جنت نظیر میں جنونیت کا راج

عابد محمود عزام  منگل 6 نومبر 2018

کشمیر میں بھارتی جنونیت راج کر رہی ہے۔ برسوں سے پوری مقبوضہ وادی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیریوں پر کھل کر مظالم ڈھارہی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم برداشت کی حدوں سے تجاوز کر چکے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد وخواتین غرض کوئی بھی بھارتی جارحیت سے بچ نہیں سکا۔ نوجوانوں کو اغوا کر کے لاپتا کر دیا جاتا ہے اور بعد ازاں بے دردی سے مسخ شدہ لاشیں توہین آمیز انداز میں پھینک دی جاتی ہیں ۔

بچوں پر ایسا بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے کہ اس کے تصور سے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور انسانیت شرمانے لگتی ہے ، خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ بوڑھوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور حق خود ارادیت اور حریت کی بات کرنے والے ہر فرد کو شہید کردیا جاتا ہے۔ بھارت نے کشمیری عوام کی آواز بند کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ دراز کیا ہوا ہے۔ دنیا جان چکی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے حصول کی جدوجہد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ کشمیری عوام تو ایک عرصے سے اپنے حقوق کی آزادی کے لیے بھارت کی انتہاپسندی، جارحیت اور استعماریت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔

آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیں جنگی جرائم سے بھی بڑھ کر مظالم کی داستانیں رقم کررہی ہیں، جہاں گزشتہ ایک مہینے سے جاری کشمیریوں کے قتل عام میں دوسو سے زائد بے گناہ کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوچکے ہیں، جب کہ ہزاروں کشمیری بشمول خواتین اور بچے خون میں لت زخمی حالت میں اسپتالوں میں پڑے اقوام عالم کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی مظالم کی آزادانہ تحقیقات کا تقاضا کیا ہے۔

بھارت نے کشمیریوں کی تمام حریت قیادت کو گرفتار کرکے مقبوضہ وادی میں عملاً کرفیو نافذ کیا ہوا ہے، اس کے باوجود وہ کشمیریوں کی آواز دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ کشمیری عوام بھارتی تسلط کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں، جس کی وجہ سے جنونی مودی سرکار بوکھلائی ہوئی ہے۔ مودی حکومت کے دور میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔

کشمیر کی تحریک آزادی میں شامل تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھارت کی مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا اچھوتا استعمال شروع کیا تو بی جے پی سرکار کے انتہاء پسندوں کو اپنے جنونی چہرے بے نقاب ہونے پر کشمیر پر اپنی گرفت کمزور ہوتی نظر آئی، چنانچہ مودی سرکار نے چار سال قبل مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کرکے کشمیری نوجوانوں کی آواز بند کرنے کی کارروائیوں کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہیں۔

مودی سرکار کے اقتدار کے چار سالوں میں نوجوان کشمیری لیڈر برہان وانی سمیت اب تک سیکڑوں کشمیری نوجوان شہید اور ہزاروں مستقل اندھے اور اپاہج ہوچکے ہیں، مگر بہادر کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار امریکا نے بھارت سے کبھی نہیں پوچھا کہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کیوں کی جارہی ہے اور آزادی کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں پر عرصہ حیات کیوں تنگ کیا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ انڈونیشیا ہو یا سوڈان اقوام متحدہ غیر مسلم تحریکوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچتی ہے اور تیمور اور جنوبی سوڈان کی آزاد ریاستیں وجود میں آ جاتی ہیں مگر سات عشرے گزرنے کے باوجود اس ادارے اور طاغوتی طاقتوں کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا مسلسل بہتا ہوا خون نظر نہیں آتا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علاقائی اور عالمی امن کی مسئلہ کشمیر کے قابل عمل اور ٹھوس حل سے ہی ضمانت مل سکتی ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اس خطے اور اقوام عالم میں امن و سلامتی پر ہمہ وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

بھارت کی مودی سرکار تو جنگی جنونیت میں باولی ہوئی بیٹھی نظر آتی ہے جو نہ صرف یواین قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ نہیں، بلکہ مودی سرکار نے پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بد نظریں گاڑھ رکھی ہیںِ۔

تقسیم ہند کے وقت متعصب ہندو لیڈران نے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ علاقہ قرار دے کر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو درخواست لے کر اقوام متحدہ جا پہنچے، مگر یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو ان کے لیے استصواب کے اہتمام کا کہا، بھارت نے اپنی ہی درخواست پر منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا اور کشمیریوں کے استصواب کے حق سے منحرف ہو کر اپنے آئین میں ترمیم کرلی اور مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔

پاکستان نے کشمیر سمیت تمام معاملات بھارت کے ساتھ ہمیشہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی سازشوں کو پر زور انداز میں علاقائی اور عالمی فورموں پر بے نقاب کرنے کا سرعت کے ساتھ سلسلہ شروع ہوا، جب کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم مودی کو دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا پیغام پہنچایا جس پر بھارتی قیادت نے بوکھلا کر پاکستان کے خلاف نئی سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا۔

عمران خان نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک میں پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی باضابطہ میٹنگ کی تجویز بھی پیش کی جو مودی سرکار نے پہلے تو قبول کرلی جس کی بنیاد پر میٹنگ کی تاریخ اور ایجنڈا بھی طے ہوگیا مگر پھر مودی سرکار یکایک اس آمادگی سے مکر گئی۔

کشمیر میں بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے، لیکن اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے ہر انٹرنیشنل فورم پر نہایت مضبوطی سے اپنا موقف پیش کریں اور انسانی حقوق کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کے خلاف ایسا عالمی دباؤ تخلیق کریں جس سے بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے۔

ہمیں چاہیے کہ بہترین اور موثر پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے قیامت خیز تشدد کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانے کے لیے بھی مناسب حکمت عملی وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بھی یکجہتی کا ایسا پیغام دیتے رہنا چاہیے جس سے ان کے پائے استقامت کو مزید تقویت ملے اور حوصلہ افزائی کے اس تاثر سے ان کی تحریک آزادی میں جب ضرورت ہو نئی روح پھونکی جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔