موجودہ حکومت سے پنشنرز کا گلہ…؟

رئیس فاطمہ  بدھ 19 جون 2013

ایک طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ناک میں دم کر رکھا ہے تو دوسری طرف آئے دن کی سی این جی کی بندش نے۔ اوپر سے گرمی کا قہر انسانوں کو دوزخ کی گرمی کا احساس دلارہا ہے۔ رہی سہی کسر بجٹ نے پوری کردی۔ نزلہ ہمیشہ عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے۔سواس بار بھی ہمیشہ کی طرح ’’عوام کو کڑوی گولی نگلنے‘‘ کا پرانا ریکارڈ سنوا دیا گیا۔تنخواہ دار طبقے کو گویا آرا مشین میں رکھ کر دبا دیا گیا ہے۔ پنشنرز کی ہاہاکار الگ مچی ہے۔ ان کا گلہ بالکل بجا ہے کہ پچھلی حکومت نے اپنے حاشیہ برداروں کو بے پناہ فائدہ پہنچانے کے لیے تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیا تھا۔ جس کا فائدہ دوسرے سرکاری ملازمین کو بھی پہنچا۔

ہاں تو ذکر ہورہا تھا ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری ملازمین کا جن کی پنشن اور تنخواہوں میں اس دفعہ دس فیصد اضافہ کرکے حاتم کی قبر پر لات ماری گئی اور ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ والی کہاوت کو حقیقت کا روپ دے دیا گیا۔ نوازشریف کی آخری حکومت نے پنشن میں 40 فیصد اضافہ کیا تھا پھر جنرل مشرف آگئے اور دوسال تک پنشن میں اضافہ نہیں ہوا، اس کے بعد 7 تا 8 فی صد ہوا اور پھر آنے والی سویلین حکومت نے پنشن میں صرف 15 فی صد اضافہ کیا جب کہ تنخواہوں میں اضافہ 20 فی صد ہی رہا۔آج بھی صورت حال دگرگوں ہے۔

پنشنرز کا مطالبہ پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ سابقہ حکومت نے جو ناانصافی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ برتی ہے اس کا تدارک کیا جائے اور وہ اس طرح کہ پہلے مرحلے میں جس تناسب سے سابقہ حکومت نے تنخواہیں بڑھائی تھیں اسی کے تناسب سے مختلف گریڈ کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے۔ اور نئی پنشن فکس کی جائے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جو ملازمین 2005 تک ریٹائر ہوئے ہیں ان کی پنشن بہت کم ہے جب کہ سابقہ حکومت کے دور میں جو ملازمین ریٹائر ہوئے ان کی پنشن کہیں زیادہ ہے۔

اس فرق کو ختم ہونا چاہیے۔ موجودہ وزیر خزانہ کو پنشنرز کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نوٹس لینا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گی۔ وہ یہ کہ سابقہ دور میں حیرت انگیز طور پر تنخواہوں میں جو اضافہ کیا گیا اس کی روشنی میں اگر سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ صفر ہے۔ اس لحاظ سے کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں زوال ہی زوال دکھائی دے گا۔ خواہ ڈاکٹرز ہوں، انجینئرز ہوں، اسکول اور کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہوں یا کسی بھی سرکاری ادارے کے ملازمین ہر جگہ ایک ہی حال ہے۔

پروفیسرز کلاس رومز کے بجائے کوچنگ سینٹروںمیں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ تھانہ انچارج اور ان کا عملہ بازاروں میں بھتہ وصولی میں مصروف رہتا ہے۔ ڈاکٹرز اسپتالوں کے بجائے کہیں اور پائے جاتے ہیں، سرکاری افسران ایئرکنڈیشن کی ٹھنڈک میں دوست احباب سے گپیں لڑاتے ہیں، کمرے کے باہر ان کا مستعد اور چوکس عملہ ہمہ وقت ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘ کہنے کو تیار بیٹھا رہتا ہے کہ ایسے میں وہ بھی کام کرنے سے بچا رہتا ہے۔ اور سارا وقت گٹکا اور پان کی پیک سے سرکاری عمارتوں کو داغ دار کرتا رہتا ہے۔

ہر جگہ اور ہر محکمے میں زوال۔۔۔!!۔۔۔ لیکن احتجاج کے لیے ہمہ وقت تیار۔۔۔!!۔۔۔ اداروں کے انچارج، ہیڈ ماسٹر، پرنسپل، چیئرمین، سب لکیر کے فقیر۔۔۔۔اگر کسی ایمان دار اور محنتی ذمے دار افسر نے تنبیہہ کی، دیر سے آنے پر روک ٹوک کی یا سالانہ خفیہ رپورٹ میں پورا احوال سچ سچ لکھ دیا تو پھر گولی اور گالی اس کا مقدر۔۔۔!!۔۔۔لہٰذا سب نے آنکھیں بند کرلی ہیں صرف تنخواہوں میں اضافے کے لیے ضرورت مند ہوجاتے ہیں تاکہ احتجاج کرکے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں۔

لیکن اگر ان نام نہاد لیڈروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ صرف یونین سازی اور مال بنانے میں مصروف رہتے ہیں کہ اعلیٰ حکام کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کاش! ایک بار اگر وہ پچھلی حکومت کی بڑھائی ہوئی بھاری بھرکم تنخواہوں کے تناظر میں اپنی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو وہ زیرو نظر آئے گی۔ صرف دو فیصد سرکاری ملازمین کسی بھی شعبے میں ایسے ملیں گے جو ’’حلال کی روزی‘‘ کھا رہے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ اس پاکستانی سوسائٹی میں مس فٹ ہیں۔

یہاں وہ کامیاب ہیں جو صبح گیارہ بجے کے بعد دفتر آتے ہیں۔ دوپہر میں نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن نماز کے لمبے وقفے کے لیے ضرور جاتے ہیں۔ اور بیشتر پھر واپس دفتر نہیں آتے۔ چپراسی سے لے کر افسر تک۔۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ انکم ٹیکس بھی سب سے زیادہ یہی تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہر ماہ انکم ٹیکس سرکار خود کاٹ لیتی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ حکومت نے اس بار بھی بڑے بڑے مگرمچھوں کی طرف سے آنکھیں بند کرتے ہوئے سارا نزلہ عوام پر جی ایس ٹی کے اضافے کی صورت میں ڈال دیا ہے۔ آپ نے تنخواہیں اور پنشن صرف10 فیصد بڑھائیں۔ لیکن جی ایس ٹی لگا کر ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ والی کہاوت کو زندہ کردیا گیا۔

پاکستانی قوم کتنی بد نصیب ہے کہ اسے ہمیشہ نمائشی لیڈر ہی نصیب ہوئے ہیں ، جنھیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سب برابر دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر مسئلے کو چٹکی بجاکر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اقتدار سے باہر رہنے کے دنوں میں ان سب کے پاس کوئی جادوئی چھڑی یا الٰہ دین کا چراغ آجاتا ہے۔ اور یہ تماشے لگاکر اور ڈھول گلوں میں فٹ کرکے عوام کر ’’ہرمصیبت‘‘ سے چھٹکارے کی نوید دیتے ہیں۔ پھر ڈور ہلانے والوں کے دست شفقت کی وجہ سے انھیں جب سمپل میجورٹی مل جاتی ہے تو وہ اپنی باری پوری کرنے کے لیے ان کے آگے سر جھکادیتے ہیں جو سفید محل کے چہیتے ہوتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے پسندیدہ ہوتے ہیں اور وہ جادو کی چھڑی اور الہ دین کا چراغ جو اپوزیشن میں ہونے کے دنوں میں ان کے قبضے میں تھا۔ وہ اچانک ان کی جیبوں سے نکل کر دوبارہ نئی اپوزیشن کے پاس چلا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام کے مسائل حل کرنے کی جادو کی چھڑی صرف اپوزیشن کے پاس ہوتی ہے۔ ہر بار سو جوتے اور سو پیاز۔۔۔۔یہی عوام کا مقدر ہے۔

ٹیکس تو آمدنی پر دنیا بھر میں لیا جاتا ہے لیکن اس کے عوض جو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ان کا معیار اتنا اعلیٰ ہوتا ہے کہ اس کا تصور پاکستان میں تو ممکن ہی نہیں۔البتہ یہاں ان تمام ٹیکس چوروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ جو بڑی بڑی رقومات دے کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ اور پہلے ہی سال میں اتنا کما لیتے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں اپنے خاندان بھر کو اسمبلیوں میں بٹھانے کے لیے کئی گنا رقم جمع کرلیں گے۔ عوام کی فلاح کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے کبھی ان مگر مچھوں کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لاسکتے۔ جو ان کے دوست احباب، رشتے دار سسرالی اور عزیز اور سمدھیانے والے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو بینکوں سے اربوں کے قرضے معاف کرالیتے ہیں ۔ یہ کھاؤ قبیلہ ہے جو پاکستان بننے کے بعد وجود میں آیا ہے یہ سب ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیںکیونکہ بظاہر یہ مختلف پارٹیوں میں ہوتے ہیںلیکن اندر سے ایک دوسرے سے انگلیوں کی طرح جڑے ہوتے ہیں جو بظاہر دور دور نظر آتی ہیں لیکن مٹھی بند ہونے پر ایک ہوجاتی ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے۔ سو ہم اسی طرف آتے ہیں۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ نہ ان کی کوئی یونین ہے نہ پلیٹ فارم جس پر آکر وہ اپنا احتجاج درج کرواسکیں۔ بڑھتی ہوئی ہوش ربا مہنگائی اور GST کے ’’مدبرانہ اور ماہرانہ‘‘ نفاذ کے بعد ان کی زندگی اور مشکل ہوگئی ہے۔ کاش! موجودہ وزیر خزانہ پنشنرز کی فریاد سنیں کہ وہ تو احتجاج بھی نہیں کرتے، صرف صبر کرتے ہیں۔ پنشنرز کی پنشن میں پچاس فی صد اضافہ کیا جائے تاکہ وہ کسی حد تک ان خوش نصیب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے قریب پہنچ سکیں جن کی تنخواہیں پی پی کے دور میں بڑھائی گئیں۔ لیکن افسوس کہ پچھلی حکومت نے بھی کبھی پنشنرز کی تکالیف اور ناانصافی کی طرف توجہ نہ دی۔ کیا موجودہ حکومت اس زیادتی کا کچھ تدارک کرے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔