مدینہ میں صبح

رفیع الزمان زبیری  منگل 18 جون 2013

مظفر اقبال اسلامی ملکوں کی تنظیم (OIC) کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں باہمی تعاون کی کمیٹی کے ایک اہم عہدیدار تھے، دیار مغرب میں طویل وقت گزارنے کے بعد پاکستان واپس آئے تھے اور چاہتے تھے کہ اس کمیٹی کے ذریعے اپنے وطن اور اسلامی ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خدمت کر جائیں۔ یہ ان کی خواہش ہی نہیں بلکہ آرزو تھی۔ چنانچہ جب کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ کمیٹی کے تنظیمی ڈھانچے اور اس کے طریقہ کار میں بعض بنیادی تبدیلیوں کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے جن کے حصول کے لیے یہ کمیٹی بنائی گئی ہے تو انھوں نے بڑی محنت سے ایک جامع منصوبہ بنا کر بڑی امیدوں کے ساتھ صدر پاکستان کو جو کمیٹی کے چیئرمین تھے، پیش کیا اور اصلاح احوال کے لیے اس پر عمل شروع کرنے کی اجازت مانگی۔

اس منصوبے کی وضاحت کے لیے صدر پاکستان سے ان کی کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ صدر نے منصوبے پر اپنی پسندیدگی کا اظہار ہی نہیں فرمایا بلکہ اس پر عمل در آمد میں اپنی پوری حمایت کا یقین بھی دلایا۔ لیکن جب حتمی فیصلے کا وقت آیا تو حسب معمول ایک ’’معمر شخصیت‘‘ جو کمیٹی کی انتظامی سربراہ تھی، آڑے آ گئی۔ مظفر اقبال کی اپنے منصوبے سے جذباتی وابستگی تھی، ان کا دل ٹوٹ گیا اور جب دل ٹوٹ جاتاہے تو زندگی بے مقصد اور ویران ہو جاتی ہے۔ اس کے مداوے کی ایک ہی صورت مظفر اقبال کو نظر آئی اور وہ یہ کہ وہ اس در پر حاضری دیں جہاں ٹوٹے دل جوڑے جاتے ہیں، مایوسیاں امنگوں میں بدل جاتی ہیں اور اندھیرے روشنیوں میں۔ ارادے نیک ہوں تو تائید غیبی میں دیر نہیں لگتی۔

مظفر اقبال نے کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور دیار نبی کے لیے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ اتفاقاً امریکا سے ’’سائنس اور روحانیت کے تعلق‘‘ پر ایک کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ آیا جو در حقیقت در نبیؐ پر حاضری کا بلاوا تھا۔ وہ امریکا گئے اور وہاں سے واپسی پر جدہ پہنچ گئے۔ یہ دسمبر کے آخری دن تھے اور ماہ رمضان کی آمد آمد تھی۔ مظفر اقبال نے اپنے ایک عزیز کو جو مدینہ میں مقیم تھے مطلع کر دیا تھا کہ وہ 28 دسمبر کو وہاں پہنچ رہے ہیں۔ مظفر اقبال نے پہلے عمرہ ادا کیا۔ حرم کعبہ میں حاضری دی اور ایک دن غار ثور کی زیارت اور وہاں عبادت میں گزارا۔ پھر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ رسول اﷲ ؐ نے مدینہ ہجرت کرتے وقت مکہ میں اپنے قیام کی آخری گھڑیاں غار ثور میں گزاری تھیں جہاں آپؐ پر اپنی جان فدا کرنے والے آپؐ کے صحابی حضرت ابو بکر صدیقؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔

مدینہ میں ایک دن اپنے عزیز ذوالفقار کے ساتھ اس کی مختصر قیام گاہ پر گزار کر مظفر اقبال نے مسجد نبوی کا رخ کیا جو اب ایک ماہ تک ان کا ٹھکانا تھی۔ یہیں ان کو ذکر خدا اور یاد رسولؐ میں وقت گزارنا اور اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹ کر زندگی کو بامقصد بنانا تھا۔ اپنی کتاب ’’مدینہ میں صبح‘‘ (Dawn in Madina) میں انھوں نے یہ تمام احوال لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں…

’’دوسری صبح اٹھ کر میں نے حرم نبویؐ میں اپنے قیام کی تیاری شروع کی۔ مسجد نبویؐ میں صرف چند چیزیں لے جانے کی اجازت تھی اور وہ بھی ایسی کہ جیب میں آ سکیں۔ میں نے ایک بڑی سی شال اوڑھی اور کچھ ضروری چیزیں مثلاً ایک چھوٹی الارم والی گھڑی، ایک ڈائری، ایک قلم، ایک بڑا سا رومال، کچھ سادہ کاغذ کے اوراق، کپڑے دھونے کا پائوڈر اور مسواک جیبوں میں رکھ لیں۔ پھر گلیوں کے کچے راستے پر چلتا ہوا جب سڑک پر پہنچا تو ایک ٹرک پیچھے سے آتا ہوا میرے برابر رک گیا اور ایک بوڑھے سے آدمی نے دروازہ کھول کر اشارہ کیا کہ آئو، بیٹھ جائو، میں جزاک اﷲ کہہ کر بیٹھ گیا۔ یہ دسمبر کی ایک خنک سحر تھی، آسمان پر ستارے چمک رہے۔ تھوڑی دیر میں ہم مسجد نبویؐ پہنچ گئے۔‘‘

اسی رات رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کا اعلان ہو گیا۔ رمضان کے ساتھ مظفر اقبال کا مسجد نبویؐ میں اعتکاف شروع ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں … ’’رمضان کا مہینہ مسجد نبویؐ میں گزارنے کا خیال مجھے اس زمانے میں آیا تھا جب میں اندوہ غم کے ایک بڑے تکلیف دہ دور سے گزر رہا تھا۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مجھے کافی انتظار کرنا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یہ خواہش بڑھتی ہی گئی۔ بالآخر اس کی تکمیل کا وقت آ گیا اور اب رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور میں مسجد نبویؐ میں ہوں۔‘‘

باب ہجرۃ کے بائیں جانب مسجد کی جنوبی دیوار سے کوئی دو میٹر کے فاصلے پر مظفر اقبال کو دو ستونوں کے درمیان اتنی جگہ نظر آئی کہ یہاں وہ آرام سے کمر سیدھی کر سکتے تھے۔ اس جگہ پر شمال کی طرف صفوں کے درمیان پیتل کا ایک ریک تھا جہاں قرآن پاک رکھے تھے اس سے ایک آڑ سی ہو گئی تھی۔ جنوبی سمت قالین کی دو صفیں تھیں۔ وہ جب چاہتے قبلہ رو ہو کر نماز پڑھ سکتے تھے۔ ایک ستون میں فرش کی طرف ایک خلاء تھا جہاں انھوں نے اپنے جوتے اور چشمہ رکھ دیا۔ مسجد نبویؐ میں اب اس جگہ ان کا قیام تھا۔ لکھتے ہیں… ’’میں نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا۔ اب میرا یہ معمول بن گیا تھا کہ نماز فجر مسجد سے مختلف حصوں میں ادا کرتا اور پھر صحن مسجد میں بیٹھ کر باقی دن گزارتا۔

افطار کا وقت قریب آتا تو ان بزرگ کے دسترخوان پر چلا جاتا جنھوں نے پہلے دن مجھے اصرار سے بلا کر بٹھایا تھا۔ نماز عشاء اور تراویح نوجوان فواد کے (جن سے مسجد ہی میں تعارف ہوا تھا) اہل خانہ کے پہلو میں ادا کرتا۔ فواد ہمیشہ مجھ سے دعا کے لیے کہتے۔ تراویح کے بعد میں اس طرف جہاں پودینہ والی چائے ملتی تھی جا کر چائے پیتا اور واپس آتے ہوئے ان صاحب کے پاس جاتا جو سیاہ مزیدار کھجوریں روزہ داروں میں تقسیم کرتے تھے۔ پھر مسجد کے کھلے صحن میں جاتا جہاں ایک صاحب نہایت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ میں ان کے قریب بیٹھ کر یہ تلاوت سنتا۔ مسجد نبویؐ میں قرآن پڑھنے اور سننے کا ایک عجیب ہی لطف ہے۔ یہ لطف کہیں اور نصیب نہیں ہوتا۔‘‘

مظفر اقبال نے مسجد نبویؐ میں افطار کا تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح عصر کے بعد پولی تھین کے سفرہ (دسترخوان) بچھائے جاتے تھے۔ ان پر زم زم کے پیالے، کھجوریں، روٹی کے ٹکڑے، دہی کے ڈبے، پنیر رکھا جاتا تھا اور کس طرح روزہ داروں کو محبت اور اصرار سے بلا بلا کر سفرہ کے گرد بٹھایا جاتا تھا۔ مظفر اقبال کو پہلے ہی دن ایک بزرگ میزبان مل گئے تھے جن کے دسترخوان پر ان کی حاضری لازمی ہو گئی تھی۔ جو آخیر دن تک جاری رہی۔ حرم نبوی عجیب جگہ ہے۔ یہاں جو بھی ڈھونڈنے آتا ہے وہ اسے مل جاتاہے۔ جو لینے آتا ہے وہ پاتا ہے۔ کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔ یہ داتا کی نگری اور اس کے حبیب کا دربار ہے جیسی ہمت ویسی کامیابی، جیسی طلب ویسی عطا، مظفر اقبال خوش نصیب تھے۔ ان کے دکھ کا مداوا ہو گیا اور جذبہ شوق کا صلہ بھی مل گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔