مقدس احتجاج

عبدالقادر حسن  منگل 6 نومبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ چند روز انتہائی اضطراب میں گزرے، ٹی وی جو ہر وقت دنیا بھر کی خبریں عوام تک پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس پر بھی مکمل خاموشی تھی، اس کے علاوہ کوئی اورذریعہ نہ تھا جس سے ملک کے حالات کی خبر ملتی البتہ چند ایک دوستوں نے ٹیلی فون کر کے مشورہ دیا کہ گھر میں ہی آرام کرو جب راستے کھل جائیں گے تو تمہیں بتا دیں گے ۔ بچوں کے اسکول بھی بند کر دئے گئے اور اس کی اطلاع اسکولوں کی جانب سے موبائل فون پر ایک پیغام کے ذریعے دی گئی۔

میرے جیسے کالم نگار جن کی معلومات کا ذریعہ اخبار کی خبریں اور نیوز چینل ہیں وہ اس مخمصے میں ہی رہے کہ اصل صورتحال کا علم ہوتو اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ بہر حال چند دن کے بعد آج صورتحال یہ ہے کہ آمدورفت کے راستے کھل گئے ہیں، بچے دوبارہ سے اسکول جارہے ہیں۔

میں اگر اپنی بات کروں تو عرض ہے کہ ہماری حکومتوں نے عام پاکستانی پر زندگی کو جس قدر تنگ کیے رکھا وہ کسی نہ کسی بہانے اس پر احتجاج کرنے لگتا ہے، اب تک تو عام آدمی کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ حکومت تک اپنی فریا دکیسے پہنچائے لیکن یکایک ایسی صورتحال پید اہو گئی یا پیدا کر دی گئی کہ ہر مسلمان کے ایمان پر بن گئی ۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والے یہ تصور تک نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں کے ہاں ان کے ہادیٔ برحقؐ  کی ذات اقدس کیامقام رکھتی ہے۔

حضورؐسے محبت اور اپنی جان و اولاد سے بڑھ کر محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے بلکہ پورا ایمان ہی یہی ہے۔ اب یا تو وہ اپنے ایمان کو ترک کر دیں یا اس پر کوئی ضرب لگے تو اپنی بساط کے مطابق اس پر احتجاج کریںاور ایمان کو تازہ کریں چنانچہ پاکستان میں گزشتہ دنوں یہی کچھ ہوا۔

عدلیہ کے فیصلے کے بعد پاکستان بھر میں احتجاج کا سلسلہ مسلسل تین روز تک قومی سطح پرجاری رہا جب بھی کوئی احتجاج قومی سطح پر ہوتا ہے تو اس میں احتجاج کرنے والوں کے وہ مسائل اور مصائب بھی دبے نہیں رہ سکتے جو ان کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا رہے ہیں چنانچہ یہ احتجاج جسے مقدس احتجاج کہنا چاہیے، قوم کی عام صورتحال اور عوامی زندگی کی الجھنوں کو بھی سامنے لے آیا ۔ اسی عوامی زندگی کو سنوارنے کے لیے ہی تو اسلام آیا تھا اور اس کے قائدؐ نے انسانیت کو زندگی بخش تصور سے آشنا کیا تھا۔

اس لیے پاکستانی اگر حضور ؐکے ساتھ اپنا ایمانی رشتہ تازہ کرنے کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو لازماً وہ باتیں بھی سامنے آئیں گی جو صاف الفاظ میں کہیں تو اسلام کے بنیادی فلاحی اصولوں کی خلاف ورزی سے پیدا ہو رہی ہیں اور جن کی وجہ سے مسلمان قوم سرداروں اور محکوموں میں بٹ گئی ہے ۔ ایک طبقہ اس قدر لالچی اور خود غرض ہو گیا کہ اپنے اقتدار کو نفع کی دکان سمجھتا رہا اور کمزور لوگوں کو لوٹتا رہا ہے۔ اسی تفریق اور لوٹ کھسوٹ سے نجات کے لیے تو اسلام کا انقلاب آیا تھا ۔

حضورؐ کی مقدس شخصیت اور ان کی تعلیمات، حب رسولؐ کا حصہ ہیں لیکن اس انتہائی بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جب عوام باہر نکلے تو ان کے ذہنوں کے انتشار اور غلط حکمرانی کے پیدا کردہ عوامل  نے احتجاج کے اعلیٰ مقصد کو داغدار کر دیا اور ایسے لوگ بھی مظاہروں میں شامل ہوگئے جنہوں نے بلا شبہ حضورؐ کی تعلیمات کی خلاف ورزی کی اور فساد پھیلایا۔

ہمارے نئے اور تازہ دم حکمرانوں نے سب سے پہلے ایک غیر مسلم ملک میں گستاخی کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور اس کو رکوانے میں کامیاب رہے لیکن پھر اپنے ہی ملک میں جب اعلیٰ عدلیہ نے  ایک فیصلہ دیا تو ا س کے نتیجے میں ملک بھر یکایک مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہمارے نئے نویلے حکمران ان سے خوفزدہ ہو گئے کہ ان کی کسی غلطی کی وجہ سے یہ تحریک کہیںپلٹ کر ان کے اوپر نہ پڑ جائے ۔

اس سلسلے میں اگر احتجاج کی بات کی جائے توسوال اٹھتا ہے کہ جس بے دردی سے سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا وہ رسول اللہؐ کی تعلیمات کے مطابق تو ہر گز نہیں تھا ۔ جس طرح عوامی گاڑیوںکو نذر آتش کیا گیا اور معصوم اور بے گناہ لوگوں کے سامنے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو آگ کی نذر کر دیا گیا، یہ اسلام مخالف عمل تھا ۔ یہ کچھ ایسے شر پسند عناصر تھے جنہوں نے مذہب کی آڑ میں کسی غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ملک میں انارکی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا اور ٹیلی فون پر موصول ہونے والے وڈیو کلپ میں ایک شر پسند تو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ بہت ہو گیا اب نکل چلو۔ اس کا مطلب ہے پاکستانیوں کے حقیقی جذبات کے ساتھ شر پسند عناصر نے بھی اپنا مطلب نکالا اور املاک کو نقصان پہنچایا ۔

حکومت پاکستان نے تحریک کے لیڈروں سے معاہدے کے بعد ان شر پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے جو نہایت خوش آیند بات ہے کیونکہ دھرنوں کے خاتمے کے بعد یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس تحریک کے دوران عوام اور سرکار کے ہونے والے نقصان کا ذمے دار کون ہے، اس لیے حکومت نے اس نقصان کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لانے کادرست فیصلہ کیا ہے اور ملک بھر میں اس کی پذیرائی کی جارہی ہے۔

اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اقدامات میں کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے کیونکہ سرکاری املاک کا نقصان بھی ملک اور اس کے عوام کا نقصان ہوتا ہے لیکن ایک فرد واحد کا نقصان اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ اس نے تنکا تنکا جوڑ کر اپنا آشیاں بنایا ہوتا ہے اور اس طرح کے ہنگاموں کی آڑ میں شر پسند عناصر اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔

میرے ذہن سے اخبارات میں شایع ہونے والی وہ تصویر ہی محو ہی نہیں ہورہی جس میں ان ہنگاموں سے متاثرہ ایک خاتون اپنے گھر سے دور کسی  سڑک کنارے اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ کیا یہی ہمارے نبیؐ کی تعلیمات تھیں وہ تو رحمتہ العالمین تھے اور ان کا انسانیت کاپیغام توکچھ اور تھا ہم کس طرف چل پڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہماری خطائیں معاف فرمائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔