ہمہ جہت اقبال، اور ڈاکٹر جمال نقوی ایک نظر میں

نسیم انجم  اتوار 4 نومبر 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر جمال نقوی نے جتنا علمی و ادبی کام کیا ہے وہ ’امن‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ بہت اچھے شاعر ہیں، ادیب ہیں، اعلیٰ درجے کے مترجم ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے فعال رکن ہیں۔ بہت اچھے اخلاق کے مالک ہیں، انکساری و شگفتگی ان کے مزاج کا حصہ ہے، ان کا انداز گفتگو بے حد نرم اور مہذبانہ ہے۔

شائستہ مزاج اور کام اور کام پر یقین رکھنے والے ڈاکٹر جمال نقوی ادبی دنیا میں اہم مقام ہے اور ان کا نام اور کام قابل اعتبار بن چکا ہے۔ میں ترازو کے دونوں پلڑوں میں ان کی کتابوں کو جو مختلف موضوعات پر ہیں، انھیں رکھنا اور تولنا چاہتی ہوں کہ یہ کتابیں وزن کے اعتبار سے بھاری ہیں یا معیار کے اعتبار سے وزنی ہیں۔ ایک پلڑے میں معیار ہے تو دوسرے میں وزن!

تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ادب کی منڈی میں تخلیقات اور تعلقات کس بھاؤ بک رہے ہیں لیکن ایک بات کہتی چلوں کہ زمانہ کچھ نہ کہے، نقاد خاموش رہیں، اقربا پروری اور متعصبانہ رویہ کاغذ اور سماعتوں سے ٹکرائے۔ اس کے برعکس تحریر بولتی ہے، جگہ بناتی ہے اور سچ کا سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے اور پھر سچ کی تپش قلم کاروں کو بولنے، پڑھنے لکھنے کی طرف رغبت دلاتی ہے، جس طرح میرے ہاتھ میں قلم ہے اور قرطاس پر صداقتوں کے دیے روشن کر رہا ہے۔

ڈاکٹر جمال نقوی نے اپنی پوری عمر علم و ادب کی خدمت میں گزاری ہے، دامے، درمے، سخنے اپنے حصے کی فصل سینچی ہے، تب کہیں جاکر پھول کھلے ہیں اور خوشبو نے باغ ادب کو مسحور کیا ہے۔ آپ نے چالیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں ان کی تحریروں کا سات زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور انھوں نے خود بھی مختلف ممالک کی کہانیوں اور افسانوں کا ترجمہ کیا ہے۔ انھی زبانوں میں ہندی، جاپانی، سندھی، روسی، فارسی اور انگریزی زبانیں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی خدمات پر ایران، کینیڈا، نیپال، ہندوستان و پاکستان اور امریکا و قازقستان میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں مقالات پیش کیے اور اعزازات اور انعامات وصول کیے۔

چند ہی ماہ گزرے ہیں جب انھوں نے مجھے اپنی کتاب ’نئے دن کی بشارت‘ مرحمت فرمائی، جیسا کتاب کا نام ویسا ہی دل فریب ٹائٹل تھا۔ ڈرائنگ روم کی سجاوٹ میں بھی اضافہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پھولوں بھری وادی دل و نظر کو شادابی بخشتی ہے۔ نئے دن کی بشارت، نظموں، غزلوں، گیت اور ہائیکو کے اصنافِ سخن سے مرصع ہے۔

ڈاکٹر جمال نقوی نے کتاب کے پیش لفظ میں اپنے خیالات کو اس طرح رقم کیا ہے کہ ’اقبال جیسے شاعر کبیر، عالم و مدبر، بے نظیر کی شخصیت و فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف گوشوں پر لکھا جاتا رہے گا۔ میں اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اس عظیم شخصیت اور اس کے فکر و فن کے بارے میں بطور خراج عقیدت مندان اقبال کی بزم میں ایک مختصر سا تحفہ، ہمہ جہت اقبال کے نام سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔‘ (گر قبول اُفتد زہے عز و شرف)

نوبل پرائز یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے علامہ کو خراج تحسین اس انداز میں پیش کیا ہے کہ:

’سر محمد اقبال کی وفات نے دنیائے ادب میں ایک ایسا خلا پیدا کردیا ہے جس کو پُر کرنا عرصۂ دراز تک ناممکن ہوگا۔ ایک ایسے شاعر کے وجود سے محرومی جس کے فن کو آفاقی شہرت حاصل تھی، بہت مشکل سے برداشت کی جائے گی۔‘

جامعہ کیمبرج کے پروفیسر اے آر نکلسن نے اقبال کی علمیت کا اظہار اس انداز میں کیا کہ:

’انھوں نے خود اپنی فکر و ذہن سے ایک مخصوص صنف، فلسفہ کی بنیاد ڈالی اور وہ بلند پایۂ شاعر بھی ہیں۔‘

مذکورہ کتاب 96 صفحات اور 114 ابواب پر مشتمل ہے اور دیباچہ نگار ڈاکٹر منظور احمد لکھتے ہیں کہ: ’یہ کتاب تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، جن پر اقبال نے قلم اٹھایا ہے۔ کون سا ایسا موضوع ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل سے متعلق ہو اور اقبال کے احاطہ کلام سے باہر رہ گیا ہو، ان کا ایک جائزہ اس مختصر سی کتاب میں پیش کردیا گیا ہے۔‘

ڈاکٹر نقوی نے کتاب کے پہلے باب ’ہمہ جہت اقبال‘ میں علامہ اقبال کے افکار عالیہ اور احترام آدمیت کا تذکرہ بے حد نفاست اور عرق ریزی کے ساتھ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’اقبال کا عظمت آدمی کا تصور محض جذباتی قسم کا تصور نہیں ہے بلکہ ایک گہرا اور رچا ہوا تصور ہے۔‘

ڈاکٹر جمال نقوی کی تحریریں علم و آگہی اور وسعت قلب و نظر سے مزین ہیں۔ انھوں نے بال جبریل کے ابتدائی صفحے پر ہندوستان کے مشہور شاعر بھرتری ہری کے اس شاعر کی وضاحت بڑی مدلل انداز میں کی ہے:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

علامہ اقبال بھرتری ہری کی بے حد قدر کرتے اور ان سے جب ملاقات ہوتی تو وہ احتراماً کھڑے ہوجاتے۔

غرض مذکورہ مضمون میں مصنف نے نہایت خلوص و عقیدت کے ساتھ اقبال کے فکر و فن پر روشنی ڈالی ہے اور اہل قلم، اہل دانش کی آرا کو بھی شامل تحریر کیا ہے۔ ’پاک پیر، اور مرید ہندی‘ یہ مضمون کا عنوان ہے۔ مصنف نے اس بات سے قارئین کو آگاہ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو علامہ اقبال سے عقیدت و محبت اپنے والد تلوک چند محروم سے ورثے میں ملی لیکن افسوس کی بات یہ تھی کہ اپنے پسندیدہ اور قابل احترام شاعر سے ملاقات نہ ہوسکی نہ ہی وہ اقبال کے سفر آخرت کے موقع پر تشریف لے جاسکے لہٰذا انھوں نے اپنے والہانہ عقیدت و خلوص کا اظہار اپنی شاعری میں ’ماتمِ اقبال‘ کے عنوان سے کیا۔

علامہ اقبال سے محبت اور قدر دانی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے خراج عقیدت کو اپنے ابتدائی مجموعہ کلام’بے کراں‘ میں شامل کیا اسی طرح دوسرے شعری مجموعے ’ستاروں سے ذروں تک‘ میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت نمایاں ہے۔ اقبال کے فن و فکر کے اعتبار سے جگن ناتھ آزاد کی 11 کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ علامہ کے عقیدت مندوں میں جگن ناتھ آزاد کا بلند مقام ہے۔ ’نظم نگاری کے عروج میں اقبال کا کردار‘ اس عنوان کے تحت جو تحریر ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ ہے مصنف کا انداز بیان کہ کس طرح انھوں نے نظمیہ شاعری کا انتخاب کیا اور وجہ تخلیق سے بھی آشکار کیا کہ کن حالات کے تحت نظمیہ شاعری کا ظہور ہوا۔

طرابلس کی جنگ میں زخمیوں کو پانی پلانے والی فاطمہ بنت عبداللہ کی مجاہدانہ روش اور شہادت کے واقعے کو علامہ اقبال نے شاعری کا دلآویز ایسا پیراہن عطا کیا ہے کہ جس میں آنسوؤں کی نمی اور عقیدت کی روشنی پنہاں ہے۔ علامہ اقبال نے حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں اپنے دلی جذبات کو اس طرح پیش کیا ہے:

حضور دہر میں آسودگی نہی ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

وہ چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

ڈاکٹر جمال نقوی نے اسی طرح کی بہت سی نظموں پر خامہ فرمائی کی ہے۔ مثال کے طور پر شکوہ، جواب شکوہ، خضرِ راہ اور طلوعِ اسلام وغیرہ۔

ادب و شاعری، تحقیق و تنقید پر بے شمار کتابیں لکھنے والے جمال نقوی نے مذکورہ کتاب کے تقریباً سب ہی مضامین پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے جو یقینا قابل تحسین ہے۔ میں انھیں علامہ اقبال سے عقیدت اور عشق کے نتیجے میں شایع ہونے والی کتاب ’ہمہ جہت اقبال‘ پر دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

(تقریب اجرا کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔