کیا ہم اچھی جمہوریت نہیں دے سکتے؟

ڈاکٹر منصور نورانی  ہفتہ 18 اگست 2012
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

کیا ہم ایک اچھی اور بہتر جمہوریت نہیں دے سکتے؟ ضروری ہے کہ بد سے بد تر ہی جمہوریت قوم کودی جائے، محض اِس مفروضے کو درست اور صحیح ثابت کرنے کے لیے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوا کرتی ہے۔ ہم کب تک اِس غیر منطقی سوچ اور غیر دانش مندانہ اندازِ فکر کے اسیر بنے رہیں گے؟ دنیا اِس عرصے میں ترقی و خوشحالی کی منازل تیزی سے طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک جمہوریت کی کم عمری ہی سے باہر نہیں نکل پائے۔ جس ملک میں شرح خواندگی محض 40 فیصد سے بھی کم ہو وہاں جمہوریت کے وہ ثمرات اور لوازمات حاصل ہوہی نہیں سکتے جو کسی تعلیم یافتہ ترقی پذیر خواندہ ملک اور قوم کے ہاں پائے جاتے ہوں۔

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ بنا جمہوریت بھی بہت سی قوموں نے بے مثال ترقی و خوشحالی پائی ہے۔ ہم تو ابھی تک ذات برادری، جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے پیچ و خم ہی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون سا شخص آئین و دستور کی شقوں پر پورا اترتا ہے، کون سا شخص پارلیمنٹ میں ہماری نمایندگی کے لیے مکمل اہل، مخلص اور قابلِ اعتماد ہے اور کون سا شخص ہمارے ملک اور اِس کے مستقبل کے لیے مفید اور بہتر ہے۔ ہمیں تو صرف اپنے علاقے کے بااثر اور طاقتور افراد ہی کی خوشی اور خوشنودی عزیز ہے۔ ہم اس کے دائرہ اثر سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔

ہمارا تو یہ حال ہے کہ کبھی ہم ایک طرف اپنی اعلیٰ عدلیہ کو اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلا رہے ہوتے ہیں اور دوسری جانب اس شخص کو پہلے سے زیادہ ووٹ دے کر اسی عدلیہ کا مذاق بھی بنا رہے ہوتے ہیں جس نے اسے جعلی ڈگری حاصل کر نے کی پاداش میں اسمبلی کی رکنیت سے معزول کردیا تھا۔ ہم جمہوریت کے ترانے صبح و شام گاتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی طالع آزما طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ جمالیتا ہے تو ہم اس کا بھی اسی طرح والہانہ استقبال کر تے ہیں۔ ہماری سوچ اور فکر کا یہ تضاد ہمیں ابھی تک ایک کامیاب اور اچھی جمہوری حکومت سے محروم کیے ہوئے ہے۔

عوام الناس کی اِسی کم علمی اور ذہنی عدم پختگی کا فائدہ بھی صرف ان ہی لوگوں کو پہنچ رہا ہے جو جمہوریت کے نعرے کو محض ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انھیں قوم کے بہتر مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ اِس موقعے کو اپنے لیے ایک سنہری موقع جان کردونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے لگتے ہیں۔ جمہوریت کو بازیچہ اطفال بنا کر ہر طرح کی لوٹ مار کرتے ہیں اور جب ہماری عدلیہ ان کے اِس طرز عمل پر باز پرس کرتی ہے تو وہ خوب واویلا مچاکر اپنی مظلومیت کا رونا رونے لگتے ہیں۔ جمہوریت کو ایک بہترین انتقام قرار دے کر آمروں اور غاصبوں سے انتقام لینے کے بجائے اِس ملک و قوم سے انتقام لینے کی تگ و دو کر تے ہیں۔ وطنِ عزیز کو کنگال اور قلاش بنا کر غیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ قوم کی خود مختاری اور آزادی کو گروی رکھ کر وہ صرف اپنے اقتدار کی حفاظت اور طوالت کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔

ذرا غور کریں تو یہ احساس ہوگا کہ گزشتہ ساڑھے چار سال ہماری معاش اور اقتصاد کے لیے انتہائی بدترین گزرے ہیں۔ ہر ماہ ایک نیا بحران ہمارے سر پر مسلط کیا گیا۔ بجلی کے خودساختہ بحران نے ہمارے انڈسٹریل سیکٹر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی اور روز مرہ اشیا کی گرانی نے لوگوں کا جینا بھی دو بھر کر دیا ہے۔ لوگ فاقہ کشی کے بعد آپس کی لوٹ مار پر اتر آئے ہیں۔ چوری، ڈکیتی اور رہزنی روز کا معمول بن چکی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا بلاخوف وخطر جاری ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ ہر ادارہ اور محکمہ تنزلی اور بربادی کی مثال بنا ہوا ہے۔

ریلوے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ آج جب ساری دنیا میں تیز رفتار بلٹ ٹرین عام ہوتی جا رہی ہیں، ہمارے یہاں پرانے انجنوں پر مشتمل اِس نظام کے تحت صرف 500 کلومیٹر کا سفر 36 گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے۔ ذمے داران کو ذرہ برابر بھی احساسِ ندامت یا شرمندگی نہیں ہے۔ ریلوے کے وزیر اپنی ناقص حکمتِ عملی کا الزام دوسروں کے سر تھوپتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وزارت سے استعفیٰ بھی دینے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ ملک پر بیرونی قرضہ گزشتہ ساٹھ سال کی نسبت دگنا ہو چکا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کا ہر روز ایک نیا واقعہ سامنے آتا ہے لیکن بے نیازی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ قومی دولت کی اِس لوٹ مار کو جمہوریت کا حسن سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ اگر حکمرانوں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ عدلیہ کی حکم عدولی اہلِ اقتدار کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اس کے ہر حکم کو لائقِ اعتنا نہ سمجھنا اور اس کے برخلاف کارروائی کرنا جمہوریت کے دعوے داروں کا اصول بن چکا ہے۔ جب عدلیہ ان کے اِس عمل کو توہینِ عدالت کے زمرے میں گردانتے ہوئے کوئی فیصلہ دیتی ہے تو قربانیوں اور شہادتوں کی نئی گنتی شروع کردی جاتی ہے۔ وقتاً فوقتاً حکمراں جماعت کے کسی اہم رکن کی جانب سے عدالت عالیہ پر زبانی دشنام طرازی اور الزامات کی ایسی بوچھاڑ شروع کردی جاتی ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیران اور دل دہل کر رہ جائیں۔ نفرت و اشتعال میں بپھرے اس شخص کے منہ سے بھری محفل میں توہین آمیز الفاظوں کی ایسی چنگاریاں نکل رہی ہوتی ہے کہ ہر کوئی انگشت بدنداں ہوکر رہ جائے۔

لب و لہجہ کسی آتش فشاں سے ابلتے ہوئے لاوے کی مانند کھول رہا ہوتا ہے۔ لگتا ہے یہ سب کچھ دانستہ، سوچے سمجھے اور ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ اداروں سے تصادم کا تاثر پیدا کرکے اپنی پانچ سالہ نااہلیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالا جاسکے اور آنے والے الیکشن میں خود کو مظلوم و محروم بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ حکمراں پارٹی کے کھاتے میں اعلیٰ کارکردگی اور عوامی خدمت کی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر لوگوں سے ووٹ حاصل کیے جاسکیں لہٰذا ساری توجہ عدلیہ کے ہاتھوں شہادت کے حصول پر ہی مرکوز ہے۔ اب یہ ہمارے عوام کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ جمہوریت کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے تحت اپنانا چاہتے ہیں یا پھرمحض ایک جذباتی نعرے کے طور پر۔

الیکشن قریب ہیں ہمیں خود کو ایک سمجھدار، بالغ نظر اور روشن خیال قوم کی حیثیت سے منوانا ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے 65 سال کوئی کم نہیں ہوا کرتے۔ ہم کب تک کھوکھلی دلیلوں اور پھسپھسی تاویلوں سے اپنے دل و دماغ کو مطمئن کرتے رہیں گے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ہمیں اب اپنے اِس اندازِ فکر کو خیرباد کہنا ہوگا اور ایک بہتر جمہوری حکومت کے حصول کو اپنا مقصد بنانا ہوگا۔ وطنِ عزیز تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی اِس کا تدارک نہ کیا تو پھر ہمارا اﷲ ہی حافظ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔