اُف یہ تنہائی۔۔۔

محمد عثمان جامعی  اتوار 4 نومبر 2018
ملزم شرف کا کہنا ہے کہ اس نے تنہائی سے تنگ آکر پولیس کو بار بار فون کیا۔ فوٹو: فائل

ملزم شرف کا کہنا ہے کہ اس نے تنہائی سے تنگ آکر پولیس کو بار بار فون کیا۔ فوٹو: فائل

ترکی میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جو روزانہ پولیس کو سیکڑوں مرتبہ فون کرتا تھا اور پورے سال اس نے 45 ہزار 210 بار محکمے کو فون کرکے پریشان کیا اور پولیس کا کا وقت ضائع کیا۔

پچپن سالہ شرف جان استنبول کے قریبی ضلع بہرام پاشا کا رہائشی ہے اور ایک عرصے سے تنہا رہ رہا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک دن میں کم ازکم 100 مرتبہ پولیس کو فون کیا اور 15 مئی 2017 سے 15 مئی 2018 تک مسلسل ایک ہی نمبر سے 45 ہزار سے زائد مرتبہ پولیس کو فون کیا۔ اُس نے نہ کوئی مدد طلب کی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی شکایت کی۔

شکایت درج کرانے کی بجائے وہ لائن پر موجود افسر سے باتیں کرنے لگتا۔ گفتگو کو طول دینا اس کا معمول تھا۔ بار بار اس رویّے کے بعد پولیس نے اس شخص کو فضول کال کرنے والا عادی شخص قرار دے دیا۔ اس شخص پر استنبول کی عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا ہے اور اسے پانچ برس کی سزا ہوسکتی ہے۔

ملزم شرف کا کہنا ہے کہ اس نے تنہائی سے تنگ آکر پولیس کو بار بار فون کیا۔ اس نے بتایا کہ دو سال قبل طلاق کے بعد اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی، اس لیے وہ شراب نوشی کا عادی ہوچکا ہے اور ذہنی تناؤ سے بچنے کے لیے کال کرتا ہے۔

خدایا! کیا تنہائی ہوگی جس نے ایک شخص کو پولیس والوں سے گفتگو پر مجبور کردیا۔ لگتا ہے شرف صاحب بہت ہی شریف ہیں، ورنہ پولیس ہی کیوں ’’مقامات آہ وفغاں‘‘ اور بھی ہوسکتے تھے۔ بہ الفاظ دیگر وہ اپنی آہ وفغاں کے لیے مستورات سے رجوع کرسکتے تھے۔ لیکن شاید انھیں ’’ہراساں‘‘ کیے جانے کے الزام سے دوچار ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے اکیلاپن دور کرنے کی خاطر خاتون کے بہ جائے قانون کا سہارا لیا۔ ممکن ہے انھوں نے اپنی سی کوشش بھی کی ہو اور خواتین کو فون کرکے کچھ کہنا سُننا چاہا ہو، لیکن دوسری طرف سے کچھ سُنے بغیر کھری کھری اور بے نقط سنادی گئی ہوں، ساتھ ہی کہا گیا ہو ’’گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں‘‘ جس کے جواب میں شریف النفس شرف صاحب روہانسے ہوکر بولے ہوں گے’’یہی تو مسئلہ ہے گھر میں کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘

اب پتا نہیں کہ شرف جان کو سزا دلوانے کے لیے پر کون سی دفعہ لاگو کی جائے گی، اگر ان کی پہلی ہی کال کے جواب میں ’’دفع دور‘‘ کہہ دیا جاتا تو کوئی دفعہ لگانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ شاید ان پر پولیس کو چھیڑنے کا الزام لگاکر اندر کردیا جائے گا۔

ایک زمانے میں ہمارے ہاں محکمۂ پولیس کا اشتہار آتا تھا ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ پاکستانیوں نے تو اس دعوے پر کبھی اعتبار نہ کیا، کیوں کہ عملاً ہماری پولیس کو اپنے فرض سے کوئی غرض نہیں، اس کی مدد کی قیمت چکانے کے لیے سائل کو قرض لینا پڑتا ہے، ممکن ہے ترکی میں بھی کوئی ایسا اشتہار چلتا ہو اور بھولے بھالے شرف صاحب نے اس پر اعتبار کرلیا ہو، وہ یہی سمجھے ہوں کہ پولیس مجرموں کے پکڑنے کے ساتھ تنہائی دور کرنے کے فریضے پر بھی معمور ہے۔

بہ ہر حال ان کی کوششیں رنگ لائی ہیں، اب کم ازکم پانچ سال کے لیے وہ اپنے اکیلے پن سے نجات حاصل کرلیں گے۔چلیے شرف جان تو تنہائی اور فراغت سے مجبور ہوکر طویل گفتگو فرماتے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے فون پر مصروف گفتگو رہنے والے پولیس افسروں کو اتنی فرصت کیسے میسر آئی؟ ہم سوچ رہے ہیں کہ تُرکی کی پولیس کتنی اچھی ہے کہ لوگوں کی سُن لیتی ہے بلکہ سُنے ہی چلی جاتی ہے۔

اگر ہماری پولیس سے کوئی شرف جان یوں فون پر رابطہ کرکے اپنی سُنانا چاہے تو اسے وہ وہ سُنائی جائیں گی کہ شرف انسانیت جاتا رہے گا اور جان پر بن آئے گی۔ چناں چہ پاکستانی ’’اکیلوں‘‘ میں تُرک پولیس کا رویہ دیکھ کر پاکستانی پولیس کو فون کرنے کی خواہش جاگی ہو تو اسے فی الفور تَرک کردیں، ورنہ تنہائی کے اٹھتے ہول نے پولیس سے بولنے پر مجبور کیا تو بات چھترول تک جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔