اسرائیل نامنظور کیوں؟

صابر ابو مریم  منگل 6 نومبر 2018
پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں سے ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں سے ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان سے قبل عین اس وقت کہ جب دوسری طرف سرزمین فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کو قیام بخشنے کی برطانوی سازش تکمیل کو پہنچ رہی تھی، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ، ’’برصغیر کے مسلمان ہر گز یہ قبول نہیں کریں گے کہ فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ برطانوی سامراج اتنی بڑی خیانت کرے جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ارض مقدس فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود بخشنا ہم کسی طور قبول نہیں کریں گے۔ برصغیر کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کریں گے؛ اور ہر ممکنہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے وہ نظریات و افکار ہیں کہ جن کا ذکر انہوں نے مفتی اعظم فلسطین کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کیا اور برطانوی سامراج کو متنبہ کرتے ہوئے لکھے گئے خطوط میں بھی بارہا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قائداعظم کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصول طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیں گے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد اعظم نے فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا، اور تا حال پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ دنیا بھر میں کارآمد ہے، جبکہ اسرائیل کےلیے نہیں۔

حالیہ دنوں جہاں امریکہ نے ایک طرف فلسطین کا سودا کرنے کےلیے عرب ممالک پر دباؤ بڑھا دیا ہے، وہیں اسرائیل نے بھی چالاکی سے عرب دنیا کے ممالک بالخصوص عرب بادشاہتوں کی نئی نسل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں تا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے قبر میں دفن کر دیا جائے، اور آئندہ آنے والی نسلوں کو فلسطین کا نام تلک یاد نہ رہے۔

امریکی سامراج اور اسرائیل کی اس مشترکہ مہم کا نتیجہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ پاکستان کو بھی اس سازش میں لپیٹنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب کی ایک ویڈیو کلپ منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں انہوں نے فلسطین کے مسئلہ کو صرف علمائے کرام تک محدود بتاتے ہوئے تضحیک آمیز لہجے میں تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ فلسطین علمائے دین کا کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں تعینات اسرائیلی سفیر سے ملاقات کی، وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا حرج ہے؟ جبکہ اسرائیل پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور ٹیکنالوجی وغیرہ بھی دے سکتا ہے۔ اسی طرح موصوف نے یہ تاثر دیا کہ شاید مسئلہ فلسطین کی حمایت کرنے والے افراد کی یہودیوں سے دشمنی ہے، اور وہ یہودی دشمنی میں اسرائیل کے مخالف ہیں؟

اپنی گفتگو کے نکات میں کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو مسئلہ فلسطین حل کروانے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ان عرب ممالک کی مثال بھی دی کہ عرب ممالک نے تعلقات قائم کر لیے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟

آئیے اب جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کی خدمت میں انتہائی مودبانہ انداز میں تمام باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات جو انہوں نے کی کہ مسئلہ فلسطین دینی یا علمائے دین کا مسئلہ ہے تو یہ درا صل انہوں نے نہ صرف قائد اعظم کے افکار کی دھجیاں اڑائیں، بلکہ پاکستان کے عوام کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ایک سو ایک برس سے فلسطین کا دفاع کرنے والے فلسطینی شہداء کے لہو کی بھی توہین کی ہے۔ دراصل فلسطین کا مسئلہ مذہب و لسان سے بالاتر ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے۔ یہاں شاید موصوف امجد شعیب صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ فلسطینی عرب مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں جو فلسطین کے دفاع کی ایک طویل لڑائی اور جدوجہد انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔

دوسری بات جو جنرل (ر) امجد شعیب صاحب نے بیان کی ہے کہ شاید مسلمانوں کو یہودیوں سے کوئی تکلیف ہے، اس لیے اسرائیل سے تعلقات نہیں چاہتے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حامی تحریکیں کبھی بھی یہودیوں کی دشمن نہیں، بلکہ شاید جنر ل صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودیوں کی ایک تنظیم موجود ہے جو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور فلسطین کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو واضح ہو کہ مسلمان یہودیوں کے دشمن نہیں، بلکہ اس ظلم اور بربریت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو غاصب اسرائیل اور صہیونزم فلسطین سمیت خطے میں انجام دے رہی ہے۔ اور تحریک آزادی فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور یہودی فلسطینیوں کا خون بھی شامل ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں اسرائیلی سفیر کے ساتھ جو ملاقات کی اس کا احوال تو خود بیان کر دیا، لیکن شاید ایسی کئی اور ملاقاتوں کا ذکر آئندہ کبھی وہ بیان کرنا پسند کریں گے۔ بہر حال اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اسرائیل کے دوست ہو چکے ہیں تو ہم کیوں نہ ہوں؟ یہ ایک اور بڑی غلطی اور پاکستان کے عوام کو اندھے کنویوں میں دھکیلنے کے مترادف ہے کہ اگر عرب ممالک اور ان کی بادشاہتیں اسرائیل کی غلامی اختیار کر چکی ہیں تو ایسا کس کتاب میں آیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام بھی اسرائیل کے غلام بن جائیں؟ اگر اسرائیل کی دوستی اتنی ہی ناگزیر تھی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بارے میں سخت موقف کیوں اپنایا تھا؟ یا یہ کہ اب یہ موصوف قائداعظم اور علامہ اقبال سے زیادہ تجربہ کار اور عقلمند ہیں؟

چوتھی بات میں موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے کیوں نہ ٹیکنالوجی لے اور اس طرح کے شعبوں میں تعاون لے۔ پھر اسی طرح موصوف ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنالے تو فلسطینیوں کا ستر سالہ مسئلہ بھی حل کروا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک طرف اسرائیل سے امداد لے اور دوسری طرف مسئلہ فلسطین حل کروانے کی قوت بھی؟ کیا دنیا اس بات کی شاہد نہیں ہے کہ جس جس ملک نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائے یا کوشش کی، اس کے بعد ان ممالک کا کیا حشر ہوا اور و ہ کس حد تک اپنی عزت و آبرو بھی کھو بیٹھے؟ کیا مصر اور دیگر عرب ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں؟ کیا امریکہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی دوست سعودی عرب کو توہین آمیز الفاظ میں دھمکی نہیں دی؟ کیا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے نتیجہ میں فلسطینی عوام کا خون بہنا بند ہو چکا ہے؟ یا یہ کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں آباد کر دیا گیا ہے؟

نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہوا، بلکہ الٹ ہوا ہے۔ اور فلسطینیوں کی مصیبتوں اور مشکلات میں دن بہ دن اضافہ کے ساتھ اسرائیل نے مزید زمینوں کو اپنے قبضہ میں لیا ہے۔ کیا ان حقائق سے ہمارے محترم تجزیہ نگار امجد شعیب آگاہ نہیں ہیں؟

معروف تجزیہ نگار صاحب نے شاید ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یعنی اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے اور تعلقات استوار کرتا ہے تو پھر آج تک جو کچھ بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہوا، پاکستان اس میں برابر کا شریک ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف کشمیر کا مسئلہ بھی سبکدوشی کی طرف چلا جائے گا، جبکہ پاکستان اسرائیل اور ہندوستان تعلقات ہوں گے تو پھر نہ کشمیر کی بات کی جائے گی اور نہ ہی فلسطین کی۔ دراصل امجد شعیب صاحب نے فلسطین و کشمیر کے مسائل کو نمٹانے کا آسان حل پیش کیا ہے، اور وہ حل یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے۔

اس طرح کے بیانات ایسے حالات میں سامنے آ رہے ہیں کہ جب چند روز قبل ہی ایک طیارہ جو اسرائیل سے پروز کرتا ہوا عمان اور پھر اسلام آباد پہنچا، اور دس گھنٹے قیام کے بعد روانہ ہوگیا، یقیناً اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس طیارے میں موجود اسرائیلی لوگوں کی آمد کے کیا مقاصد تھے۔ کیونکہ عین اسی وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو مسقط کا دورہ کر رہے تھے اور قوی امکان ہے کہ نیتن یاہو کے قریبی افراد نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا ہو اور پاکستان میں موجود میر جعفر اور میر صادق سے ملاقاتیں کی ہوں، اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کےلیے رائے عامہ ہموار کرنے کا ٹاسک دیا ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے وجود کو قبول کرنا یا پاکستان کےلیے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات کرنا درا صل حریت پسند فلسطینی شہداء اور عوام کے ساتھ خیانت ہوگی، اور کشمیر پر بھارتی تسلط اور ناجائز قبضے کو بھی فلسطین کی طرح امر واقعی سمجھ کر قبول کرنا ہو گا۔ اس مائنڈ سیٹ کے حق فروش افراد و طبقات یہ سب انسانیت کی جبین پر بدنما داغ ہیں اور عظیم ترین انسانی اقدار کا سودا مادی مفادات سے کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ایسے تمام صہیونی آلہ کاروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے پاکستان کی بنیادوں سے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور افکار کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے عوام کی فلسطینی و کشمیری بھائیوں کے ساتھ دلی ہمدردی کسی مذہبی یا لسانی تعلق کی محتاج نہیں بلکہ یہ حقیقی انسانی ہمدردی ہے کہ جس کا درس بانیان پاکستان نے قوم کی رگوں میں اتارا تھا۔

ایک اور اہم بات واضح ہو کہ اسرائیل کو قبول نہ کرنے والوں کو ان کا یہودی ہونے پر اعتراض ہرگز نہیں بلکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے کہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں یا کسی اور دین سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمیں اسرائیل کو اس کے غاصب، تجاوز و تسلط اور قاتل ہونے پر اعتراض ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کا وجود فلسطین کی مقدس سرزمین پرقائم کیا گیا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی نا انصافی ہے۔ اور اس کام کےلیے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا بلکہ ستر سال سے تاحال قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل نا منظور۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، صہیونی آلہ کار مردہ باد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔