مرہ کی ضرورت زرعی پیداوار سے منسلک اشیا کی قیمتوں میں کمی لائے جا سکے اور جیسا کہ عرض کیا ہے کہ اس پراجیکٹ کے نتائج چند ماہ میں ہمارے سامنے آجائیں گے۔ حکومت کو کسان دوست پالیسیوں کا آغاز مبار ک ہو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔