پاک فوج، عوام اور سیاستدان

ابنِ صادق  جمعرات 8 نومبر 2018
وطن دشمن چاہتے ہیں کہ سول اور ملٹری اداروں میں تناؤسے بے یقینی کی فضا قائم رکھی جائے تاکہ عوام کا ان پر اعتماد نہ رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وطن دشمن چاہتے ہیں کہ سول اور ملٹری اداروں میں تناؤسے بے یقینی کی فضا قائم رکھی جائے تاکہ عوام کا ان پر اعتماد نہ رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ دنوں پاک فوج میں تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور صاحب کا ایک بیان نظر سے گزرا اور سوچنا پڑا کہ آخر ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ پاک فوج، جو اسلامی دنیا کی پہلی اور اقوام عالم کی چھٹی ایٹمی صلاحیت کی حامل فوج ہے، اس کے ایک سربراہ کو ملکی حالات پر یہ بیان دینا پڑا کہ جو کچھ اس وقت ملکی سیاسی صورت حال ہے، اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔

پاک فوج نے جس طرح اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بدولت دہشت گردی کے خلاف ہر کارروائی اور ہر آپریشن میں اپنی طاقت اور شجاعت کا لوہا منوایا، اور جس طرح پوری دنیا کے سامنے دہشت گردی کے خلاف ملکی سلامتی کا دفاع کیا، اقوام عالم پاک فوج کی اس بہادری اور جاوانمردی کی نہ صرف معترف ہے بلکہ پوری دنیا کے امن کیلے پاک فوج نے جو تاریخ رقم کی، اقوام عالم اس کی اہمیت سے اچھی طرح واقف بھی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر پاک فوج کو اس بیان کی ضرورت پیش کیوں آئی؟

یہاں یہ بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی اور فوجی قیادت کے تعلقات میں جو تناؤ اور بداعتمادی کی فضا ہے، اس کے جو بھی کئی اسباب ہیں، جن کا تعین سیاسی و عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر کرنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد فوج اور سیاستدان، دونوں پر بحال ہو سکے۔

ماضی کے تجربات مدنظر رکھتے ہوئے، دونوں اطراف کی قیادت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ وطن دشمن عناصر اگرچہ پاک فوج کے ساتھ براہِ راست الجھ تو نہیں سکتے لیکن وہ فوج کے بارے میں مسلسل بدگمانیاں پیدا کرکے اپنا مفاد ضرور حاصل کرتے رہے ہیں۔ آج، ایک بار پھر، یہی عناصر چاہتے ہیں کہ سول اور ملٹری اداروں کے درمیان تناؤ سے ملک میں بے یقینی کی فضا قائم رکھی جائے؛ سیاستدان اور فوج آپس میں لڑ پڑیں تاکہ عوام کا فوج اور سیاسی قیادت، دونوں پر اعتماد نہ رہے۔

یعنی بجائے اس کے کہ فوج کے ساتھ براہ راست لڑا جائے، کیوں نہ سیاستدانوں کے ذریعے عوام کو فوج سے لڑا دیا جائے اور ملکی دفاع کمزور کرکے ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا جائے۔ یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں، اور دیکھ بھی چکے ہیں، کہ جب سیاستدان اور فوج ایک پیج پر ہوں تو آپ اس ملک کو دہشت گردی تو کیا کسی محاذ پر بھی شکست نہیں دے سکتے۔

جہاں فوج کے کردار کو پاکستان کی تعمیر و ترقی کےلیے سنہری حروف میں لکھا جائے گا، وہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے اس دلیرانہ فیصلے اور سیاسی بصارت سے انکار بھی زیادتی ہوگی۔

دہشت گردی سابقہ کی لہر میں جب ملک کو سیاسی اور عسکری اداروں میں اتحاد کی ضرورت تھی اور دونوں نے مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا، تو پوری قوم اپنے سیاستدانوں اور افواج کے ساتھ آخری وقت تک کھڑی رہی (اور رہے گی)۔ جب دشمن نے دیکھا کہ اس کا یہ منصوبہ تو کامیاب نہ ہوسکا بلکہ سیاستدان عوامی تائید و حمایت کے ساتھ اپنی فوج کے شانہ بشانہ ہیں اور پوری قوم یک جان ہے، تو یہ سب دیکھ کر دہشت گرد بزدلانہ حرکتوں پر اتر آئے۔

کراچی سے پشاور تک عوام، فوج اور سیاستدانوں پر خودکش حملوں کا ایک بظاہر نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کردیا جس میں 76 ہزار لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے۔ آئے روز کے بم دھماکوں میں اسکولوں، درگاہوں، یہاں تک کہ مساجد اور چھوٹے بچوں عورتوں بزرگوں تک کو نپ بخشا گیا۔ ایسے درندوں کے آگے سیاسی قیادت ایک لمحہ بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹی اورعوامی تائید کے ساتھ اپنی افواج کا ساتھ دیتی رہی۔

اس طرح، الحمدللہ، پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوا کہ جب دنوں اطراف سے باہمی اتحاد و اعتماد قائم رہا۔

سیاسی و عسکری قیادت یہ بات جان چکی ہے کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی دنوں کے ملنے ہی سے ہے اور دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔ دنوں جب تک ایک ہیں، عوام کا اعتماد بھی دونوں پر رہے گا؛ اور بغیر عوامی اعتماد و تائید کے، ہم کبھی کوئی جنگ جیت نہیں سکتے۔

آج جب پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں تو ہمارا دشمن، جو پاکستان کو دہشت گردی کے میدان میں شکست دینے میں ناکام ہی رہا ہے، اب وہ ملک کو سفارتی محاذ پر اکیلا کرنے کے درپے ہے؛ جبکہ معاشی طور پر بھی پاکستان کا اقوام عالم سے رابطہ کاٹنا چاہتا ہے، جس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی نظر آرہا ہے۔

آج ایک بار پھر ملک کو سیاسی و عسکری اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اسی میں ملک اور ملک میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کا فائدہ بھی ہے… اُن عوام کا فائدہ جو پہلے ہی دہشت گردی، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں، وہی عوام جو سیاست دانوں اور فوج کی ہر آواز پر ہمیشہ لبیک کہتے آئے ہیں۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کا حل، مل بیٹھ کر تلاش کریں تاکہ پاکستان ترقی کی سمت اپنا سفر جاری رکھے؛ اور عوام ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھاسکیں۔

اگر گھر کے دو بڑے آپس میں ہی لڑتے رہیں گے تو کون اس گھر میں سکون سے رہ سکے گا؟ اور کون ایسے گھر سے تعلق رکھنا پسند کرے گا؟

یہ ملک ہی ہمارا گھر ہے، اس کی فوج ہماری فوج اور سیاستدان ہمارے اپنے سیاستدان ہیں۔ دونوں کا مقصد جب ایک طاقتور اور ترقی کرتا ہوا پاکستان ہے تو پھر دونوں کو ایک دوسرے کی نیت پر شک کے بجائے ایک دوسرے کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ ملک دفاعی بلکہ سیاسی، سفارتی اور معاشی طور پر بھی مضبوط ہوسکے، کیونکہ ایک مستحکم پاکستان ہی عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔