مہاتیر اور منڈیلا کا پرتو
یہ 9اپریل 1985 کی بات ہے،اس دن پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی حلف برداری کی تقریب تھی،
یہ 9اپریل 1985 کی بات ہے،اس دن پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی حلف برداری کی تقریب تھی،میاں نواز شریف پہلی دفعہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔
یہ میاں صاحب کی سیاست کی ابتدا تھی،اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت تھی،انھوں نے نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ایفا تو نہ ہوسکا ،البتہ اپریل 1985ء کوملک میں غیرجماعتی انتخابات کرانے میں کامیاب ضرور ہوگئے اور اس کے نتیجے میں کابینہ معرضِ وجود میں آئی،اسی دوران صوبائی انتخابات میں میاں نواز شریف پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب کیے گئے،میاں صاحب صدر جنرل ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے تھے۔ میاں صاحب نے یہ کامیابی روایتی سیاستدانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف حاصل کی تھی جو سیاست کو اپنے باپ دادا کی میراث، اقتدارکو اپنا حق اور اختیار کواپنی رکھیل سمجھتے تھے،اس زمانے میں پنجاب کی 75فیصد آبادی دیہاتوں پر مشتمل تھی،اس لیے میاں صاحب کی کامیابی ان غریب،پس ماندہ اور جفاکش لوگوں کے لیے خوش آیند بات تھی۔
بہرحال،اس وقت بھی میاں صاحب کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کا اصل سرمایہ ان کی خاندانی شرافت ہے،میاں صاحب ایک تاجر پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ میاں صاحب نے پنجاب ِ کی وزارت اعلیٰ سمیت دیگر وزارتیں سنبھالیں،دودفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے،پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے قائد بھی ہیں، میاں صاحب کی کامیابی کی اصل وجہ میاں محمد شریف مرحوم ہیں،شریف صاحب ایک ایماندار،منجھے ہوئے اورمعروف بزنس ٹائیکون تھے،انھی کی وجہ سے جنرل ضیاء کی عقابی نگاہ ان پہ پڑی،یہیں سے خوش قسمتی کی دیوی ان پہ مہربان ہوئی اور آج تک میاں صاحب کے پاس کوئی چیز ہے تو وہ ہے پارٹی کی قیادت؛میاں صاحب پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد ہونے کی وجہ سے اپنی قائدانہ صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے آج یہاں ہیں ۔
آج میاں صاحب تیسری دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم بن چکے ہیں،آپ الیکشن کے بعد سے میاں صاحب کے اطوار کو ذرا دیکھ لیں،یہ آپ کو یکسر بدلے ہوئے نظر آئیں گے،ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ آج پہلے سے زیادہ بدلے ہوئے اور بہت زیادہ میچور ہوگئے ہیں،ان کو اپنی غلطیوں کا ادراک ،خامیوں کا علم اور کوتاہیوں کا احساس ہوگیا ہے،ان کی زبان میں پہلے کی طرح تند وترش جملوں کے بجائے عاجزی اور انکساری آچکی ہے،یہ پہلے کی طرح اپنے مخالف کے خلاف ویسا رویہ نہیں اپنائے ہوئے بلکہ اب تو سارے پاکستان کا درد ہی ان کے جگر میں سمٹا ہوا ہے،یہ ذاتی انتقام کو ملکی سالمیت پر قربان کرنے کو تیار ہیں، اپنی انا کوقومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں، آج ہم میاں صاحب کی لیڈر شپ اور پارٹی ورکنگ کو دیکھ کر یہ امید کرسکتے ہیں کہ اب کی بار میاں صاحب غلطیاں نہیں کریں گے ۔
جس طرح 1947میں مسلم لیگ کو ایک نومولود ملک کو سنبھالنے اور ایک بکھری ہوئی قوم کو یکجا کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کئی گوناگوںمشکلات کاسامنا تھا،اسی طرح آج کی حکمران پارٹی کو بھی اتنے سارے مسائل کا سامنا ہے،آج پورا پاکستان دہشت گردی کی آگ میں سلگ رہا ہے،قومی ادارے تباہ ہورہے ہیں،قوم پے درپے عجب مصائب کی شکار ہے،مسائل کا ایک جمِ غفیر ہے،میاں صاحب کو ان سارے مسائل سے نمٹنا ہوگا،سب سے پہلے پاکستان کو خارجی مداخلت اور داخلی انتشارسے بچانا میاں صاحب کی اولین ترجیح ہو گی،اس کے بعد انھیں پاکستانی قوم کو کمرتوڑ مہنگائی،لوڈشیڈنگ کے عفریت اور معاشی بدحالی سے نجات دلا کرقوم کا عمومی سوشل اسٹیٹس بدلنا ہوگا،ڈیپریشن کا شکارنوجوانوں کے اندر سے مایوسی ختم کرنی ہوگی،قومی اداروں کو خوشحال کرکے قوم کو IMFکے چنگل سے چھٹکارا دلانا ہوگا،تب کہیں جاکر میاں صاحب اس قوم کا دل جیت سکتے ہیں،اس ملک کی اکثریت نے 11مئی کو ان پہ اعتبارکرتے ہوئے انھیں اپنے سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہے،اب یہ ان کی ذمے داری ہے کہ ان توقعات پہ پورا اتریں،اگر میاں صاحب قومی امنگوں پہ پورے اترتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ترکی کے اردگان،ملائیشیا کے مہاتیر اور جنوبی افریقا کے منڈیلابن جائیں گے ورنہ اگر یہ ان کی امیدوں پہ نہیں اترے تو معاملات اس کے برعکس ہو سکتے ہیں ۔