عوام کو خود سے بدظن نہ ہونے دیجیے

سلمان نثار شیخ  پير 5 نومبر 2018
اپنے 100 روزہ پلان میں عوام کو ایک دو جانب سے ہی سہی، تھوڑا بہت ریلیف بھی دے دیجیے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اپنے 100 روزہ پلان میں عوام کو ایک دو جانب سے ہی سہی، تھوڑا بہت ریلیف بھی دے دیجیے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

وزیراعظم پاکستان کے عہدِ اقتدار سے پہلے کے عہد و پیمان کو ان کے حالیہ اقدامات کے تناظر میں دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ خان صاحب محسن نقوی کے پیروکار ہو چکے اور عوام الناس سے صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ

تم یاد کرو پہلی ملاقات کی باتیں
میں پہلی ملاقات ذرا بھول گیا ہوں

اگر روز اول سے لے کر آج تک وطن عزیز پر حکومت کرنے والوں کے عہد و پیمان اور اعمال و افعال پر غائر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معدودے چند کو چھوڑ کر باقی سب حکمران اہلِ پاکستان سے صرف ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ

بے وفائی کی معذرت کے اب
ہم سے وعدے وفا نہیں ہوتے

یا بقول الطاف حسین حالی

وہ امید کیا جس کی ہو انتہاء
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا

اب تو عوام کی حالت اور حکمرانوں کی چیرہ دستیاں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شاید ہم ہر جابر کو یہ کہہ کر مسند افروز کرتے ہیں کہ

اِدھر آ ستمگر ہُنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

یا یہ کہ بقول فیض

اپنی مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی

تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلہ نہیں باقی

کمزور عمران حکومت برقرار رہے گی یا نہیں؟ اور اگر برقرار رہے گی تو کب تک؟ جب تک حکومت رہے گی تب تک یہ سوالات بھی بار بار اٹھائے جاتے رہیں گے۔ ایسی کمزور حکومت کہ جس کے سر پر ’’بظاہر‘‘ کوئی مشرف بھی اپنے کسی ایل ایف او یا ایمرجنسی کی چھتری تانے نہیں بیٹھا، اس کی بقاء کے بارے میں کوئی عبیداللہ علیم کے ان الفاظ کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہے کہ

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

لیکن اس پر طرّہ یہ کہ خان صاحب کی ٹاسک فورسز، طویل المدتی اصلاحاتی پروگرام، نظام کو بنیاد سے تبدیل کرنے کی خواہش، قومی وسائل کا رُخ موڑنے کے منصوبے، سالہا سال کی ڈگر سے ہٹ کر چلنے کے ارادے اور چلے ہوئے کارتوسوں سے دورمار میزائلوں سے بڑھ کر کام لینے کے دعوے سن کر بے اختیار احمد فراز کی یاد آنے لگتی ہے جو کیا خوب فرما گئے ہیں کہ

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آگئے
ہم خواب بیچنے سرِبازار آ گئے

ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سردیوار آگئے

اور ایک ہی بات کو ہر ڈھنگ سے کہنے کے سلیقے میں طاق فراز صاحب شاید خان صاحب ہی کی حالت زار کو برسوں قبل اپنی چشم تصور سے بھانپ کر یہ بھی فرما گئے تھے کہ

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

ویسے اگر خان صاحب کے ارمانوں کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال نہ ہو تو یہاں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا بھی ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے جو کیا خوب فرما گئے ہیں کہ

ہوتی ہیں محبت میں کئی راز کی باتیں
ویسے ہی اس کھیل میں ہارا نہیں کرتے

بہرحال، ابھی کوئی حتمی تبصرہ تو قبل از وقت ہے تاہم، محشر بدایونی کے الفاظ میں، اتنا کہنا تو ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

یعنی بقول وصی شاہ

ہونا تو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے
لیکن وہ میرے خواب، میرے خواب، میرے خواب

کل کس نے دیکھی ہے؟ کس کے خواب پورے ہوں گے اور کس کے بکھر جائیں گے؟ کیا خبر۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بڑے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ جب ہم سب صدیوں سے کہہ رہے ہیں کہ نظام درست نہیں یا یہ کہ نظام موجود ہی نہیں تو پھر کسی نہ کسی کو کبھی نہ کبھی تو ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالنے کا بیڑا اٹھانا ہی تھا؛ سو اس میں چنداں برائی نہیں کہ بڑے خواب دیکھے جائیں۔ ناکامی کے خوف یا امکان کو خود پر ہرگز اتنا مسلط نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کوئی قدم ہی نہ اٹھائیں۔ میاں محمد بخش یاد آگئے

مالی دا کم پانی لانا پر پر مشقاں لاندا
مالک دا کم پھل پھولانا، لاوے یا نہ لاوے

سبحان اللہ!

تاہم، وزیر اعظم صاحب سے گزارش صرف اتنی ہے کہ خدارا وہ صرف اور صرف غریب کے خون کو چراغاں کرنے کےلیے استعمال میں نہ لائیں، مرے ہوئے کو مزید نہ ماریں، پسے ہوئے کو مزید نہ پچھاڑیں۔ سرکلر ڈیڈ ضرور ختم کریں، بجٹ خسارہ ضرور کم بلکہ ختم کریں، غیرپیداواری منصوبوں یا رعایتیں بھی ضرور ختم کریں، قومی آمدن بڑھانے اور ملکی معیشت کے وجود کو امربیل کی طرح نچوڑتے ہوئے غیر پیداواری منصوبوں یا محکموں یا عہدوں کو ضرور ختم کریں، مگر تبدیلی کے اس سارے پروگرام میں امیر اور طاقتور سے بڑا اور غریب اور تہی دست سے چھوٹا حصہ وصول کریں؛ نہ کہ غریب سے سارے کا سارا اور امیر سے نہ ہونے کے برابر تاوان وصول کیا جائے۔

غریب پہلے ہی ستر سال سے قربانیاں دے دے کر تھک چکا ہے اور آپ کو وہ لایا بھی یہی سوچ کر ہے کہ دیگر جماعتیں اقتدار میں آکر صرف اس سے بھینٹ مانگتی تھیں، جبکہ آپ آئے روز وعدے کرتے تھے کہ آپ غریب کو اوپر اٹھائیں گے اور امیروں سے لوٹی دولت وصول کرکے غریبوں پر خرچ کریں گے۔ سڑکوں، نالیوں اور پلوں کے بجائے انسانوں پر خرچ کریں گے، ان کے حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں کریں گے، وغیرہ۔

لیکن جناب وزیراعظم صاحب! آپ نے اب تک اپنے طویل مدتی اصلاحاتی پروگرامز تو یقیناً بہت اچھے بنائے ہیں، مگر فوری طور پر آپ غریب کی ٹوٹی ہوئی کمر کو مزید توڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے۔ یاد رکھیے! آپ بھاری مینڈیٹ لے کر نہیں آئے، آپ کی کشتی ہر جانب سے بھنور میں ہے۔ اگر آپ نے اسی طرح بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گرتے ہوئے روپے کو کھلا چھوڑے رکھا تو آپ بہت تیزی سے ضمنی انتخابات سے بھی کہیں بڑھ کر غیرمقبول ہوجائیں گے۔ اور پھر اگر آپ کا ایک بھی اتحادی اپوزیشن کے ساتھ یہ کہہ کر جا ملا کہ

گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو

تو پھر اس کے دو نتیجے برآمد ہوں گے: پہلا یہ کہ دوبارہ وہی لوگ حکومت میں آجائیں گے کہ جنہیں سالہاسال کی جنگ کے بعد پچھاڑ کر آپ مسند افروز ہوئے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ اور اصلاحاتی پروگرام کی آڑ میں آپ کی جانب سے کی گئی ہوشربا مہنگائی اور افراط زر بھی اپنی جگہ موجود رہے گی جو آئندہ کےلیے بھی آپ کا راستہ روک دے گی۔ آپ کے مخالفین آپ کے اس دور کو بھیانک سپنا بنا کر عوام کے سامنے رکھا کریں گے اور عوام کے پاس ان کی بات ماننے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہ ہوگا۔

چنانچہ محترم عمران خان صاحب! اگر آپ اپنی حکومت اور اہل پاکستان کی حالت پر ذرا سا بھی ترس کھانا چاہتے ہیں تو اپنے 100 روزہ پلان میں عوام کو ایک دو جانب سے ہی سہی، تھوڑا بہت ریلیف بھی دے دیجیے۔ ورنہ شاید آپ کے ساتھ وہ ہو کہ جس کا شاید آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو؛ کیونکہ کم از کم اب تک تو جو کچھ آپ اپنی عوامی مقبولیت کے، جو بلاشبہ جمہوری نظام کی ایک کلیدی قدر ہے، ساتھ کر رہے ہیں، اس بارے میں ہم مومن خاں مومن کے اس شعر سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلمان نثار شیخ

سلمان نثار شیخ

بلاگر قلمکار، صحافی اور محقق ہیں۔ وہ اردو اور اقبالیات کی کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔