’’ماسی‘‘ آپ کی یہ مددگار عزت اور احترام کی حق دار بھی ہے

سمیرا انور  منگل 6 نومبر 2018
خاتونِ خانہ نے دروازے کھولا تو ماسی کو دیکھتے ہی برس پڑیں۔ فوٹو: فائل

خاتونِ خانہ نے دروازے کھولا تو ماسی کو دیکھتے ہی برس پڑیں۔ فوٹو: فائل

’’ آج تم اتنی دیر سے آئی ہو، کیا ضرورت تھی اب بھی آنے کی، میں کر ہی لیتی یہ کام، ہو ہی جاتے ہیں کون سا پہاڑ توڑنا ہے یہ۔‘‘

خاتونِ خانہ نے دروازے کھولا تو ماسی کو دیکھتے ہی برس پڑیں۔ ’’بی بی جی! وہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے ناں، اس کی طبیعت بہت خراب تھی، ساری رات بخار میں جلتا رہا ہے، اب بھی اسے پڑوسن کے ہاں روتا چھوڑ آئی ہوں۔‘‘ ماسی نے فکر مندی سے بتاتے ہوئے گویا اپنی طرف سے تاخیر کی وضاحت کی تھی، مگر بی بی جی کے ماتھے کی شکنیں دور ہوئیں اور نہ ہی ان کی آنکھوں سے جھلکتا غصّہ کم ہوتا نظر آیا۔

’’ کبھی تمہارے بڑے بیٹے کو تو کبھی چھوٹے کو بیماری چمٹ جاتی ہے، تم ان حیلے بہانوں سے باز نہیں آسکتیں۔‘‘ وہ نخوت بھرے انداز سے بولیں۔

’’بی بی جی! میں جھوٹ نہیں بول رہی، ایسا کچھ ہو تبھی دیر۔۔۔۔‘‘ ماسی نے ابھی اپنی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ بیگم صاحبہ بھڑک اٹھیں۔

’’اب اس کی دلیلیں شروع ہو جائیں گی۔ ان لوگوں کو تو بس بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔‘‘ ان کی بڑبڑاہٹ سن کر ماسی اپنا دکھ اور تکلیف چھپائے اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئی۔

وہ سوچنے لگی کہ زندگی میں انسان کتنا مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنی بے عزتی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ محنت مزدوری کر کے بھی دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ معمولی اجرت کے لیے سارا دن جلی کٹی باتیں سنو اور بے عزتی برداشت کرو، کیا کروں میری قسمت ہی ایسی ہے۔ کام کرتے ہوئے ماسی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ اس نے اپنی قسمت کا گلہ کیا اور خود سے شکوے کرتے ہوئے کام نمٹانے لگی۔

اس لفظی منظر کشی نے آپ پر واضح کر دیا ہو گاکہ آج ہم ان عورتوں کی بات کرنے جارہے ہیں جو گھروں میں کام کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پالتی ہیں۔ جھاڑو، پونچھا کرتی ہیں، برتن کپڑے دھوتی ہیں اور چند سو روپے ماہانہ پاتی ہیں۔ ان کے کئی مسائل ہیں جن میں سے ایک معاشرے میں عزت اور مقام بھی ہے جو ایک انسان اور ایک عورت ہونے کے ناتے ان کا بھی حق ہے۔ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ دوسروں کے گھروں میں کام کرکے پیسے کمانے والی یہ عورت ’ماسی‘ کہلاتی ہے۔ غربت کی چکی میں پستی اور معاش کے لیے تکالیف جھیلتی بے بس اور مجبور عورتیں گھروں میں کام کرکے اپنے کنبے کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔

ان کے اپنے دکھ ہیں، ان کی اپنی پریشانیاں ہیں۔ کسی کا گھر میں کمانے والا کوئی نہیں تو کہیں مرد نکما ہے یا کمانے والا ایک ہے کھانے والے دس اور مہنگائی کے اس دور میں واحد کفیل کی کمائی سے گزارہ نہیں ہوتا۔ کسی گھر میں بیماری نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ جو کچھ تھا وہ علاج اور دواؤں پر خرچ ہو گیا اور اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ گھروں میں کام کرکے دو وقت کی روٹی حاصل کی جائے۔ الغرض ایسی ہی کچھ مجبوریوں نے عورت کو ’ماسی‘ بنا دیا، مگر قابلِ فخر بات یہ ہے کہ ایسی عورتیں محنت کر کے پیسے کماتی ہیں۔ وہ بھیک نہیں مانگتیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتیں اور اسی لیے عزت اور تکریم کے لائق ہیں۔

ہمیں سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی عورت کی طرح ماسی کا بھی ایک گھر اور اہلِ خانہ ہوتے ہیں اور ہماری طرح اس کے گھر میں بھی دکھ بیماری سبھی معاملے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ خود بھی بیمار ہو سکتی ہے، اس کے بچے بھی اس کی توجہ کے منتظر ہوتے ہیں۔ وہ بھی اپنے بچوں کی تکلیف پر تڑپتی ہے۔ بعض اوقات کوئی مجبوری اور گھر کا اہم کام ایسا آڑے آتا ہے کہ وہ آپ کے گھر آنے میں دیر کردیتی ہے۔ ہماری سوچ کی پرواز کچھ آگے بڑھے تو سب سے پہلے ہمیں لفظ ’’ماسی ‘‘ کا مطلب تلاش کرناچاہیے۔ ’ماسی‘ دراصل ایسا لفظ ہے جو قابلِ احترام شخصیت کے لیے بولا جاتا ہے۔

اس کا مطلب بڑی، بزرگ اور شفیق خاتون لیا جاسکتا ہے۔ اسے خالہ کے لیے بھی برتا جاتا ہے جو ایک معتبر رشتہ ہے۔ یہ لفظ ہمارے ہاں برتاؤ اور رویوں کی کجی اور کم فہمی کی وجہ سے شاید اب نامعتبر، مشکوک اور کسی کو معمولی ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ بے شک آپ کام والی کو وہ اہمیت نہ دیں جو اپنی سگی خالہ کو دیتی ہیں، لیکن اس تعلق سے اسے عزت اور احترام تو دے سکتی ہیں۔ اس کے لیے آپ کے لہجے سے تکریم کا اظہار تو ہو سکتا ہے۔

چھوٹے علاقوں اور دیہات میں جہاں غربت عام ہے اور عورتوں کی اکثریت ناخواندہ ہے، وہاں ایک مسئلہ مردوں کا بے روزگار ہونا یا کام چور ہونا بھی ہے جس کے باعث عورتیں اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کرنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اکثر یہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شہروں کا رخ کرتی ہیں جہاں عارضی رہائش اختیار کرنے کے بعد قریبی علاقوں کے چھوٹے بڑے گھروں میں کام حاصل کر لیتی ہیں۔

کبھی سوچیں کہ تاخیر سے آنے پر جب آپ اپنی ماسی سے الجھتی ہیں تو اس دوران ایسے جملے اور باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جو دل آزار اور نہایت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ ماسی کے چھٹی کرنے یا تاخیر سے آنے پر کبھی اس سے وجہ جان کر ہم دردی بھی کریں۔ نرمی سے وجہ دریافت کریں اور اس کا مسئلہ جان کر اسے کوئی مفید مشورہ دے سکیں تو کیا ہی اچھا ہو گا۔ ضروری نہیں کہ ہمیشہ اس کی چھٹی یا تاخیر پر شک کا اظہار کیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا بچہ یا گھر کا کوئی اور فرد سخت بیمار ہو جس کی تیماری داری کے لیے چھٹی کرلے یا آپ کے گھر آنے میں دیر کردے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی ضروری کام نمٹانا ہو جس طرح آپ کو اچانک اور دن میں کہیں جانا پڑ جاتا ہے بالکل اسی طرح وہ بھی ضرورت کے تحت آج کہیں گئی ہو۔ اس طرح تو کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

بس بات سمجھنے کی ہے۔ دیکھیے ماسی ایک طرح سے آپ کی مددگار ہے۔ اگر وہ کوئی غلطی کرتی ہے یا کام سے جان چھڑاتی ہے توآپ اسے ڈانٹیں اور سمجھائیں بھی، مگر اس کی تذلیل نہ کریں۔ زبان کے نشتر چلاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ بھی انسان ہے اور کوتاہی کرسکتی ہے۔ یاد رکھیں گھر میں آپ کے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں جو ایسے کسی واقعے کا برا اثر لیں گے اور وہ بھی اسی قسم کا برتاؤ سیکھیں گے جو غلط ہے۔ اگر آپ گھر کے ملازموں سے بدکلامی کریں گی، ہر بات کو غلط انداز سے سوچیں گی تو کیا آپ یہ توقع رکھ سکتی ہیں کہ آپ کے بچے خوش اخلاق بنیں گے۔

اگر آپ اپنی ملازمہ کو عزت دیں گی اور باوقار انداز سے بلائیں گی تو بچے بھی یہی سیکھیں گے اور اس کا مثبت اثر ان کی شخصیت پر پڑے گا۔ خود بھی سمجھیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ یہ عورت میری مددگار ہے، یہ میری دوست کی طرح ہے اور میرا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اسے بھی ویسا ہی احترام دینا ہے جیسا گھر کے کسی فرد کو دیا جاتا ہے۔ اکثر ماسیاں اپنی چھوٹی بچیوں کو بھی اپنے ساتھ لے آتی ہیں تاکہ کام نمٹانے میں اس کی مدد کریں۔ ان سے اچھا سلوک کریں اور خیال رکھیں کہ یہ بھی آپ کے بچوں کی طرح ناسمجھ ہیں۔ کسی موقع پر جھڑکنے اور سخت لہجے میں بات کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیں۔ یہ پھول جیسے بچے خوف زدہ اور پریشان ہو سکتے ہیں اور یہ کسی طرح مناسب نہیں ہو گا۔ اگر آپ کو یہ خدشہ ہے کہ ماسی کی بچی کسی چیز کو نقصان پہنچا سکتی ہے یا کسی وجہ سے آپ کو اس کے بچوں کا گھر آنا پسند نہیں تو آپ اچھے الفاظ میں منع کر سکتی ہیں۔ یہ زیادہ بہتر ہو گا۔

ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ مہمانوں کے سامنے بھی ماسی کو کسی کوتاہی یا غلطی کی صورت میں ’کام چور، ڈھیٹ اور لالچی‘ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ کبھی سوچا ہے وہ کتنی سبکی محسوس کرتی ہوگی اور اس قسم کا رویہ آہستہ آہستہ اس کے دل میں آپ کے لیے نفرت اور منفی سوچ پیدا کر دیتا ہے۔ اپنی سوچ کا زاویہ بدلیں اور مثبت انداز سے معاملات کو دیکھیں، پرکھیں اور جانیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ’’ ماسی ‘‘ آپ کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔

اگر آپ کی ماسی کام چور ہے اور محنت سے جی چراتی ہے تو یہ بھی دیکھ لیں کہ آپ اسے پورے گھر کے کام کروانے کا کیا معاوضہ دے رہی ہیں۔ کہیں بہت کم پیسے پر آپ اس کی مجبوری سے فائدہ تو نہیں اٹھا رہیں؟ اگر کام کی نوعیت اور محنت کے مطابق معاوضہ دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے اور آپ کے کاموں پر بھرپور توجہ دے۔ ڈانٹ ڈپٹ بھی ضروری ہے اور اپنی مرضی اور اصول کے مطابق کام بھی ضرور کروائیں لیکن ساتھ ہی احترام اور عزت کا تعلق برقرار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔