امل کا زندہ ڈھانچہ 

زاہدہ حنا  بدھ 31 اکتوبر 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہوسکتا ہے سات سالہ یمنی بچی امل حسین کی تصویر آپ کی نظر سے بھی گزری ہو جو ان 20 لاکھ بچوں میں سے ہے جنھیں ناکافی غذائیت کا بدترین شکار کہا گیا ہے۔ ان میں سے 4 لاکھ وہ ہیں جو موت کی دہلیز پر ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ سات سالہ بچی اور اس جیسے دوسرے لاکھوں بچوں کو موت اپنا نوالہ بنارہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ چند طاقتور ملکوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر بے بس اور نہتے انسانوں کو صرف فضائی بمباری اور زمینی فوجی دستوں سے ہی نہیں روندیں گے بلکہ سب سے تباہ کن ہتھیار بھوک ہوگی جو مفلس اور لاچار انسانوں کو اپنا نوالہ بنائے گی۔

امل کے ڈھانچے پر کھال منڈھی ہوئی ہے، اس کی آنکھیں ہر جذبے سے خالی ہیں۔ اس کے باپ نے اخباری نمایندوں اور فوٹوگرافروں سے کہا کہ میں اپنی بچی کو ہلاک ہوتے دیکھ رہا ہوں اور کچھ نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے میرا بیٹا اسی طرح بھوک کے ہاتھوں مارا گیا اور میں دیکھتا رہا۔

اخباری نمایندے اور فوٹوگرافر بھوک کا شکار ہونے والے بچوں کو دیکھتے رہے اور اپنے آنسو ضبط کرتے رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسئلہ یہ نہیں کہ خوراک عنقا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں، اسپتال سے باہر قدم رکھیے، اسٹور طرح طرح کی غذاؤں سے بھرے ہوئے ہیں، بسکٹ، چاکلیٹ، جوس، اس کے ساتھ ہی گیہوں، شکر اور چاول کے بڑے بڑے تھیلے۔ ہر طرح کا گوشت، مکھن، تیل اور گھی۔ ہمہ نعمت دکانوں میں موجود ہے لیکن بھوک کا شکار ہونے والوں کے پاس روپے نہیں جن سے وہ اپنے بچوں کے یا اپنے لیے کھانے کی کوئی چیز خرید سکیں۔ کھانے پینے کا سامان سونے کے بھاؤ بک رہا ہے اور بھوکوں کے پاس خالی آنکھیں ہیں جو اس سامان کو تکتی ہیں۔

80لاکھ یمنی باشندے بھوک کی چکی میں باریک پیسے جارہے ہیں۔ صرف غریب ہی بھوک کا شکار نہیں۔ یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھانے والوں کو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی اور وہ مجبور ہوئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں سے درخواست کریں کہ ان کی مدد کی جائے۔ ڈاکٹر اپنی کاریں اونے پونے بیچ رہے ہیں تاکہ اپنے گھر والوں کو چند دنوں تک ایک وقت کھانا فراہم کرسکیں۔ اخباری نمایندوں نے ایک عورت کو دیکھا جو ہاتھ میں بھونپو لیے ہوئے تھی اور چیخ چیخ کر بھیک مانگ رہی تھی۔ متوسط طبقے کے وہ لوگ جو تین وقت پیٹ بھر کر کھاتے تھے، اب ایک وقت پیٹ بھرنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہا ہے۔ گھر کے آنگن میں بندھی ہوئی بکری اور آس پاس پھرتا ہو اونٹ یا بیچ دیا گیا یا ذبح کرکے کھالیا گیا۔

واشنگٹن اور نیویارک کے بڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹر اور ڈپٹی ایڈیٹر اپنے فوٹو گرافروں کی بھیجی ہوئی تصویروں کو دیکھتے ہیں اور سر پکڑ لیتے ہیں۔ انسانوں اور بہ طور خاص بچوں کی یہ تصویریں کیسے شایع کی جائیں۔ یہ انسانیت کی توہین ہے لیکن اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ عسکری بالادستی قائم کرنے کے لیے اور یمن پر اپنا تسلط جمانے کے لیے ایک نہیں کئی ملک بے تاب ہیں۔ وہ رقم جو یمن کے انفرااسٹراکچر اور انسانی بہبود پر خرچ ہونی چاہیے تھی، وہ فوج اور اسلحے پر لٹا دی گئی، نتیجہ یہ ہے کہ آج یمن ایک مفلس ملک ہے، اس کے لوگ بھوک سے مررہے ہیں اور کسی کو مرنے والوں کا غم نہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران بنگال میں قحط پڑا تو وہاں لاکھوں لوگ ناکافی خوراک اور بھوک سے ہلاک ہوگئے۔ اس وقت بھی ماہرین معیشت کا کہنا تھا کہ یہ ہلاکتیں اس لیے نہیں ہوائیں کہ بنگال میں غلے کی یا کھانے پینے کی دوسری اشیاء کی کمی تھی، اصل وجہ یہ تھی کہ ذخیرہ اندوزوں نے ہزاروں اور لاکھوں من خوراک اپنے گوداموں میں بھر رکھی تھی۔برطانوی حکومت ان ذخیرہ اندوزوں سے مہنگے داموں اناج خرید کر اپنے سپاہیوں کے لیے ایشیا کے مختلف ملکوں، حد تو یہ ہے کہ افریقا کے محاذ پر لڑتی ہوئی اپنی افواج کے لیے بھیج رہی تھی۔ یہ بنگال کا قحط تھا جو بیسویں صدی کی تاریخ میں ایک بڑا حوالہ بن گیا۔

نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیا سین کا کہنا ہے کہ فطرت انسانوں پر قحط نازل نہیں کرتی۔ خود انسان لالچ میں انسانوں پر قحط مسلط کرتا ہے۔

یہی بات آج یمن میں یا جنگ کا نوالہ بن جانے والے دوسرے خطوں پر صادق آتی ہے۔

نیویارک ٹائمز انٹرنیشنل کے جس ایڈیشن میں امل کے زندہ ڈھانچے کی تصویر شایع ہوئی ہے، اس کے بالکل برابر ایک کھلا خط مائیکل گورباچوف کا ہے۔ آج کی نئی نسل شاید گوربا چوف کے نام سے آگاہ نہ ہو لیکن اب سے 30 برس پہلے اس وقت کے سوویت یونین کے صدر مائیکل گورباچوف نے اس وقت کے امریکی صدر ریگن سے درمیانی اور مختصر فاصلے پر مار کرنے والے ایٹمی میزائیل کے مکمل خاتمے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ دنیا کی 2 عظیم طاقتوں نے ہلاکت خیز ایٹمی ہتھیاروں کی ایک نسل کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس پر عمل بھی ہوا تھا۔

27-28 اکتوبر کے شمارے میں مائیکل گورباچوف نے لکھا ہے کہ اس معاہدے کے بعد 1991 میں سوویت یونین اور امریکی صدر جارج بش نے ایٹمی ہتھیاروں میں بہت زیادہ کمی کا معاہدہ کیا۔ روسی اور امریکی صدور نے 2010 میں بھی ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کا معاہدہ کیا۔ اس وقت دنیا کے اسلحہ خانوں میں بے شمار نیوکلیائی ہتھیار موجود ہیں لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ روس اور امریکا کے اسلحہ خانوں میں اب ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد سردجنگ کے زمانے کی نسبت بہت کم ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کا جائزہ لینے والی 2015 کی کانفرنس میں روس اور امریکا نے کانفرنس کو مطلع کیا کہ ان کے 85 فیصد ایٹمی ہتھیار یا تلف کیے جاچکے ہیں یا ناکارہ بنائے جاچکے ہیں۔ یہ بات دونوں ملکوں کے لیے مسرت اور فخر کا سبب تھی لیکن گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ہم تخفیف اسلحہ کے معاہدے کو رد کررہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ امریکا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز کرنے والا ہے۔

مسٹر گورباچوف نے امریکا اور دنیا کے عوام کے نام اپنے کھلے خط میں لکھا ہے کہ مجھ سے پوچھا جارہا ہے کہ تخفیف اسلحہ کا وہ معاہدہ جس کے لیے میں نے برسوں محنت کی تھی، اس کے خاتمے پر میرے کیا احساسات ہیں؟ یہ ایک ذاتی معاملہ نہیں، دنیا میں بہت کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اسلحہ سازی کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوگیا ہے۔ فوجی اخراجات بلندیوں پر جاپہنچے ہیں اور امریکی صدر گزشتہ دو برس کے دوران جس نوعیت کے اعلانات کرتے رہے ہیں اس نے دنیا میں امن کو بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔

سوویت یونین کے سابق صدر مسٹر گورباچوف نے امریکی صدر کے عسکری عزائم پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ روس اور امریکا کے دانشور اقوام متحدہ اور دوسری بین الاقوامی تنظمیں اسلحے کی اس نئی دوڑ کا حصہ بننے سے انکار کریں گی اور دنیا میں امن کی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے والے امریکی صدر کے عزائم کا مکالمے سے مقابلہ کریں گے۔

مسٹر گورباچوف اپنے اس کھلے خط میں ایک عالمی دانشور اور مدبر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ تخفیف اسلحہ اور عالمی امن کے لیے کوششوں میں ایک بڑا نام ہیں۔ یقیناً دنیا کے دوسرے امن دوست ان کوششوں میں ان کا ساتھ دیں گے لیکن امل کے زندہ ڈھانچے کی تصویر کے برابر میں مسٹر گورباچوف کا عالمی امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے لکھا جانے والا خط گہری معنویت رکھتا ہے۔

اسلحے اور بطور خاص ایٹمی اسلحہ کے وہ حامی جو دنیا کو جنگ کے جہنم میں جھونکنے کے لیے بے تاب ہیں، وہ امل کی اور یمن کے دوسرے بچوں کی تصویریں دیکھیں، یہ خبریں پڑھیں کہ 40 لاکھ یمنی بچے ناکافی غذا کے سبب قدم بہ قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور پھر یہ سوچیں کہ جنگ کی تیاریاں اور اس کے لیے بجائے جانے والے طبل کیا واقعی کسی ملک کے لیے فتح کا شادیانہ ہیں؟

یمن کی آبادی کی بھاری اکثریت آج بھوک کی جس وادی میں اتار دی گئی ہے، کیا واقعی یہ اس کا مقدر تھا۔ وہ ملک جہاں ہر وقت جنگ کا بگل بجتا رہتا ہے اور عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ عسکری بالادستی، عوام کا پیٹ بھرتی ہے اور ان کے بدن پر مناسب لباس کا بندوبست کرتی ہے۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ امل جیسے مقدر سے ان ملکوں کے بچے کب تک محفوظ رہ سکتے ہیں جن کے مدبروں کو اپنے بیشتر وسائل اسلحے کی خریداری اور جنگ کی تیاری پر جھونک دینے کا شوق ہو۔ یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔