بے نامی کھاتوں کی سخت مانیٹرنگ، دولت چھپانے کیلیے لاکرز کا حصول بڑھ گیا

احتشام مفتی  منگل 6 نومبر 2018
مارکیٹ میں25سے40ہزار مالیت کے بانڈز کی طلب میں اضافہ ،بھاری مالیت بانڈزبینک لاکرز رکھے جانے کا امکان ہے، ذرائع بینکنگ۔ فوٹو: سوشل میڈیا

مارکیٹ میں25سے40ہزار مالیت کے بانڈز کی طلب میں اضافہ ،بھاری مالیت بانڈزبینک لاکرز رکھے جانے کا امکان ہے، ذرائع بینکنگ۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 کراچی: فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے بے نامی بینک کھاتوں کی سخت مانیٹرنگ کے باعث امرا نے اپنے زر اثاثہ کوخفیہ رکھنے کی غرض سے بینک لاکرز کے حصول پررحجان غالب کردیا ہے۔

بینکنگ سیکٹرکے باخبرذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایف بی آر بے نامی اکاؤنٹس بے نقاب ہونی کے بعد قابل ٹیکس آمدن کے حامل شہریوں نے ایف بی آر کی نظروں سے بچنے کے لیے بینک لاکرزکوترجیج دینا شروع کردی ہے۔اس صورتحال کے سبب بینک کراچی میں بینک لاکرزکا حصول محال ہوگیاہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر کے ریڈار سے بچنے کے لیے  بینک لاکرزکا استعمال بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ جاری حالات کے تناظر میں کھاتیداروں کے کیے بینک لاکرز زیادہ قابل اعتماد ثابت ہورہا ہے۔

ملک بھر میں جعلی اور بے نامی بینک کھاتوں کے خلاف ایف بی آرکے کریک ڈاؤن کے بعد عوام نے بینک لاکرز میں پرائز بانڈ، ڈالر اور رقومات رکھوانا شروع کردیے ہیں کیونکہ مرکزی بینک کے ضوابط کے مطابق بینکوں کے لاکرز میں نقد رقم ،ڈالر،پرائز بانڈ اور سونا رکھنے پر کوئی پابندی عائد  نہیں ہے لہذالاکرز مالکان اپنے لاکر میں قیمتی اشیا رکھنے میں آزاد ہیں اورکریک ڈاؤن کے بعد بینک لاکرز نقد اور ڈالرز چھپانے کے لیے سب سے محفوظ جگہ تصورکی جانے لگی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کمرشل بینکوں کی برانچوں میں3 اقسام کے لاکرز دستیاب ہوتے ہیں،چند ہزار روپے سالانہ فیس دیں اور کروڑوں روپے چھپانے کے لیے محفوظ سہولت بھی حاصل کرلیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کاروباری افراد بھی لین دین کے لیے بینک لاکرز استعمال کرنے لگے کیونکہ مارکیٹ میں25سے40ہزار روپے مالیت کے بانڈز کی طلب میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔