کرکٹرز سیلفیز سے بھی ڈرنے لگے

سلیم خالق  اتوار 4 نومبر 2018
’’ایسا نہ کرو میں آپ کو جانتا نہیں، کل کو کوئی مشکوک شخص نکل آئے تو میرے لیے مسئلہ بن جائے گا‘‘۔ فوٹو: فائل

’’ایسا نہ کرو میں آپ کو جانتا نہیں، کل کو کوئی مشکوک شخص نکل آئے تو میرے لیے مسئلہ بن جائے گا‘‘۔ فوٹو: فائل

شہر کراچی میں سناٹا چھایا ہوا تھا، جگہ جگہ دھرنوں کی وجہ سے ٹریفک کا بھی بڑا مسئلہ تھا، ایسے میں رات گئے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی دبئی کی فلائٹ کینسل کرا کے ٹیسٹ میچز میں چلا جاؤں گا، میں نے جب اپنے بھائی سے یہ بات کہی تو وہ کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں میں صبح صبح ایئرپورٹ چھوڑ آؤں گا، اس وقت سب ٹھیک ہوگا۔

خیرگھوم گھما کر کئی گھنٹے قبل ایئرپورٹ پہنچا اور پھر امارات ایئرلائنز کی فلائٹ سے دبئی بھی آ گیا، یہاں اپنا ایکریڈیشن کارڈ وصول کیا اورچند گھنٹے بعد اسٹیڈیم چلاگیا،جمعے کی تعطیل کے سبب شائقین کی بڑی تعداد آرہی تھی، سٹرک کے کونے میں قطاریں بنائے بڑے نظم و ضبط کے ساتھ لوگ اندر جا رہے تھے۔

امارات میں قانون پر مکمل عمل درآمد کی وجہ سے لوگ ڈرتے ہیں، شرطے (پولیس) کا نام سن کر سب سیدھے ہو جاتے ہیں، اسی لیے آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ دبئی اسٹیڈیم میں کراؤڈ نے ہنگامہ کر دیا، اسٹیڈیم مکمل بھرا ہوا تو نہیں تھا لیکن شائقین کی مناسب تعداد موجود تھی، میں نے پہلے بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یو اے ای میں بہت زیادہ کرکٹ کی وجہ سے اب لوگوں کا جوش وخروش کم ہونے لگا ہے، یہاں زیادہ تر لوگ روزگار کیلیے آئے ہوئے ہیں، وہ سارا سال کرکٹ دیکھیں گے یا اپنا کام کریں گے۔

ابھی ایشیا کپ ختم ہوا تھا کہ پاکستان کی آسٹریلیا سے سیریز آ گئی، افغان لیگ بْری طرح فلاپ رہی، اب گرین شرٹس نیوزی لینڈ سے کھیل رہے ہیں،ٹی ٹین لیگ کی بھی آمد آمد ہے، پھر آئندہ ماہ امارات لیگ ہو گی، اس کے بعد فروری2019میں پی ایس ایل کا انعقاد ہونا ہے،اس دوران شائقین کو گراؤنڈز میں لانا منتظمین کیلیے بڑا چیلنج ہوگا۔ میڈیا باکس میں اس بار گنتی کے ہی چند صحافی موجود تھے۔

میچ میں پاکستانی ٹیم نے بہترین کھیل پیش کیا اور فتح حاصل کرلی، شاہین شاہ آفریدی نے عمدہ بولنگ کی، حفیظ نے بیٹنگ میں کام دکھایا، اماراتی پچز پر مختصر طرز کے میچز میں بھی زیادہ رنز نہیں بن رہے، اگر ایسی وکٹیں تیار کی جائیں جہاں چوکوں ، چھکوں کی بھرمار ہو تو شاید زیادہ کراؤڈ آئے۔

میچ کے بعد پریس کانفرنس میں شاہین شاہ آفریدی آئے جنھوں نے بعض سوالات کے بہت عمدگی سے جواب دیے ، ان میں اہم ترین شاہد آفریدی کے حوالے سے تھا، ڈائننگ ایریا میں وقار یونس اور بازید خان کے ساتھ آئی سی سی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سمیع الحسن برنی بھی دکھائی دیے،کھانے کے وقت خوب قہقہے لگتے رہے، پی سی بی کی جانب سے میڈیا منیجر رضا راشد بھی آئے ہوئے ہیں ان کو تعریف پسند نہیں لہذا کچھ نہیں لکھوں گا،البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ انتظامات اچھے ہیں اور اعلیٰ معیار کی تصاویر فراہم کرنے کا نیا سلسلہ بھی میڈیا کیلیے کارآمد ہے۔

ہفتے کو آرام کا دن تھا لہذا میں چند کھلاڑیوں کے انٹرویوز کرنے ٹیم ہوٹل چلا گیا، وہاں گیٹ پر دیکھا کہ ایک نوجوان پلیئر کہیں سے واپس آیا تو دو لڑکے سیلفی کیلیے پاس پہنچ گئے، ایک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو فوراً شائستگی سے منع کیا کہ ’’ایسا نہ کرو میں آپ کو جانتا نہیں، کل کو کوئی مشکوک شخص نکل آئے تو میرے لیے مسئلہ بن جائے گا‘‘، مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ اب کھلاڑیوں کو سمجھ آ رہا ہے کہ کس طرح خود کو مسائل سے بچانا ہے۔

پی سی بی نے ایک بار پھر ٹیم ہوٹل تبدیل کردیا ہے جس نے سب سے کم کرایے کی بڈ دی اس سے معاہدہ کر لیا، گوکہ ہوٹل اچھا ہے مگر آس پاس کوئی ریسٹورنٹ اور شاپنگ مال نہ ہونے کے سبب پلیئرزکو مشکلات کا سامنا ہے، انھیں کوئی چھوٹی سی چیز لینے بھی ٹیکسی پرجانا پڑتا ہے۔

پی سی بی کو ہوٹل وغیرہ کا انتخاب کرتے ہوئے ان باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے،ٹیم کے کئی کرکٹرز کی فیملیز بھی ہمراہ ہیں، وہ فارغ وقت انہی کے ساتھ گذارتے ہیں، ہوٹل کی لابی کے صوفے پر ٹیم کے سیکیورٹی آفیسر بیٹھے ہوئے تھے، پھر میری محمد حفیظ سے ملاقات ہوئی، اچھی پرفارمنس کے بعد ان کی باڈی لینگوئج ہی تبدیل ہو گئی اور اب ماضی کی طرح پْراعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کپتان سرفراز احمد کو بھرپور سپورٹ کر رہے ہیں اور فیلڈ میں خوب مشورے بھی دیتے ہیں، میں حفیظ کو مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اس لیے یہ سوال نہیں پوچھا کہ ان کی اچھی پرفارمنس کے بعد اب کوچ مکی آرتھر کا رویہ کیسا ہے؟ مگر دل میں یہ ضرور سوچا کہ سینئرز نے اچھی پرفارمنس سے کوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔

حفیظ کے جانے کے بعد کپتان سرفراز احمد سے ملاقات ہوئی، ہم چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل کے باہر ہی چلے گئے جہاں ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، سرفراز بھی ٹیم کی پرفارمنس پر خاصے مسرور تھے، میں نے انھیں یاد دلایا کہ چند روز قبل ہی لوگ برا بھلا کہہ رہے تھے اور اب پھر وہ ہیرو بن گئے ہیں تو انھوں نے مسکرانے پر اکتفا کیا،اس سیزن میں آسٹریلیا کے مقابلے میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کیلیے زیادہ سخت حریف ثابت ہوئی ہے، گوکہ وہ دونوں میچز ہار گئی مگر ٹف ٹائم ضرور دیا۔

دوسرے میچ میں اگر حفیظ آخر میں لاٹھی چارج نہ کرتے تو جیتنا مشکل تھا، اب اتوار کو آخری ٹی ٹوئنٹی ہونا ہے، دیکھتے ہیں ٹیم کیسا پرفارم کرتی ہے، امید تویہی ہے کہ کلین سوئپ کے ذریعے رینکنگ میں پہلی پوزیشن کو مزید مستحکم بنایا جائے گا، اب تک یہ دورہ گرین شرٹس کیلیے بہترین ثابت ہوا ہے جس پرپلیئرز دادکے مستحق ہیں۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔