’مولانا سمیع الحق‘ ہم نے ایک اور گوہر نایاب کھو دیا

روخان یوسف زئی / نوید جان  اتوار 4 نومبر 2018
ملک دشمن قوتیں اورعناصر اکثراوقات ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ جلتی پر تیل کاکام کیاجاسکے۔
فوٹو: ایکسپریس/فائل

ملک دشمن قوتیں اورعناصر اکثراوقات ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ جلتی پر تیل کاکام کیاجاسکے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

اگر زمینی اور زمانی حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنے ملک کے موجودہ حالات کا غیرجانب دارانہ جائزہ لیاجائے توہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ ہمیں چاروں اطراف سے دہشت گردی، مذہبی منافرت،تنگ نظری،انتہاپسندی اور عدم رواداری کے عفریت نے گھیر رکھاہے، دیگر وجوہات میں سے ایک اہم اوربنیادی وجہ ہمارے ہاں رواداری کے کلچر کا فقدان بھی ہے۔

اگرچہ ملک میں متنوع ثقافتوں میں جمہوریت،برداشت،مکالمہ اور رواداری کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں مگر افسوس کہ ہم نے ان عناصرکواجاگرکرنے کی کبھی سنجیدہ سعی ہی نہیں کی، جس کے نتیجے میں آج ہمیں عدم برداشت،شدت پسندی،انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے ناسور کا سامنا کرنا پڑرہاہے جس  نے اب تک لاکھوں عام افراد سمیت ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں، فوجی جوانوں،افسروں اور جید علماء کرام کو بھی نگل لیاہے۔

یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کا بین اورحالیہ ثبوت جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ اور جید عالم دین مولانا سمیع الحق کا راولپنڈی میں واقع اپنے ہی گھر کے اندر نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں بے رحمانہ طریقے سے شہید کیاجانا ہے۔

یہ دلدوز واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک میں آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاج جاری تھا، لہذا ملک دشمن قوتیں اورعناصر اکثراوقات ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ جلتی پر تیل کاکام کیاجاسکے، اپنے مذموم مقاصد کے لیے ملک دشمن عناصر نے مولانا سمیع الحق جیسی معروف دینی اورسیاسی شخصیت کا انتخاب کیا تاکہ ان کو بے دردی سے شہید کرکے ملک میں جاری احتجاج کی آگ کو مزید بھڑکایاجاسکے۔

مولانا کی شہادت کے پیچھے جو بھی عوامل ، محرکات اور وجوہات  کارفرمارہیں ان کا کھوج لگانا اور منظرعام پر لانا ہمارے متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے تاکہ ملک مزید بے چینی اورانتشارکاشکارنہ ہو،بصورت دیگرہم کب تک ’’میں کس کے ہاتھ پے اپنا لہو تلاش کروں‘‘ کے مصداق بنے رہیں گے،کب تک اس قسم کے سانحات، سنگ کے دیوار کے بیچ ٹھونسے جائیں گے؟ لہذا جتنا جلد ممکن ہو، مولانا سمیع الحق کے قتل کے اصل محرکات اور مجرموں کو سامنے لانے میں سیکیورٹی اداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔

یہاں اس سوال کا اذہان میں اٹھنا بھی فطری امر ہے کہ وقوعہ کے وقت ان کے گارڈ، ڈرائیور اورگھریلو ملازم بیک وقت  کیسے  غائب ہوگئے اور انہیں گھر میں اکیلا کیوں چھوڑا گیا؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا متعلقہ سیکیورٹی اور تفتیشی اداروں کاکام ہے کہ وہ حقائق جلد از جلد سامنے لائیں۔

مولانا سمیع الحق ایک سچے محب وطن اور عالم دین تھے اور اس سلسلے میں ان کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ خصوصاً دارالعلوم حقانیہ کو اس مقام تک پہنچانے میں مولانا کی انتھک محنت اور جدوجہد شامل ہے۔

چند برس قبل روز نامہ ’’ایکسپریس‘‘ پشاور کے ساتھ مکالمہ میں مولانا نے بتایا تھا کہ موجودہ صورت حال حکمرانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور ملک داؤ پر لگایا ہوا ہے ،حکمرانوں نے امریکا کی جنگ اپنے سر لی ہوئی ہے اورسب کچھ امریکا کے کہنے کیاجارہا ہے جس کا ردعمل جب سامنے آتا ہے تو یہ چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں ،اس میں کئی انسان اب تک قتل ہوچکے ہیں لیکن یہ لوگ پرائی آگ کو اپنے گھر سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں ،یہ لوگ ہزار فوجی آپریشن کرلیں یہ صورت حال اور جنگ ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ پھیلتی ہی چلی جائے گی، اس جنگ کاخاتمہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب پالیسیوں کو تبدیل کیاجائے گا اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر یوٹرن لیتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ ان کا کہناتھا: ’’حکمران امریکی اتحادسے نکل جائیں تو ایک ہفتے کے اندر حالات درست ہوجائیں گے جس میں کسی کو بھی کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

دارالعلوم حقانیہ کی کارکردگی کے حوالے سے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ دارالعلوم حقانیہ امن اور سلامتی کا گہوارہ ہے جس کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں ،ایک امریکی جنرل بکنگھم کلے جو ان کے تھنک ٹینکس میں ہیں وہ ہمارے مدرسے آئے،جب انہوںنے اس کا تفصیلی دورہ کیا ،تمام شعبہ جات دیکھے تو انہوںنے کہا کہ’’ یہ مدرسہ تو امن وسلامتی کا گہوارہ ہے‘‘۔دارالعلوم حقانیہ میں کسی چڑیا کو بھی مارنے کا تصور نہیں کیا جاتا ، یہاں طلباء کے پاس اسلحہ تو کیا چھری اورچاقو تک رکھنے پر پابندی عائد ہے لیکن اس مدرسے کو بیرونی طاقتوں نے جان بوجھ کر ٹارگٹ بنایا کیونکہ یہاں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں اورامریکہ اور اس کے حواری اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔

دارالعلوم حقانیہ کی اپنی شہرت ہے ،اس کا روس کی تباہی میں بڑا ہاتھ ہے اور جہاد افغانستان کے دوران یہاں سے پڑھے ہوئے طلباء نے براہ راست روس کے خلاف جہاد میں حصہ لے کر اس کو تہس نہس کیا اسی لیے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اسے تو ہم نے تین نسلوں کی محنت سے موجودہ مقام پر پہنچایا ہے،اب کیا ہم خود ہی اپنا گھر تباہ کردیں گے ،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔

ہاں! یہ حقیقت ہے کہ جہاد افغانستان کے دوران دارالعلوم حقانیہ میں پڑھنے والے آدھے طلباء افغان ہوتے تھے جو یہاں دینی علوم پڑھنے آتے اوریہاں سے علوم حاصل کرنے کے بعد جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان چلے جاتے تھے جن میں کئی ایک بڑے لیڈر بھی ہیں جیسے مولوی یونس خالص ،جلال الدین حقانی ،نبی محمدی اوران سمیت نوے فیصد افغان علماء سب ہی یہاں سے پڑھے ہوئے ہیں، طالبان کے امیر ملا عمر بھی ابتداء میں یہاں پڑھنے آئے تھے اس وقت وہ بچہ تھا اور کسی کو کیا علم تھا کہ یہ بچہ آگے جاکر طالبان کی قیادت سنبھالے گا،ملا عمر نے ابتدائی تعلیم حقانیہ سے ضرور حاصل کی لیکن اس نے تکمیل یہاں سے نہیں کی کیونکہ وہ جہاد میں حصہ لینے افغانستان چلا گیا تھا‘‘۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا نے بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ اور روزانہ ملاقات ہوا کرتی تھی کیونکہ اس وقت اسامہ بن لادن افغانستان میں نہیں تھا بلکہ یہیں پاکستان میں ہوا کرتا تھا اور اس وقت اس کی اتنی شہرت بھی نہیں تھی ،وہ ڈاکٹر عبداللہ عزام کے ساتھ یہاں ہوا کرتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بڑی محبت تھی ،اس وقت القاعدہ نام کی کوئی تنظیم نہیں تھی کیونکہ اگر ایسی کسی تنظیم کا وجود ہوتا تو وہ ضرور میرے ساتھ اس سلسلے میں بات کرتے لیکن انہوںنے اس بارے میں کبھی کوئی ذکر نہیں کیا؟

مولانا کا کہناتھا کہ یہ القاعدہ کسی اور کی نہیں بلکہ خود امریکا کی پیداوار ہے جسے بنیاد بناکریہ دنیا کو فتح کرنے نکلا ہوا ہے ،کیوبا کے صدر فیدڑل کاسترو نے بھی یہی بات کی تھی کہ یہ سب امریکہ کا اپنا کھیل ہے ، یہ اسامہ تو امریکہ کا دوست اور ساتھی تھا جس نے روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی لیکن اب وہ وہی کردار امریکہ کے خلاف بھی ادا کرنا چاہتا ہے جو اس نے روس کے خلاف ادا کیا جس کا امریکہ اب کسی بھی طور اجازت دینے کے لیے تیار نہیں  اسی لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے ۔

سفرزندگی پر ایک نظر

جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اورممتازعالم دین مولانا سمیع الحق  کسی تعارف کے محتاج نہیں کیوں کہ لڑکپن سے تادم مرگ وہ پاکستانی سیاست کے افق پر فعال اور متحرک رہے، اوریہاں کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ،مولانا سمیع الحق 18دسمبر1937ء کو معروف عالم دین شیخ الحدیث والقرآن اور بانی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک مولانا عبدالحق کے ہاں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے، چار بھائیوں اور پانچ بہنوں میں سب سے بڑے تھے، ابتدائی تعلیم والد کے قائم کردہ تعلیم القرآن پرائمری سکول اکوڑہ خٹک سے حاصل کی، 1946ء سے دارالعلوم حقانیہ سے دینی علوم حاصل کرنا شروع کردی اور 1957ء میں سند فراغت حاصل کی۔

مولانا فقہ،عربی لٹریچر،منطق،صرف ونحو،تفسیراور حدیث کے علوم کے ماہر تھے۔انہیں پشتو اور اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ ان کے والد مولانا عبدالحق بھی رکن قومی اسمبلی رہے تھے، وہ 1973ء کے آئین پر دستخط کرنے والوں میں بھی شامل تھے، انھیں یہ اعزازبھی حاصل تھا کہ وہ انتخابی مہم چلائے بغیر ممبرقومی اسمبلی منتخب ہوئے،1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعدمولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بنے،انھوں نے خود بھی 1974ء کی تحریک ختم نبوت اور1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ لیا،وہ 1983ء تا1985ء جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی امور کی صدارتی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔1985ء میں جب سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تو سینٹ میں تاریخی شریعت بل بھی پیش کیا۔مولانا صاحب دفاع پاکستان کونسل کے چئیرمین بھی تھے،اس کے علاوہ مولانا سمیع الحق نے پولیو مہم کے خلاف حکومتی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب 2013ء میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پولیو کے خلاف حفاظتی قطروں کی مہم کو غیر اسلامی قرار دیا تو اس وقت مولانا سمیع الحق نے اس مہم کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان کا بھی مولانا صاحب سے قریبی تعلق رہا جس کی وجہ سے عمران خان کو کئی مرتبہ طالبان خان بھی کہا گیا، وہ1958ء سے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود جامعہ حقانیہ میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دیتے  رہے۔ اتفاق سے جس طرح ان کے والد مولانا عبدالحق کے نو بچے تھے اسی طرح مولانا سمیع الحق بھی نو بچوں کے والد تھے۔2003ء میں جب ان کی اہلیہ فوت ہوگئی، جن کا تعلق پشاور سے تھا تو بعد میں دوسری شادی سوات سے تعلق رکھنے والی خاتون سے کی۔

مولانا سمیع الحق ایک زمانے میں جمعیت علماء اسلام (درخواستی گروپ) کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے تھے۔ 1965ء سے حقانیہ سے جاری موقر دینی جریدہ’’الحق‘‘ کے مدیراعلیٰ بھی تھے، جس میں تحقیقی مقالے بھی لکھتے رہے۔ مولانا سمیع الحق متعدد دینی تحقیقی کتابوں کے مصنف تھے جن میں’’عصرحاضر اور اسلام‘‘ اور ’’صلیبی دہشت گردی‘‘ بہت مشہور کتابیں ہیں۔ ان کا شمار مولانا حسین احمد مدنی کے خاص شاگردوں میں ہوتا تھا اور مولانا احمدعلی لاہوری سے بھی اکتساب فیض کیاتھا۔

پارلیمنٹ کے اندر اور پارلمینٹ سے باہر ان کی تقریریں توجہ سے سنی جاتی تھیں،وہ ایک مانے ہوئے عالم دین کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر بھی گہری نظر رکھنے والے سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باوجود وہ دارالعلوم حقانیہ کی بہتری اور ترقی کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن کوشاں رہتے۔ان کے شاگردوں کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچی ہے، خیبرپختون خوا،سابق فاٹا اور افغانستان کے طول وعرض سے علم کے پروانے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے علم کی روشنی حاصل کرنے آتے ہیں، جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان بھی ان کے شاگرد رہ چکے ہیں، بعد میں اختلافات کے بنا پر مولانا سمیع الحق نے جمعیت علماء اسلام سے راستہ الگ کرکے اپنا دھڑا جمعیت علماء اسلام(س) کے نام سے قائم کرلیا۔

مولانا نے جہاد افغانستان میں بھی بھرپور حصہ لیا اورتحریک طالبان افغانستان کے سرپرست بھی رہے، جس وقت2001ء میں افغانستان پر امریکا نے یلغارکی تو انہوں نے دفاع افغانستان کونسل کے نام سے تحریک شروع کردی جسے بعد میں دفاع افغانستان وپاکستان کونسل کا نام دیا گیا۔2013ء میں متحدہ دینی محاذ کی بنیاد بھی انہوں نے ہی رکھی تھی، جبکہ اس سے قبل متحدہ مجلس عمل کے بھی  روح رواں رہے۔

مولانا جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی رہے۔انھوں نے پانچ صاحب زادیاں اور چار صاحب زادے سوگوار چھوڑے ہیں،ان کے  بڑے صاحب زادے اور متوقع سیاسی جانشین حامدالحق ہیں جو 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔