قطر امن مذاکرات اور کابل میں بگل پسپائی

اسلم خان  جمعرات 20 جون 2013

اسلا م آباد سے ریاض تک ِبگل پسپا ئی بج رہا ہے، قطر میں طالبان امر یکہ مذاکر ات پر کرزئی ناراض ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ جنگل کے قا نو ن میں کمز ور کو کیا اہمیت ہو تی ہے‘ اس لیے امریکی اپنے محب و محترم کرزئی کے واویلے پر مسکرا رہے ہیں‘ نظر یں چرا رہے ہیں، ویسے حا مد کرزئی چیخ و پکا رکر نے میں حق بجا نب ہیں۔ امریکی طیب آغا یا ملا عمر سے مذاکرات نہیں کرنے جارہے‘ دوحہ میں امن مذکرات تو امریکی حکو مت اور امارات اسلامی افغانستان سے ہو رہے ہیں جن کا پرچم طالبان کے دوحہ میں کھلنے والے دفتر پر لہرا رہا ہے۔ وہی امارات اسلامیہ افغانستان جسے امریکیوں نے ساری دنیا کی افواج قاہرہ کی مدد سے ختم کر دیا تھا۔ 12 سال کی لاحاصل اور دنیا کی مہنگی ترین جنگ کے بعد متکبر امریکی انھی دہشت گرد طالبان کے سا تھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہیں کہ انھیں دسمبر 2014ء تک اپنے گھر واپس چلے جانا ہے۔ امریکیو ں نے القاعدہ سے اپنے آپ کو علیحدہ کر نے کی بنیادی شرط کو بھی واپس لے لیا ہے‘ اب حامد کرزئی کا حال تو بیگانوں کی شادی میں دھمال ڈالنے والے عبداللہ دیوانے جیسے ہو رہا ہے‘ جسے کے واویلے اور احتجا ج پر کوئی اور نہیںخود امریکی بھی طنزیہ مسکرا رہے ہیں۔

جنا ب حامد کرزئی نے امریکا طالبان مذاکرات کا بائیکا ٹ کر دیا ہے‘ واضح رہے کہ حامد کرزئی کی حفاظت امریکی کمانڈوز کرتے ہیں، حامد کرزئی نے بہر حال جرات دکھائی ہے چو نکہ یہ امن مذاکرات کرزئی کی نامزد کردہ امن کونسل کی زیر نگر انی نہیں ہو رہے، اس لیے افغان حکومت اس میں شامل نہیں ہوگی، ویسے بھی طالبان کا دفتر باضابطہ امارات اسلامی افغانستان کا سفارت خا نہ ہو گا اور کرزئی انتظامیہ ملا عمر کی اما رات کوکیسے تسیلم کر سکتی ہے ۔

طالبان کے مطالبات سیدھے سا دے ہیں کہ غیرملکی افواج افغان سرزمین سے نکل جا ئیں،کٹھ پتلی انتظا میہ سے وہ خو د نمٹ لیں گے‘ امر یکی اپنے سا رجنٹ Bowe Bergdahlکی رہا ئی چاہتے ہیں جس کے جو اب میں طالبان کیوبا کے بدنام زمانہ قید خانے سے اپنے چھ کما نڈروں کی رہا ئی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

قطر امن مذاکرات میں پاکستان کے لازوال کردار کی طوطا کہانی کچھ داستا ن گو سنا رہے ہیں جس میں رنگ آمیزی کرکے قصے گھڑ ے جا رہے ہیں۔ اقتدار کی نیم تاریک غلام گردشوں کے تمام کردار اس رزمیہ ڈرامہ میں شامل کیے جا رہے ہیں۔

یہ تو قارئین جانتے ہیں کہ کہانی کار زبان فرنگ استعما ل کر رہا ہو تو مز ا دوآتشہ ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امر یکی اپنی شر مندگی چھپا نے کے لیے پا ک امریکا شخصیات کے اندرونی اور بیر ونی مذاکر ات کے افسانے تراش رہے ہیں، رہے طالبان تو انھوں نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا‘ خود امریکی معتبر افغان مشران (بزرگوں )کے ذریعے مقا می محاذوں پر طالبان کے لوکل کمانڈروںکو خر اج ادا کرکے محفوظ راہداریا ں لیتے رہے ہیں ۔سامان رسد کے قافلو ں کو منز ل مقصود تک پہنچنا چالا ک امریکیوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دیا تھا جسے خراج ادا کرکے حل کیا جا تا رہا۔

طرفہ تماشا یہ تھا کہ امریکیوں کے حامی دانشور حقائق سے انکار کرکے سارے پاکستان کو طالبا ن سے، ظالمان سے لڑجانے اور ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے اور ایسی ہی ہدایات جاری کرتے رہے۔ یہی سیانے تو تھے جو پرائی آگ سے کھیلنے کے شوق میں اپنا گھر وند ہ نذر آتش کر بیٹھے اور ہمیں 50ہزار سے زیا دہ اپنے بچوں اور بچیوں کی قربانی دینی پڑی ۔

امن مذاکرات کا ایجنڈا بڑا سادہ اور عا م فہم ہے امریکی افغانستان کے بارے میں پر یشان نہیں، ان کا اصل مسئلہ دارلحکومت کابل اور حریت پسند پشتونوں کا جنوبی افغانستان ہے۔ امریکی طالبان سے کم ازکم ایک سال تک کٹھ پتلی کا بل انتظامیہ کا تحفظ اوراپنی محفوظ چھا ؤنیو ں اور اڈوںکی امان چاہتے ہیں ۔جس کے لیے وہ ہر قیمت دینے کو تیار ہیں اور رہا پاکستان تو یہ دوحہ امن مذاکر ات میں ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔ پا کستا ن کو طالبان سے الگ الگ مذاکرات کرنا ہوں گے۔

جنگ اور امن مذاکرات بیک وقت کر نے کا فارمولہ بھی امریکیوں کا تخلیق کردہ ہے ۔ دوحہ امن مذاکرات کے لیے القاعدہ کے رہنما ایمن الزواہر ی کے مصر میں مقیم محمد الزواہر ی سے تعاون کی درخواست کی تھی کہ نادیدہ سایوں کے تعاقب میں 12سال تک ہلکان ہونے کے بعد 30ممالک کی افواج نیٹوکے جھنڈے تلے ناکامی و نامرادی کے بعد اپنا بوریا بستر لپیٹ رہی ہیں۔

جمعہ 19،اکتوبر2001کو اس کالم نگار کے گھر پر جلال الدین حقانی نے اس وقت کے افغان وزیرخزانہ ہدایت امین ارسلاکی تمام پیش کشوں کو مسترد کرتے ہوئے جارح امریکیوں کے خلاف باضابطہ اعلان جنگ کیا تھا ۔

جلال الدین حقانی نے انکشا ف کیا تھا کہ امریکیوں کی کٹھ پتلی انتظامیہ ڈیو رنڈ لا ئن کے ملحقہ تین افغا ن صوبو ں (ولا تیو ں )کا انتظام سپرد کرنے پر آما دہ تھی، اب کابل اور جلال آباد کے وقتی تحفظ کی بنیاد پر امریکی 6صوبوں کا انتظام طالبان کو سپرد کرنے کو تیار ہیں جس کے بعد ہمیں اپنے ہمسایوں سے نئے تنا ظر میں مذاکر ات کرنے ہوں گے ۔

سنو لوگو سنو ! بگل پسپائی بج رہا ہے‘ دوحہ سے ریاض تک کل کے متکبر امریکی آج جا ئے امان ڈھونڈ رہے ہیں ۔

اب بگل پسپائی بج رہا ہے اور سا ری دنیا اس کی گونج سن رہی ہے ۔شا ید ہما رے امریکی طوطے بہر ے ہو چکے ہیں انھیں کچھ سنا ئی نہیں دے رہا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔