امریکی معاشرے کو کیا ہوا ہے

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 2 نومبر 2018

اب ایک بار پھر امریکا سے خبر آئی ہے کہ ایک شخص رابرٹ جوٹرز نے امریکی ریاست پنسلوانیا کے شہر پٹس برگ میں ایک یہودی عبادت گاہ میں داخل ہوکر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ اطلاعات کے مطابق یہ شخص اس اقدام سے قبل سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلاتا رہا تھا اور بعد میں اس نے یہ انتہائی اقدام کیا۔ ملزم کوگرفتار بھی کرلیاگیا ، یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ امریکا میں گورے رنگ والے افراد کی طرف سے اس قسم کی وارداتیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں اور یہ سب وارداتیں اخبارات و اشاعتی اداروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

امریکی رویہ اس معاملے میں بھارتی رویے سے بڑی مشابہت رکھتا ہے ۔ بھارت میں اگر اس سے ملتا جلتا کوئی اقدام کسی مسلمان کی طرف سے ہوجائے تو اس کی وجوہات ، عواقب اور نتائج پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ اس کو فرقہ وارانہ رنگ بھی دیا جاتا ہے اور اسے دہشت گردی قرار دے کر مسلمانوں کو من حیثیت القوم دہشت گرد قرار دینے کی مہم شروع کردی جاتی ہے ۔

ٹھیک اسی طرح امریکی معاشرے میں آئے دن ہونے والے فائرنگ کے ایسے واقعات میں سے اگر ایک واقعے میں کوئی رنگ دار خصوصا مسلمان ملوث ہو تو بغیر تحقیق کے اس کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر مسلمانوں کی شامت آجاتی ہے۔ وہاں بھی وہ من حیث القوم دہشت گرد قرار دے دیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تذلیل اور توہین کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ مگر فائرنگ ، دہشت گردی ، ہلاکت کے اکثر واقعات گوروں کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایسے واقعات کے درمیان کوئی سال دو سال کا وقفہ نہیں ہوتا بلکہ ہر چند ماہ بعد کبھی کسی اسکول میں،کسی ہوٹل میں ،کسی تفریح گاہ پر شوقیہ فائرنگ کے یہ واقعات اب امریکی معاشرے کا معمول بن چکے ہیں ۔

ایسے واقعات میں چونکہ گورے ملوث ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تاویلیت کی جاتی ہیں،کبھی ان کو دماغی مریض قرار دے کر رعایت دے دی جاتی ہے ،کبھی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی بے چارگی اس کا سبب قرار دی جاتی ہے توکبھی سماجی محرومیوں کا حامل قرار دے کرجرم کی اہمیت کوکم سے کم ترکیا جاتا ہے۔ اس متعصبانہ رویے کا سارا نقصان امریکی معاشرے کو ہی ہوتا ہے جو جان سے جاتے ہیں وہ تو بے موت مرجاتے ہیں مگر قاتل کو قرار واقعی سزا نہیں مل پاتی اور دوسروں کو ایسے ہی جرائم پر آمادہ کرنے کی رخصت مل جاتی ہے ۔

امریکی سماجی مفکرین نے اس کی ایک وجہ امریکی معاشرے میں آتشیں اسلحے کی فراوانی اور ان کے حصول میں سہولت کو قرار دیا ہے،کہا جاتا ہے کہ امریکی معاشرے میں قانونی آتشیں اسلحہ تقریباً ہر شخص کو میسر ہے، اس لیے وہ جب چاہے اسے بے دریغ استعمال کرسکتا ہے ۔

امریکیوں کی طرف سے اپنے لوگوں پر اس طرح کی موت مسلط کرنے کے واقعات اتنی بڑی تعداد میں ہوئے ہیں کہ امریکی معاشرے میں خود یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ آتشیں اسلحے کی آزادانہ ملکیت پر قدغن لگائی جائے ۔ اس سلسلے میں امریکی معاشرے نے بلند آواز میں احتجاج کیا ہے اور سرکاری حلقوں میں اس پر توجہ بھی دی گئی ہے ۔ پچھلی بار ایسے ہی ایک واقعے کے نتیجے میں جب یہ آوازیں بلند ہوئیں تو امریکی سرکاری حلقوں نے آتشیں اسلحے کے لائسنس جاری کرنے میں چند پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر یہ ’’عندیہ‘‘ عندیہ ہی رہا ، اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آتشیں اسلحے کو اس طرح ارزاں نہیں ہونا چاہیے مگر قابل غور بات یہ بھی ہے کہ امریکی معاشرہ آخر ایسا کیوں ہوگیا ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی بات کو برداشت ہی نہیں کر پاتا اور ہر مخالف کو راستے سے ہٹانا ضروری سمجھتا ہے۔ نفرتوں کی اس بہتات نے امریکی معاشرے کو مثالی معاشرہ نہیں رکھا بلکہ ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا ۔

اس غیر محفوظ معاشرے کے صدر نے خود بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ امریکی معاشرے میں نفرتیں بڑھ گئی ہیں اور برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ عدم برداشت کے الزام ماضی میں مشرقی معاشروں اور خصوصاً مسلم معاشروں پر لگایا جاتا تھا مگر اب امریکی معاشرہ خود اس الزام کی لپیٹ میں ہے اور یہ آگ اب اسے جلائے ڈال رہی ہے۔ خاکستر کر رہی ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی امریکی کسی نہ کسی حیلے بہانے سے کسی دوسرے امریکی یا امریکیوں کو ٹھکانے لگانے کا کارنامہ انجام دینے لگے ہیں ۔

آتشیں اسلحہ تو پہلے بھی امریکی معاشرے میں عام تھا مگر عدم برداشت نہ ہونے کی وجہ سے جرائم اس طور نہیں ہوتے تھے مگر مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت کو جائز قرار دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہوکر خود اپنوں پر بھی حملہ آور ہونے لگا ۔ ضرورت ہے کہ امریکی رائے عامہ ایک بار پھر اپنے رویوں پر نظر ثانی کرے اور پر امن بقائے باہمی کی صورت گری کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔