افغان انتخابات خطے میں امن کیلئے پائیدار ثابت ہوسکتے ہیں؟

شاہد اللہ اخوند  بدھ 7 نومبر 2018
افغانستان کےلیے یہ انتخابات کسی طور بھی پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

افغانستان کےلیے یہ انتخابات کسی طور بھی پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

افغانستان میں عام انتخابات ایسے وقت میں منعقد ہوئے جہاں ایک طرف طالبان نے افغانستان کے تقریباً ستر فیصد علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، جب کہ دوسری جانب امریکہ نے بھی افغانستان سے انخلا کے اشارے دیے ہیں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر میں طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ملاقات امریکی انخلا میں پیش رفت ثابت ہورہی ہے۔ اس بناء پر افغانستان میں 20 اکتوبر کو منعقد ہونے والے انتخابات افغان قوم کے مستقبل کےلیے اہمیت کے حامل ہیں۔

افغانستان میں انتخابات اور اس کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت کی کیا حیثیت ہوگی، اس پر تجزیہ کرنے سے پہلے 20 اکتوبر کے انتخابات پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔

افغانستان کا حکومتی نظام صدارتی طرز کا ہے۔ ملک میں دو ایوانی مقننہ موجود ہے جو صدر کی تشکیل کردہ حکومت کے تجویز کردہ قوانین کی منظوری دینے یا مسترد کرنے کی مجاز ہے۔

پارلیمان کا ایوانِ بالا “مشرانو جرگہ” کہلاتا ہے جس کا انتخاب باالواسطہ طریقے سے عمل میں آتا ہے۔ ایوان کے 102 ارکان میں سے ایک تہائی (32 ارکان ) کا انتخاب ضلعی کاؤنسلز تین سال کی مدت کےلیے جب کہ مزید ایک تہائی ارکان کا انتخاب صوبائی کاؤنسلز چار سال کی مدت کیلیے کرتی ہیں۔ ایوان کے بقیہ 34 ارکان ملک کے صدر کی جانب سے پانچ سال کےلیے نامزد کیے جاتے ہیں۔

وولیسی جرگہ کے نام سے معروف پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں زیادہ خود مختار حیثیت کا حامل ہے جس کے 249 ارکان کا انتخاب عوام بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست پانچ سال کی مدت کےلیے کرتے ہیں۔ آئین کی رو سے ملک کا صدر اپنی کابینہ کے ارکان کے انتخاب کی توثیق ایوانِ زیریں سے کرانے کا پابند ہے۔

ایوانِ زیریں میں ملک کے تمام 34 صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی گئی ہے۔

افغانستان کے آئین کے مطابق ایوان زیریں کی کل نشستوں کی ایک چوتھائی تعداد (249 میں سے 68 نشستیں) خواتین کےلیے مختص ہیں۔

2001 کے امریکہ حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے گرائے جانے کے بعد پارلیمنٹ کے تیسرے عام انتخابات جو تین سال کی تاخیر سے 20 اکتوبر 2018ء کو منعقد ہوئے، اس سے پہلے ان کی تاریخ 15 اکتوبر 2016ء تھی جو بعد میں 7 جولائی 2018ء کی گئی اور اب 20 اکتوبر 2018ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ گزشتہ انتخابات سال 2010ء میں انعقاد پذیر ہوئے تھے اور آئین کے مطابق پانچ سال بعد سال 2016 میں سترہویں مجلس کی تشکیل کےلیے منعقد ہونا چاہئے تھے۔ لیکن سال 2014ء میں صدارتی انتخاب کے بعد انتخابی اصلاحات کے ضمن میں ہونے والے مباحث اور اختلافات کی بنا پر انعقادِ انتخابات پارلیمان میں تین سال کی تاخیر واقع ہوئی۔ اور اب 2018ء میں ضلعی و بلدیاتی انتخابات کے ساتھ منعقد ہو رہے ہیں۔ جب کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار بائیو میٹرک طریقے سے ووٹنگ کا عمل ہوا۔

20 اکتوبر 2018 کے تیسری پارلیمانی انتخابات میں درجنوں چھوٹی بڑی پارٹیوں، گروپوں اور سینکڑوں آزاد امیدواروں سمیت کل 2450 امیدوار پارلیمان نے 250 نشستوں کےلیے حصہ لیا۔ جس میں 447 خواتین امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی سیاسی پارٹیوں میں صلاح الدین ربانی کی جمعیت اسلامی، محمد محقق کی پیپلز اسلامک یونٹی پارٹی آف افغانستان، کریم خلیلی کی حزب وحدت اسلامی، صبغت اللہ سنجار کی حزب جمہوری افغانستان، عبدالرشید دوستم کی جنبش ملی اسلامی شامل ہیں۔ ان پارٹیوں کے بالترتیب 23، 11، 7، 9 اور 10 ارکان موجودہ پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں۔ اسی طرح روسی فوج کے مقابل اور طالبان کے بعد دوسرا بڑا گروپ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی بھی حالیہ الیکشن کے عمل میں شامل اہم پارٹیوں میں سے ایک ہے۔

افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کے سلسلے میں ملک بھر میں 7355 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جانے تھے لیکن سکیورٹی خدشات کے باعث ان میں سے ہفتے کو صرف 5100 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ ہوئی۔ الیکشن کے روز 21 ہزار پولنگ اسٹیشنوں کی سیکورٹی کےلیے 70 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔ امریکی اور نیٹو افواج سمیت فضائیہ کو ہائی الرٹ کر دیاگیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان حفیظ اللہ ہاشمی کے مطابق 32 صوبوں میں 90 لاکھ ووٹروں نے رجسٹریشن کرائی۔ جب کہ سیکیورٹی صورت حال کے باعث قندہار اورغزنی میں پولنگ ایک ہفتے کےلیے ملتوی کی جاچکی ہے، افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل نے صوبے قندھار اور غزنی میں پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنے کی سفارش کی تھی۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پولیس چیف عبدالرزاق کے قتل کے بعد قندھار میں حالات اس قابل نہیں کہ پرامن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے، لہذا کشیدہ صورت حال میں الیکشن کے انعقاد سے گریز کیا جائے۔

ووٹنگ صبح سات بجے شروع ہونی تھی، لیکن 75 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے عمل میں چار سے پانچ گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق طالبان حملوں کے خطرے کے پیش نظر ووٹر گھروں سے نکلنے میں خوف کا شکار رہے۔ یوں زیادہ تر مقامات پر ووٹنگ طویل تاخیر کا شکار ہوئی۔ جس کے سبب ووٹنگ کے عمل میں رات 8 بجے تک توسیع کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ جن پولنگ اسٹیشنز پر کسی وجہ سے ہفتے کو پولنگ منعقد ہی نہیں ہوسکی وہاں اتوار کو پولنگ کرائی جائے گی۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے حملوں کی دھمکی پر عمل درآمد کے نتیجے میں انتخابات کے دوران سارا دن پولنگ اسٹیشنوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جس میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ افغان وزارت خارجہ کے مطابق الیکشن والے روز طالبان حملوں میں ہلاک افراد کی تعداد28 ہے۔ جس میں 11 سیکورٹی اہلکار شامل تھے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں سیکورٹی سے متعلق 192 واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس سے قبل افغانستان میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے الیکشن کمیشن میں 4 سے زائد بار خود کش حملے ہوئے اور 6 انتخابی جلسوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور 8 انتخابی امیدواروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ ایک حملے میں قندھار پولیس چیف عبدالرزاق، گورنر اور انٹیلی جنس سربراہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ طالبان نے پولیس چیف پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ابتدائی نتائج الیکشن کے 20 روز بعد 10 نومبر کو متوقع ہیں۔ اس طویل عمل کے دوران ہی شکایات اور ان کا ازالہ کیا جائے گا جبکہ حتمی نتائج کا اعلان 20 دسمبر کو ہوگا۔

یہ تھی افغانستان میں منعقد ہونے والے انتخابات کی کہانی!

اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابات کی افغان عوام کے ہاں کوئی حیثیت ہے؟

کیا افغانستان میں قیام امن یا افغانستان کےلیے بہتر حکومت کے وجود میں آنے کےلیے یہ انتخابات کردار ادا کرسکتے ہیں ؟

ان دو بنیادی سوالوں کا جواب تاریخ کا ایک طالب علم “نہیں” میں دے گا۔

اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں چند قابل ذکر ہیں:

(1) 2001 کے بعد سے بعد اب تک ان انتخابات اور اس کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے افغانستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ماسوا افغانستان میں قیام امن کےلے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے۔ جن کو بنیاد بنا کر افغان عوام کو تسلی دی جاسکے۔

(2) افغان حکومت کی جانب سے منعقد ہونے والے الیکشن پر خود افغان حکومتی اراکین اور عوام کے تحفظات رہے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

اول یہ کہ الیکشن کے پس منظر سے واقف ذرائع اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اول تو ان انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں، کیونکہ یہ ملک کے محض تیس سے پینتیس فیصد علاقوں میں کرائے جا سکے جس میں تمام افغانوں کی آراء شامل نہیں ہیں۔ افغانستان میں حکومت کے مد مقابل دوسرا بڑا گروپ طالبان کا ہی ہے۔ جب کہ طالبان نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو لامحالہ افغانستان کے تمام عوام کی رائے اس میں ہرگز شامل نہیں۔

معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک بڑے حصے کو محروم رکھ کر کرائے جانے والے افغان پارلیمانی انتخابات کی کریڈبیلٹی کو کون مانے گا؟ ملک کے 50 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول اور 70 فیصد علاقوں پر ان کا اثر و رسوخ ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان کی نصف کے قریب آبادی طالبان کے ساتھ ہے، جنہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ایسی صورت حال میں الیکشن کیسے شفاف ہو سکتا ہے, اور اس کی کیا ساکھ ہوگی؟

دوم یہ کہ نتائج کا فیصلہ بھی بیرونی قوتوں نے کرنا ہے, کیوں کہ اب تک برسر اقتدارآنے والے سربراہان میں سے حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں امریکہ کے ہاں میں ہاں ملانے والے ہیں۔ افغان قوم نے پہلے ہی دونوں کو امریکہ کی جانب سے مسلط شدہ گردانا تھا، اور اب بھی افغان قوم کی جانب سے یہی تاثر قائم ہے کہ یہ انتخابات محض دکھاوا ہیں۔ کیوں کہ کابل میں موجود ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ تین برس سے زیر التواء الیکشن کرانا افغان حکومت اور امریکہ دونوں کےلیے ضروری ہو گیا تھا، تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ طالبان کے حملوں کے باوجود ملک میں جمہوریت کا عمل جاری ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ الیکشن محض دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ پس پردہ اس نے مذاکرات کا جو عمل شروع کر رکھا ہے اس میں مزید پیش رفت ہونے سے پہلے افغانستان میں پشتون اکثریت والی ایک نئی حکومت برسراقتدار آ جائے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکے۔ اس سے قطع نظر کہ حالیہ الیکشن میں کون سی پارٹی یا گروپ اکثریتی ووٹ حاصل کرتا ہے، نئی حکومت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مرضی سے ہی بنے گی۔ الیکشن سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اس خدشے کا اظہار حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھی کیا تھا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ پارلیمانی انتخابات افغانستان کے محض 36 فیصد حصے میں ہوں گے۔ جبکہ موجودہ حکومت اور کابل میں مختلف ممالک کے غیر ملکی سفارت خانے پارلیمانی الیکشن کے نتائج انجینئرڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گلبدین حکمت یار کے بقول پارلیمانی الیکشن میں فاتح اور شکست کھانے والوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن یا بیلٹ بکسوں میں ڈالے جانے والے عوامی ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ غیر ملکی طاقتوں کے احکامات اور سفارشات پر کیا جائے گا۔ یہ طاقتیں ہی فیصلہ کریں گی کہ کس امیدوار کو ہارنا اور کس کو جیتنا چاہئے۔

افغانستان میں الیکشن کی حیثیت وہی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کی ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی الیکشن یہی بھونڈی توجیہ پیش کرنے کےلیے کرائے جاتے ہیں کہ وہاں جمہوری عمل جاری ہے۔ لہٰذا اسے بھارتی فوج کے زیر تسلط علاقہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو قانونی قرار دینے میں مسلسل ناکام ہے۔ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں الیکشن کے نام پر ڈرامہ کر کے اسی نوعیت کی کوششیں امریکہ کی جانب سے کی جا رہی ہے۔

2001 میں افغانستان پر قبضے کے بعد کرزئی کی حکومت بنانے کےلیے امریکہ نے ساڑھے تین ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔ جس میں تمام وار لارڈز کو خریدنے کےلیے خرچ کی جانے والی خطیر رقم شامل ہے۔ کابل کی موجودہ اتحادی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے مطابق بنی۔ یہی کچھ حالیہ الیکشن کے نتائج اور نئی حکومت کے سلسلے میں بھی ہو گا۔ حالیہ الیکشن کے حوالے سے امریکہ نے پلان ’’اے‘‘ اور پلان ’’بی‘‘ بنا رکھا ہے۔ اس وقت طالبان کے ساتھ کسی سیاسی معاہدے پر پہنچنے کےلیے امریکہ حد درجے کوششیں کر رہا ہے۔ ان امریکی کوششوں میں پاکستان کے علاوہ قطر، سعودی عرب، چین، ایران اور روس سب شامل ہیں۔ طالبان کے ساتھ اگر امریکہ کا کوئی سیاسی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر نئی کولیشن افغان گورنمنٹ میں طالبان کو بڑا حصہ دیا جائے گا۔ اور اگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو پاتیں تو پلان ’’بی‘‘ کے تحت امریکہ گلبدین حکمت یار کو وزیراعظم بنانے پر غور کر رہا ہے جو پہلے بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں اور اپنے دور کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں بھی کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور اتحادی حکومت بننے کا ہی امکان ہے جس میں گلبدین حکمت یار کی شکل میں پشتونوں کو بڑا حصہ دیا جا سکتا ہے۔

سوم یہ کہ انتخابی عمل کے آغاز سے ہی دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے بے تحاشا الزامات کے باعث پورے انتخابی عمل کی شفافیت اور اس کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔

طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوجوں کی موجودگی میں افغانستان میں صاف اور شفاف الیکشن ممکن نہیں۔

کیوں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں انتخابات کے نتائج عموماً چوبیس گھنٹے کے اندر آ جاتے ہیں۔ تاہم افغانستان میں یہ عمل قدرے طویل ہوگا۔ اس کا ایک سبب لاجسٹک چیلنجز ہیں، جس میں ملک کے غیر محفوظ اور دور دراز علاقوں سے بیلٹ بکسوں کو کابل پہنچانے کے علاوہ مختلف مراحل میں ووٹوں کی گنتی اور تصدیقی عمل ہے۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشنوں میں مبصرین کی موجودگی میں پہلے گنتی ہوگی اور پھر ابتدائی نتائج کی شیٹ محفوظ بیگ میں کابل بھیجی جائے گی جبکہ ان نتائج کی ایک کاپی پولنگ سینٹر کے پاس آویزاں کی جائے گی۔ دیگر کاپیاں امیدواروں اور صوبائی شکایتی کمیشن کو بھیجی جائیں گی۔ جب ایک بار بیلٹ باکسز الیکشن کمیشن کے مرکزی آفس میں پہنچ جائیں گے جہاں ووٹوں کی گنتی دوبارہ ہوگی۔ اس بناء پر ووٹنگ کے اس تمام عمل کو شفاف کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔

چہارم یہ کہ انتخابی امیدواران بھی افغانستان کےلیے خاصی بہتر دکھائی نہیں دیتی۔ کیوں کہ کسی بھی امیدوار کے پوسٹر اور منشور میں حملہ آوروں کی موجودگی کے بارے میں کوئی پالیسی درج نہیں ‏ہے۔ ایک ایسی صورت حال اور ماحول میں جہاں دن رات ملک کی فضا اور سرزمین حملہ آوروں کے کنٹرول میں ہے، کابل انتظامیہ کو ‏اتنا بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کتنے طیارے ملک کی حدود میں داخل ہوئے اور کتنے طیاروں نے ملک سے باہر پرواز کی۔ کتنے ہھتیاروں کو ملک ‏میں لایا گیا ہے اور کہاں پر اور کن صوبوں میں وہ ہتھیار منتقل کیے گئے ہیں۔ کیا ان حالات میں جعلی انتخابات کی کوئی قانونی اور اخلاقی ‏حیثیت ہے؟ اس کا جواب بہت واضح ہے کہ دنیا کے کسی قانون کے تحت ایسے انتخابات منعقد نہیں ہوا کرتے۔ افغانستان گذشتہ سترہ برسوں سے امریکی قبضے میں ہے، ملک کے تمام اختیارات امریکیوں کے پاس ہے، حتیٰ کہ اپنی مرضی کے مطابق کاروائیاں کر رہی ہیں، فوجی اڈے بنارہے ہیں، افغان فضائی حریم کو کنٹرول کررہا ہے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے نصب اور عزل کے اختیارات بھی ان کے پاس ہیں۔

ان تمام تر صورتحال سے یہ تصور بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ افغانستان کےلیے یہ انتخابات کسی طور بھی پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے جب تک امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیوں کا انخلاء نہیں کرتا۔ افغانستان امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔