بس ایک قدم

ایاز خان  بدھ 7 نومبر 2018
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ریاست کو مبارک ہو کہ اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر امن کی ایک اور مہلت حاصل کر لی۔ عوام بھی پرسکون ہیں کہ وہ اپنے ہی شہر کی سڑکوں اور گلیوں پر ایک بار پھر آزادی سے گھوم پھر سکتے ہیں۔ حکومت بھی شاد مان ہے کہ اس نے ’’محض‘‘ تین دن بعد ہی ’’تاریخی‘‘ معاہدے کے ذریعے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اپوزیشن بھی مطمئن ہے کہ اس کی طرف سے مذاکرات کے مطالبے کو پذیرائی بخشی گئی۔ مخالف فریق نے کسی کی دل آزاری یا تکلیف پر معذرت کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ اتنی بڑی ’’کامیابیوں‘‘ کے بعد اب سب کو یکسوئی کے ساتھ معمولات زندگی میں مصروف ہو جانا چاہیے۔ قومیں زندگی میں بڑی بڑی قربانیاں دیتی ہیں‘ یہاں تو صرف تین دن کی پریشانی تھی۔ تھوڑی بہت توڑ پھوڑ‘ مار دھاڑ‘ جلاؤ گھیراؤ اور کوئی ڈیڑھ‘ دو سو ارب کا معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

زندگی چونکہ معمول پر آ چکی ہے اس لیے سب کچھ بھول جانا چاہیے۔ لیکن کیا بھول جانا اتنا آسان ہے۔ کروڑوں پاکستانی تین دن جس کرب سے گزرے کیا وہ بھولنا اتنا ہی آسان ہے اور پھر اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ دوبارہ بلکہ سہ بارہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ زندگی معمول کے مطابق چلے گی۔ کسی کو عدالتی یا حکومتی فیصلے سے اختلاف ہو گا تو وہ پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرے گا۔

ایسا احتجاج جس میں دوسروں کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچے۔ فیملیز کی موجودگی میں کاروں کے شیشے نہ توڑے جائیں۔ بسوں‘ موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشوں کو نذر آتش نہ کیا جائے۔ عام شہریوں اور پولیس والوں پر ڈنڈے نہ برسائے جائیں۔ کسی کو گالی دی جائے نہ بغاوت پر اکسایا جائے اور قتل کے فتوے بھی جاری نہ ہوں۔

سوال بہت ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ لوگوں نے اس بار مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کرنے کی امیدیں کیوں باندھیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب سال پہلے فیض آباد دھرنا ہوا تھا تو اس وقت کی حکومت کہیں چھپ کے بیٹھ گئی تھی۔ تین ہفتے سے زاید یہ دھرنا جاری رہا اور پھر آخر میں مذاکرات کے بعد راستے کھول دیے گئے۔ اس بار البتہ راستے بند ہونے کی اذیت تین روز ہی جاری رہی اور حکومت نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا ایک اور عارضی حل تلاش کر لیا۔

آسیہ بی بی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتجاج کا اعلان ہوا تو وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں دوٹوک اعلان کیا کہ ریاست توڑ پھوڑ برداشت کرے گی نہ راستوں کی بندش۔ قانون کی حکمرانی کے خواہشمندوں نے امیدیں باندھ لیں کہ حکومت شاید اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ملک میں کسی فساد کی اجازت نہیں دے گی۔

وزیر اعظم اپنا ’’تاریخی‘‘ خطاب کر کے چین کے 5روزہ دورے پر روانہ ہو گئے اور فسادیوں نے آزادانہ کارروائیاں کرتے ہوئے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سے قانون کی حکمرانی کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ اس گروہ سے مذاکرات چونکہ پہلے بھی ہو چکے تھے اس لیے دوبارہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر لوگوں کی مایوسی فطری تھی۔ وزیر اعظم نے خطاب نہ کیا ہوتا تو ان کی حکومت سے اتنی توقعات نہ لگائی جاتیں۔ ایکشن شروع میں لیا جا سکتا تھا‘ جب تاخیر ہو گئی تو پھر اس مسئلے کا عارضی حل ہی بہتر تھا۔ تیسرے دن ایکشن ہوتا تو بہت خون خرابہ ہو سکتا تھا۔

فسادیوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ قیادت سمیت سیکڑوں افراد پر مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ کچھ ایف آئی آرز سیل ہیں۔حکومت پر تنقید کی گئی کہ اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل تھی وہ پھر بھی جھک گئی۔ اپوزیشن نے بھی اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سے دو قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک آواز ایکشن کی حامی تھی دوسری مذاکرات کا مطالبہ کر رہی تھی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت پر واضح کر دیا تھا کہ مذاکرات سے ہی مسئلہ حل کیا جائے۔ حکومت نے ایکشن کی طرف ایک قدم بڑھایا مگر دو قدم پیچھے ہٹ گئی اور بات چیت سے ایک معاہدہ کر لیا۔ حکومت کو اس فیصلے کی وجہ سے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب حکومت اگر اس مسئلے کے مستقل حل کی طرف جا رہی ہے تو پھر اسے لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔

ماضی میں فساد ہوئے تو حکومتوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہر بار عارضی حل کو ترجیح دی گئی۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ جس گروہ کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے وہ سڑکیں بند کر دیتا ہے۔ ہماری پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف خود طویل ترین دھرنوں کا کریڈٹ لیتی ہے۔ عمران خان ماضی قریب میں مختلف شہر بند کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ آخری بار جب انھوں نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو ریاست نے ان کا یہ فیصلہ پوری قوت سے کچل دیا۔

ریاست فیصلہ کرلے تو پھر کوئی گروہ اس کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ریاست مصلحت کا شکار ہونے لگے جو کہ اب تک ہے تو پھر وہ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ مصالحت پسندی کی پالیسی بہت دیر چل چکی اس کا نقصان سب کے سامنے ہے۔ سیاست نے جو معاہدے کرنے تھے کر لیے‘ اب ایکشن کا وقت ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب الطاف حسین کی ایک کال پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ وہ الطاف حسین اب قصبہ پارینہ بن چکا ہے۔ کہیں ڈیل اور کہیں ڈھیل کے تاثر کو بھی اب ختم کرنا ہو گا۔ انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑ لیں اور سب کے ساتھ انصاف کریں۔

عمران خان کہتے تھے ہم دو نہیں ایک پاکستان بنائیں گے۔ وہ پاکستان جس میں عام آدمی اور طاقتور ترین شخص کے لیے ایک قانون ہو گا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک سے فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنا ہے تو یہی وقت ہے۔ کپتان بھی بھیگی بلی بن گیا تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔

ملک کا مستقل امن اور سکون ایک قدم کی دوری پر ہے۔ بس ایک قدم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔