دانشمند حکمران

عبدالقادر حسن  جمعرات 1 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں کئی دنوں سے حیرت کے ساتھ اپنے حکمرانوں اور انتظامیہ کے درمیان کشمکش کی خبریں پڑھ رہا ہوں۔ میں اپنے حکمرانوں کی بے بسی اور لاچارگی پر آنسو بہا رہا ہوں اور ان آنسوؤں کو ضبط تحریر میں لانا چاہتا ہوں۔

ہمارے نئے حکمران چونکہ پہلی دفعہ اقتدار میں آئے ہیں اس لیے ان کو ملکی انتظامیہ کے ساتھ معاملات طے کرنے کا کوئی خاص تجربہ نہیں اور تجربہ کار انتظامیہ حسب سابق ان کو اپنے اشاروں پر نچانے کی کوشش کر رہی ہے اور ابھی تک اس میں کامیاب بھی ہے کیونکہ حکومت نے جس بھونڈے طریقے سے انتظامیہ کو ڈیل کرنے کی کوشش کی ہے اس کے یہی نتائج نکلنے تھے جو ہم سب کے سامنے ہیں۔

پہلے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے حکم پر ایک افسر کے تبادلے کے معاملے نے سر اٹھایا اور اب وزیر اعظم کے زبانی حکم پر اسلام آباد کے آئی جی صاحب کا تبادلہ سپریم کورٹ نے روک دیا ہے۔ ملکی انتظامیہ نئی حکومت کے ساتھ کھیل رہی ہے لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ کھیل ایک خطرناک صورت بھی اختیار کر سکتا ہے کیونکہ ملک کی باگ ڈور جو حقیقی طور پر انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انتظامیہ حکومت وقت کے تابع رہ کر ملکی قانون پر عمل درآمد کرتی ہے لیکن اگر یہی انتظامیہ اپنی ہی حکومت کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے اپنے طور طریقوں سے چلانے کی کوشش کرے تو اس کے نتائج ملک کے لیے اچھے نہیں نکلتے اور یوں حکومت اور انتظامیہ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا تدارک کرکے ہی حکومتی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

نپولین نے کہا تھا کہ بادشاہ حکم دیا کرتے ہیں احتجاج نہیں کرتے ۔ مجھے اپنے حکمرانوں سے ہمدردی ہے جو کہ حکومت کے آغاز میں ہی انتظامیہ کا شکار نظر آتے ہیں اور فواد چوہدری نے بالکل درست کہا ہے کہ وزیر اعظم اگر آئی جی تبدیل نہیں کر سکتا تو پھر الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے لیکن اس شکوہ کے ساتھ انھیں ایسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے تاکہ آیندہ اس طرح کی کوئی غلط فہمی اداروں کے درمیان پیدا نہ ہوجس میں حکومت کو سبکی کا سامناکرنا پڑے ۔ مجھے اس وقت اپنے وقت کے سب سے بڑے منتظم نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی یاد آرہی ہے جن کی دانشمندی کا ایک زمانہ معترف ہے وہ بھی اپنے حکمرانی کے دور میں اشاروںکنایوں سے ہی احکامات جاری کرتے تھے اور کسی کو ان کے احکامات سے روگردانی کی جرات نہیں ہوتی تھی۔

ان کے پاس ان کے ایک زمیندار دوست آئے اور شکوہ کیا کہ مقامی انتظامیہ کے افسران ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور بلاوجہ ان کو تنگ کرتے ہیں ۔ نواب صاحب نے کہاکہ میں فلاں تاریخ کو ملتان جارہا ہوں وہاں مجھ سے ملیں۔ نواب صاحب ملتان کے دورے پر گئے تو انھیں اطلاع ملی کہ فلاں صاحب ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ نواب صاحب نے بجائے اس کے کہ ان کو اندر بلا لیتے خود باہر جا کر ان کا استقبال کیا ۔ مقامی انتظامیہ کے افسر حیرت زدہ ہو کر گورنر کے اس التفات کو دیکھ رہے تھے جو بالکل غیر متوقع تھا۔ نواب صاحب اپنے ملاقاتی سے گلے ملے اور ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر انھیں اندر لے آئے ۔ کمرے میں ایک صوفے پر بٹھا دیا اور خود دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے، ملاقاتی نواب صاحب کی اس غیر معمولی مہربانی پر ہکا بکا بیٹھا رہا ۔

تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے اس سے کہا کہ وہ اب جا سکتے ہیں ۔باہر کھڑے انتظامی افسران نے ان کو جھک جھک کر سلام کیا اور اپنے دلوں میں پشیمان ہوتے رہے کہ نواب صاحب کے ایک دوست کو ناراض کر دیا اب خدا جانے کیا ہوگا۔ دوسرے دن نواب صاحب واپس چلے گئے تو افسران بالا اس زمیندار کے ہاں باری باری حاضری دیتے رہے اور اپنے سابقہ رویئے کی توجیہیں دیتے رہے لیکن اس ملاقاتی کو خوب معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے۔ نواب صاحب نے کسی سے ان کی سفارش نہیں کی لیکن ایک زبردست منتظم کا رویہ ہی سب کچھ کہہ رہا تھا ۔ اسے دانشمندی کا نام دیا جاتا ہے کوئی حکمران جب حکمرانی کے گر جانتا ہے اس کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوتا ہے اور خود اس کی شخصیت بھاری بھرکم اور جہانبانی کے مشکل ترین کام میں ماہر ہوتی ہے تو پھر وہ حکم جاری نہیں کرتا ۔ اس کی خواہشات ہی اس کے حکم کا درجہ پاتی ہیں اور اس کے بلا واسطہ احکامات ہی سروں پر ہتھوڑے بن کر گرتے ہیں ۔

نواب صاحب کا ذکر آیا تو جہانبانی کے آرٹ کا ایک واقعہ اور سن لیجیے ۔ وہ اپنے دفتر میں تشریف لائے تو دیکھا کہ گورنر ہاؤس میںصوبے کے اعلیٰ افسران ان کے منتظر کھڑے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوا کرتا تھا ۔ نواب صاحب نے ان سب کو دیکھا تو چیف سیکریٹری کو بلا کر پوچھا کہ کیا بات ہے اس نے عرض کی کہ کل کراچی میں طلبہ زبردست جلوس نکالنے کا پروگرام بنا رہے ہیں کیا حکم ہے نواب صاحب نے یہ سن کر بلا توقف کہا ’’ گولی سے اڑا دو‘‘ اور یہ کہہ کر اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔

اس حکم پر سب بے حد پریشان ہو گئے کیونکہ اس کا مطلب وہی تھا جو ان الفاظ کا ہو سکتا تھا ۔ ملٹری سیکریٹری مرحوم کرنل شریف آگے بڑھے معمول تھا کہ نواب صاحب چارسیڑھیاں چڑھ کر مڑ کر پیچھے دیکھتے تھے کرنل صاحب تیسری سیڑھی پرموجود تھے انھوں نے عرض کیا حکم بہت سخت ہے نواب صاحب نے اس منہ چڑھے قابل اعتماد سیکریڑی سے سختی کے ساتھ اونچی آواز میںاپنا حکم دہرایا جسے افسروں نے بھی سن لیا ۔

کرنل صاحب پریشان ہو کر اپنے دفتر میں چلے گئے، چیف سیکریٹری بھی ملٹری سیکریٹری کے پاس آگئے ۔ کچھ دیر بعدکرنل صاحب نے سوچا کہ اب شاید موڈ کچھ بدل گیا ہو، فون پر عرض کیا کہ اس سے کم پر بھی شاید بات بن جائے ۔ چیف سیکریٹری کا بھی یہی خیال تھا نواب صاحب نے تیز لہجے میں سیکریڑی کو جھڑک دیا اور بات ختم ہوگئی۔ اس سے چند گھنٹے بعد نواب صاحب جب کپڑے بدل چکے تو انھوں نے ملٹری سیکریڑی کو طلب کیا اور کہا کہ کل جلوس نہیں نکلے گا بے فکر رہو۔جلوس نکالنے والوں میں ان افسران کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار بھی شامل ہیں انھوں نے ان کو اب تک اطلاع کر دی ہو گی کہ جلوس نکلا تو کیا ہو گا چنانچہ وہی ہوا کہ جلوس نہ نکلا۔

یہ ہوتی ہے حکمرانی اور یہ ہوتا ہے حکومت کا دبدبہ، رونے دھونے سے حکومت نہیں چلا کرتی۔ امن و امان غارت ہوتا ہے اور جرائم پیشہ شیر ہو جاتے ہیں۔ آہنی ہاتھ اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنے ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھنے کی تاکہ آپ کے معاملات میں کوئی اور دخل نہ دے۔ نواب کالا باغ کی گورنری کے دوران ان کی انتظامی صلاحیتوں کے قصے ایک دانشمند حکمران کی فہم و فراست کا عملی نمونہ ہیں۔ اس لیے دانشمندی اور عدل و مساوات سے حکومت کیجیے اور تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔