آئرلینڈ میں دریافت ہونے والی آٹھ سو بچوں کی باقیات کا راز کیا ہے؟

فرحین شیخ  اتوار 4 نومبر 2018
چرچ کی بالادستی پر مسلسل انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

چرچ کی بالادستی پر مسلسل انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

زیرزمین آٹھ سو بچوں کی باقیات کا انکشاف آئرلینڈ کی جدید تاریخ کا ایک شرم ناک باب ہے۔ یوں تو ’’توام بچوں‘‘ کا یہ اسکینڈل گزرے ہوئے چند سال منظر عام پر لا چکے ہیں لیکن اب آئرش حکومت نے اس جگہ کی کھدائی اور فرانزک معائنے کا بھی حکم جاری کردیا ہے۔

آئرلینڈ کے قصبے توام میں چرچ کی نگرانی میں چلنے والے یتیم خانے کے نیچے موجود سترہ چیمبروں سے بڑے پیمانے پر انسانی باقیات کی موجودگی کے امکان پر آئرلینڈ میں کہرام مچ گیا ہے۔ کئی سال گزرنے کے باوجود بھی یہ معاملہ گرم ہے، چرچ کی بالادستی پر مسلسل انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ رواں ہفتے آئرش حکومت نے حقائق منظر عام پر لانے کے لیے اس جگہ کی کھدائی کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

2014 میں یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب ایک مقامی مورخ کیتھرین کورلیس نے یتیم خانے کا وہ ریکارڈ حاصل کیا جس میں796بچوں کی اموات کے سرٹیفیکیٹ موجود تھے، لیکن ان کی قبروں کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ یہاں سے ملنے والی کچھ باقیات کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ ان کی عمریں پینتیس ہفتوں سے لے کر تین سال کے درمیان تھیں، جن میں سے صرف ایک کی تدفین کا ریکارڈ موجود ہے، باقی بچوں کو آخر کہاں اور کیسے ٹھکانے لگایا گیا؟ 2015 میں آئرش حکومت نے نہ صرف اس ضمن میں تحقیقات شروع کردیں کہ ان بچوں کی موت کے بعد لاشیں کہاں گئیں تو ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے کہ یہ مدر اینڈ بے بی ہوم کس قاعدے اور طریقے کے مطابق چلایا جاتا تھا؟

توام کا یہ مدر اینڈ بے بی ہوم 1920میں قائم کیا گیا ۔ یہ ہوم sisters  Bon Secours کے زیر انتظام تھا جو ایک کیتھولک خیراتی ادارہ ہے۔ یہ وہ دور تھا جب آئرلینڈ میں بن نکاحی عورتوں کا ماں بننا ایک ٹیبو تھا۔ ایسی لڑکیوں کو ان کے گھر والے قبول کرنے سے انکار کردیتے اور وہ چار وناچار ان ہومز میں پناہ حاصل کرتیں، جہاں ان کو قیدیوں کی طرح رکھا جاتا۔

1960میں توام کا یہ یتیم خانہ بند کردیا گیا، جس کو بعد میں مسمار کر کے یہاں کھیل کا میدان بنادیا گیا اور دوسری تعمیرات کردی گئیں۔ اس کے قیام کے عرصے میں پینتیس ہزار حاملہ لڑکیوں نے یہاں پناہ حاصل کی، جن کے بطن سے جنم لینے والے اکثر بچے غذائی اور خون کی کمی یا کسی اور بیماری کا شکار ہو کر مر بھی جاتے تھے۔ ان بچوں کو مذہبی روایات کے مطابق باوقار طریقے سے دفن کر نے بجائے Septic Tanks میں ڈال دیا جاتا تھا جہاں کچھ عرصے میں ان کے جسم گل سڑ کے ختم ہوجاتے۔

اس مدر اینڈ بے بی ہوم کی شرم ناک تاریخ صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور دردناک رخ بھی ہے اور وہ ہے یہ کہ یہاں پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ماؤں سے زبردستی الگ کرکے بے اولاد جوڑوں کو گود دے دیا جاتا تھا۔ جے پی روجر، توام کے اسی ہوم میں پیدا ہوئے انہوں نے ماں اور بچوں کو جبراً الگ کرنے کے المیے پر دو کتابیں بھی تحریر کیں، جس درد سے گزر کر وہ جوان ہوئے، اسے جب انہوں نے لفظوں میں ڈھالا تو ہر حساس ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بچوں کو ماؤں سے محروم کردینا یقیناً انسانی اقدار کے خلاف ایک بڑا جرم تھا جو کلیسا کی سرپرستی میں دھڑلے سے کیا جاتا رہا۔

آئرلینڈ کی بچوں کے حقوق کی وزیر کیتھرین زیپون نے اس ایشو کو بہترین طور پر اٹھایا اور پوپ فرانسس سے بھی ملاقات کی۔ کلیسا نے نہ صرف اس معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی بلکہ اس جگہ کی کھدائی کے لیے ڈھائی ملین یورو کی رقم کی پیشکش بھی کی ہے۔ آئرلینڈ حکومت کے مطابق یہ ایک غیرمفاہمانہ اور غیرمشروط تعاون ہے۔

توام کا یتیم خانہ اس قدر وسیع رقبے پر محیط تھا کہ اس کی کھدائی کے لیے چھے سے تیرہ ملین یورو کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ چرچ کو اپنی غلطی کے خمیازے کو طور پر کھدائی کا سارا خرچ برداشت کرنا چاہیے تاکہ کھدائی کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو اور اس کے نیچے موجود بچوں کی باقیات کو قابل تکریم طریقے سے دفن کیا جاسکے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے سال کے پہلے ہی مہینے میں یہاں کی کھدائی شروع کر دی جائے گی۔ مورخین کا خیال ہے کہ بہت ممکن ہے کہ کھدائی کے بعد یہاں سے ملنے والی بچوں کی لاشوں کا فرداً فرداً معائنہ، مستقبل میں بہت سے دوسرے رازوں سے بھی پردہ اٹھا دے جن سے ہم اب تک لاعلم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔