نازی فوجیوں کے عشق میں گرفتار ناروے کی لڑکیوں سے ستر سال بعد معافی طلب

فرحین شیخ  اتوار 4 نومبر 2018
وہ عشق جو مجسم شکل میں ان لڑکیوں کے پھولے پیٹوں میں سانسیں لے رہا تھا۔ فوٹو: فائل

وہ عشق جو مجسم شکل میں ان لڑکیوں کے پھولے پیٹوں میں سانسیں لے رہا تھا۔ فوٹو: فائل

 ناروے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ دوسری جنگ عظیم کے ستر سال بعد حکومتی سطح پر اب کس سے معافی طلب کر رہی ہیں؟ وہ کیوں اتنا شرمندہ ہیں؟ آخر یہ کہانی کیا ہے؟

اب تک تو یہی سنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کی کہانی صرف اور صرف تباہی اور بربادی کے ابواب پر مشتمل ہے لیکن اب یہ جان کر کتنی آنکھیں حیرت سے پھیلیں گی کہ توپوں کی گھن گرج اور بارود کی بو میں ناروے کی لڑکیاں ہر بھیانک انجام سے بے فکر نازی فوجیوں سے اپنے جذبۂ عشق کی تاریخ بھی رقم کر رہی تھیں۔

وہ عشق جو مجسم شکل میں ان لڑکیوں کے پھولے پیٹوں میں سانسیں لے رہا تھا۔ عشق اور محبت کے جذبات جب سر چڑھ جائیں تو انسان واقعی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ محبت کرنے والے جسم تو فنا ہوجاتے ہیں لیکن ان کی داستانیں امر ہو جاتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے ہیبت ناک اور تاریخی معرکے میں اگر کسی نے شکست نہ کھائی تو وہ نازی فوجیوں سے ناروے کی بے شمار لڑکیوں کا یہی عشق تو تھا۔ اسی جذبۂ عشق میں وہ بین الاقوامی سیاست کے گُروں سے یکسر لاتعلق نازی فوجیوں کے کبھی ناروے سے نہ جانے کی دعا کرتی ہوں گی لیکن اس دن کو آنا تھا سو آگیا۔

نازی فوجی رخصت کیا ہوئے ان لڑکیوں کو دشمن فوجیوں سے دل لگانے کے جرم کی سزا بہت بری طرح دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ان لڑکیوں کی تعداد تیس سے پچاس ہزار کے درمیان تھی، جن کو نہ صرف ناروے کی شناخت سے محروم کرکے ’’جرمن لڑکیوں‘‘ کا خطاب دیا گیا، بلکہ ان میں سو جو ملازمت کر رہی تھیں انھیں نوکری سے بھی نکال دیا گیا۔

جھوٹے مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ڈالا گیا اور بالآخر شہریت واپس لے کر جرمنی کی سرحد پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مشتعل ہجوموں نے ان لڑکیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کا سر مونڈا اور سڑکوں پر گھسیٹا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے نازی فوجیوں کے بچوں کو بھی نہ چھوڑا بلکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی امراض کے اسپتالوں کے حوالے کردیا جہاں وہ انتہائی زیادتیوں کا شکار بنائے گئے۔

ناروے کی وزیراعظم نے یہ معذرتی بیان انسانی حقوق کے عالمی معاہدے کی سترہویں سال گرہ کے موقع پر دیا۔ ناروے کی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’’بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک ٹین ایج محبت تھی، بہت سوں کے لیے ایک معصومانہ سا فلرٹ اور بہت سوں کے لیے ان کی پوری زندگی تھی، آج میں ناروے حکومت کی طرف سے اس بے رحمانہ سلوک پر معافی طلب کرتی ہوں۔ ساتھ انہوں نے تسلیم کیا کہ نارویجین حکومت نے بغیر کسی قانون اور اصول کے ان لڑکیوں کو بھیانک سزا دی۔

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نازیوں کے1935 شروع کیے گئے ایک Lebensborn Program کا مقصد جرمن نسل تیزی سے بڑھانا تھا۔ اس پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں Lebensborn Houses قائم کیے گئے جہاں حاملہ مقامی عورتیں جرمن بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ ناروے میں1941میں یہ گھر بنائے گئے جہاں مقامی لڑکیوں نے نازی فوجیوں کے تقریباً بارہ ہزار بچے پیدا کیے۔ یہ تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ جنگ کے خاتمے پر نازی افواج نے ان Lebonsborn housesکی موجودگی کے سارے ثبوت اپنے ہاتھوں ضایع کر دیے۔ نازی فوجی تو یہاں سے رخصت ہوگئے لیکن ناروے نے ان لڑکیوں کو اپنانے سے انکار کردیا۔ ان بے شمار بے گھر لڑکیوں کے سر پر سویڈن کی حکومت نے ہاتھ رکھا ، یوں وہ ناروے سے ہجرت کرگئیں۔

ناروے کے قانون کے مطابق مقامی لڑکیوں کے نازی فوجیوں سے تعلقات اگرچہ ناجائز نہ تھے لیکن پھر بھی ان ’’جرمن لڑکیوں‘‘ کے ساتھ کسی مجرم کی طرح سلوک کیا گیا۔ آج جنگ کے ستر سال بعد ناروے حکومت کی طرف سے اظہارشرمندگی اور مانگی جانے والی معافی کو سننے کے لیے ان میں سے بے شمار لڑکیاں زندہ نہ ہوں گی، لیکن بچوں تک یہ آواز ضرور پہنچے گی۔ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے مسائل اور تجربات شیئر کرنے کے لیے 2006 میں جرمنی میں جمع ہوئی۔

ان میں کچھ بچے وہ تھے جن پر جوان ہو کر یہ راز آشکار ہوا کہ ان کی پیدائش کسیLebensborn house میں ہوئی تھی، بہت سے بچے اپنی اس شناخت پر شرمندہ تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جن کے لیے ان کے باپ کا نام معلوم نہ ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی ان کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ان کی رگوں میں کسی اعلٰی نسل کا خون گردش کر رہا ہے اور وہ اپنے حال پر مطمئن تھے۔

گو کہ اس المیے کو ستر سال بیت گئے، ارنا سولبرگ کی اس معافی سے اگرچہ اس بڑے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی جو ان عورتوں اور بچوں نے اٹھایا، البتہ اتنا ضرور ہوگا کہ بنیادی انسانی حقوق کے احترام کی اہمیت مزید اجاگر ہوجائے گی۔ اس وقت بھی دنیا کے ہر خطے میں جنگ کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ نامعلوم کتنی لڑکیاں ان شعلوں سے محبت کے دیپ جلا تی ہوں گی اور کتنے فوجی محاذ پر عشق کی گرمی سے دلوں کی ڈھارس باندھتے ہوں گے۔

لیکن دعا ہے کہ اب کی بار جہاں بھی وقت امن کا پیام بر بن کر آئے تو یہ امن مقامی لڑکیوں کے جذبہ محبت کے لیے بھی شجرِ سایہ دار بن جائے اور اس طوفانی جذبے کی جو بھیانک سزا ناروے کی لڑکیوں نے بھگتی وہ اب کسی لڑکی کا مقدر نہ بنے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔