لوٹ کا مال اور قدموں کے نشان

عبدالقادر حسن  اتوار 4 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں نے بینک فون کیا اور اپنے اکاؤنٹ کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس وقت میرے اکاؤنٹ میں کتنی رقم موجود ہے۔ فون پر مطلوبہ معلومات فراہم کرنے والے نے مجھے میرے اکاؤنٹ کا جو بیلنس بتایا گیا اس کو سن کر مجھے شدید مایوسی ہوئی ۔میں جو کل وقتی اخبار نویس ہوں اور عمر بھر اپنے روزگار کا ذریعہ صحافت کو ہی بنائے رکھا اور کسی اور کاروبار میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کیا البتہ موروثی آبائی زمینوں کا حساب کتاب الگ ہے۔

میرا بینک فون کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات چیک کروں شائد میری بھی قسمت کھل چکی ہو اور میں اس سے بے خبر ہوں، اور ایک اخبار نویس اگر بے خبری میں مارا جائے تو پھر اس کو اخبار نویسی چھوڑ کر کوئی اور پیشہ اختیار کر لینا چاہیے ۔ لیکن ہمارے جیسوں کی ایسی قسمت کہاں کہ ہمارے اکاؤنٹ میں کئی کروڑ یا ارب روپے جمع ہوں بلکہ پیشہ ور اخبار نویسوں کے اکاؤنٹ تو اکثر خالی ہی رہتے ہیں اور ان میں اتنا ہی بمشکل جمع رہتا ہے جس سے یہ اکاؤنٹ چلتا رہے اور بینک کی بنیادی ضرورت پوری ہوتی رہے تا کہ آئندہ ماہ کی تنخواہ اس میں جمع ہو سکے ۔ میرا اکاؤنٹ توویسے بھی ہمیشہ سے کرنٹ اکاؤنٹ ہی رہا ہے جس میں بینک کی جانب سے بھی کوئی منافع وغیرہ جمع نہیں ہوتا۔

بہر حال شدید مایوسی ہوئی اور اسی مایوسی میں اخبار پڑھنے شروع کر دیے ۔ ملک میں ہنگاموں کی خبروں سے گزرتے ہوئے جناب آصف علی زرداری کا انٹرویو نظر سے گزرا جو انھوں نے کسی ٹی وی چینل کو دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر انھوں نے اربوں روپے کسی دودھ والے یامٹھائی والے کے اکاؤنٹ میں جمع کرا بھی دیے ہیں تو ان کی مرضی مگر اس کو ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ اکاؤنٹ میں نے کھلوائے تھے اور ان میں اربوں روپے کی رقم بھی جمع کرائی تھی۔

یہی وہ اصل بات ہے جس کا ذکر زرداری صاحب نے کیا ہے کہ ثبوت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اور لوگ اس قدر ہوشیار اور چالاک ہیں کہ وہ لوٹ کر اپنے قدموں کا سراغ بھی نہیں چھوڑتے اور اتنی صفائی سے لوٹتے ہیں کہ جب خبر ہوتی ہے لوٹ کا مال کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہوتا ہے اور ہم ان لٹیروں کے قدموں کے نشان ہی تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔

آصف زرادی کی بھر پور سیاست کا آغاز محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہو ا اور انھوںنے بروقت ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگاکر ملک کو انارکی سے بچا لیا تھا۔ بینظیر کی شہادت کے بعد ملک کے حالات اتنے بگڑ گئے تھے جن کو کنٹرول کرنے کے لیے دانشمندی کی ضرورت تھی اور اس وقت یہ ضرورت آصف زرداری نے پوری کی ۔ یہ بعد کی باتیں ہیں کہ ملک کی ضرورت پوری کرنے کے بعد وہ حکمران بن گئے اور انھوںنے اپنی ضرورتیں پوری کیں جس کے نتیجے میں آج غریب لوگ بھی امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کے اکاؤنٹ ان کی بے خبری میں بھرے جا چکے ہیں۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ان کو استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ان اکاؤنٹس کاسراغ نیب نے لگایا ہے حالانکہ قانونی طور پر اکاؤنٹ کا مالک وہی ہوتا ہے جس کے نام پر اکاؤنٹ کھولا گیا ہوتا ہے۔ بہر حال دودھ مٹھائی والے جمع خاطر رکھیں ہو سکتا ہے ان کو بھی اپنے نام پر اکاؤنٹ کھولنے والوں کی جانب سے کچھ مل ہی جائے جس کافی الحال تو کوئی امکان نظر نہیں آرہا لیکن پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔

ایک مثبت بات جو اپوزیشن کی جانب سے کی گئی ہے کہ ملک کے امن و امان میں ابتری کی وجہ سے جو حالات بن گئے اس میں اپوزیشن نے حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے بلکہ ایک دن قبل بھی آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کھل کر حکومت کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم کب تک ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اور ایک دوسرے کو ملعون کرنے کی سیاست کرتے رہیں گے اب ماضی کی ان روشوں کو چھوڑ کر موجودہ زمانے کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تا کہ ملک ترقی کرے، جس سے سیاسی جماعتیں بھی پھلیں پھولیں گی اور عوام بھی خوشحال ہوں گے۔

زرداری نے حکومت سے مل جل کر چلنے کا اعلان کیا ۔ یار لوگ تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ آصف زرداری کو گرم ہوا محسوس ہو رہی ہے اس لیے انھوںنے حکومت کے ساتھ دست تعاون بڑ ھانے کا اعلان کیا ہے ۔ اگر یہ بات سچ بھی ہے تو دوسرے طرف یہ بھی بالکل واضح نظر آرہا ہے کہ ہماری عدلیہ کسی بھی بدعنوانی سے صرف نظر کو تیار نہیں اور اس کے لیے گھوڑے گدھے سب برابر ہیں چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے سب کو کٹہرے میں طلب کیا جارہا ہے اور جس کے ذمے اس ملک کا جو کچھ بنتا ہے پہلے مرحلے میں اس کا تعین کیا جارہا ہے اور پھر اس کے بعد وصولی کا مشکل مرحلہ شروع ہو گا اور ہم سب دیکھیں گے کس کے پاس لوٹ کا کتنا مال موجود ہے ۔

آصف علی زرداری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان پر الزامات لگا کر ان کو گرفتار کرنے کے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں وہ تو خود یہی چاہتے ہیں کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے تاکہ پنجاب میں وہ ایک بار پھر مقبولیت حاصل کر سکیں۔ ایک جماندرو سیاستدان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے تا کہ وہ قید سے رہائی کے بعد ایک بار پھر نئے سرے سے اپنی سیاست کا آغاز کر سکے کیونکہ اس کے پچھلے گناہ تو اس کی قید کے ساتھ ہی معاف ہو جاتے ہیں اس لیے سیاستدان اپنے لیے قید کو غنیمت سمجھتے ہیں اور قید کے بعد دھل دھلا کر عوام کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اپنی مظلومیت کا رونا رو کر ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ۔

بہر حال میں انتظار میں ہوں اور ایک موہوم سی امید پر اپنے بینک اکاؤنٹ کو بار بار چیک کرتا رہوں گا کہ شائد میری قسمت بھی بدل جائے اور کوئی انجانے میں ہی میرے اکاؤنٹ کو بھر دے اور میں باقی ماندہ زندگی عیاشی سے گزار سکوں کیونکہ اگر میرے اکاؤنٹ میں بھاری رقم جمع ہو گئی تو مجھ سے اس کی واپسی مشکل ہی ہوگی۔ یہ کالم ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو کسی کے اکاؤنٹ میں اپنی رقم جمع کرانا چاہتے ہیں وہ مجھ سے بھی اس کارخیر کے لیے رابطہ کر سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔